حور (Companions Pure) کا کم و کاست۔۔حافظ صفوان محمد

نوٹ: یہ تحریر اردو انگریزی بولنے والے عام لوگوں کے لیے ان کی سمجھ میں آنے والے لفظوں میں لکھی جا رہی ہے اور صرف اتنا لکھا جا رہا ہے جو ان کے لیے ضروری ہے۔ اسلامی مذہبیات کی مدرسی تعلیم پائے لوگ اس مضمون کے مخاطب نہیں ہیں!

پہلی بات تو یہ سمجھ لی جائے کہ قرآن کا اسلوب Masculine ہے جیسا کہ دنیا کی سبھی کتابوں اور دیگر متون کا ہوتا ہے۔ اس Masculine اسلوب کو Neutral سمجھنا چاہیے جیسا کہ اب عام طور سے رواج میں ہے۔ چنانچہ قرآن نے جہاں مردانہ اسلوب میں بات کی ہے اسے مرد عورت دونوں کے لیے یکساں سمجھنا چاہیے سوائے اس کے لیے مردوں یا عورتوں کو خاص طور سے مخاطب کیا گیا ہو۔

محمد اسد نے The Message of the Quran میں قدیم مفسرین اور محدثین کی تحقیقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حور کو تذکیریت و تانیثیت سے ماورا قرار دیا ہے اور اس لفظ کا ترجمہ Companions Pure کیا ہے۔ یہ نہایت درست ترجمہ ہے اور حور کو وجود (Body) تسلیم کرنے والوں کے ہاں اس سے بہتر توجیہہ ممکن نہیں، یعنی یہ ایسے وجود ہوں گے جو جنتی مرد عورت دونوں کے لیے ہوں گے اور بطور ساتھی انھیں دیے جائیں گے۔ یہ جنتی مرد و عورت ان “پاک ساتھیوں” کو اپنی کون کون سی خواہشیں پوری کرنے کے لیے استعمال کریں گے، قرآن اس بارے میں Categorically کچھ نہیں بتاتا۔

واضح رہے کہ چونکہ جنت میں مرد اور عورت دونوں ہی نے جانا ہے اور عقل یہ کہتی ہے کہ اگر وہاں سیکس ہوگی تو اس کو اعلیٰ پیمانے پر پورا کرنے کا حق دونوں کو ملے گا اس لیے قرآن جنت میں سیکس اور جنسی تسکین کے موضوع پر بالکل خاموش ہے چنانچہ بہتری اسی میں ہے کہ قرآن کو خدا کی کتاب ماننے والوں کو بھی اس بارے میں خاموش رہنا چاہیے۔ اگر جنت میں گئے تو وہاں کی مصنوعات کے لیے نسخہ ترکیبِ استعمال بھی عطا ہو جائے گا۔ پریشانی کیسی؟

قرآن کا متن واضح کرتا ہے کہ یہ متذکرہ پاک ساتھی تعداد میں دو یا تین نہیں بلکہ زیادہ ہوں گے۔ تاہم ان کی تعداد کا متعین 72 ہونا قرآن میں کہیں مذکور نہیں ہے۔ یاد رہے کہ 70 کی تعداد عربی کا اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے ہمارے ہاں بیسیوں کا لفظ چلن میں ہے، جس کا مطلب خاصی زیادہ تعداد ہوتا ہے۔

نیز یہیں سے غلمان کا Function بھی واضح ہو جاتا ہے، کہ وہ ایک ایسی مخلوق ہے جو جنتی مرد عورت دونوں کی خدمت یعنی service کے لیے ہوگی۔

اب مجھے علامہ اسد کے اس بنیادی تصور سے اختلاف کرنے کی اجازت دیجیے کہ حور کوئی مخلوق ہے۔ میرے نزدیک حور ایک علامت ہے جو بطورِ انعام بعض جنتیوں (مرد عورت دونوں) کو ملے گی۔ تاہم اگر یہ جسمانی وجود ہے تب بھی یہ ایک ملازمہ یا ورکر کے طور پر ایک سہولت ہے جو درجات کے مطابق ملے گی، اور سب کو ملنی بھی نہیں جیسے ہمارے طبقاتی نظام میں ہر بندے بندی کے پاس ملازم نہیں ہوتا۔ اور ملازمین میں فقط حور نہیں ملنی، غلام یعنی غلمان بھی ہوں گے۔

یہاں اس مزاحیہ سوال کا جواب بھی ازخود مل گیا کہ چلو مان لیا کہ مومنین کو اجر میں حوریں ملیں گی مگر حوروں کو کس گناہ کی پاداش میں مومن ملیں گے؟

تاہم سورۃ الرحمٰن میں مذکور حور اور اس کے بعد “مقصورات” کے مونث جمع اسمِ صفت اور اس سے قبل “فیھن” کا استعمال بتاتا ہے کہ حور، علامہ اسد کی تاویل کے برعکس، مونث ہی ہے۔ چنانچہ سورۃ الرحمٰن والی اس مخصوص حور کو میں باقی قرآن میں آنے والی حور سے الگ سمجھتا ہوں اور یہ رائے رکھتا ہوں کہ چونکہ نزولِ وحی کے وقت کا اولین مخاطب مجمع ایک کثیر الازواج معاشرہ تھا جس میں جنسی حوالوں سے بھرپور شاعری اور Debauchery ایک طے شدہ سماجی سامانِ تفاخر تھا اس لیے مخاطبین کو مابعد الطبیعیات کی ایسی کشش دینا ضروری تھا جو موجود دنیاوی لذات سے بہتر ہو، چنانچہ بہترین شرابیں اور بہترین جسمانی خصوصیات سے مزین عورتیں ذکر کی گئیں اور ان کی دائمی بکارت وغیرہ کا ذکر کیا گیا۔

اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا جنت میں سیکس ہوگی؟ سیکس کا مقصد تولید بتاتا ہے کہ نہیں ہوگی۔ سیکس کے بعد نجاست کا تصور اور غسل کی ضرورت بھی بتاتی ہے کہ نہیں ہوگی۔ جنسی جبلت تولید کو قائم رکھنے کے لیے انسانوں (اور جانوروں) میں ڈالی گئی ہے۔ سو یہ بقا کے لیے دیا گیا ایک ٹول ہے۔ اسی طرح دوسرے کی جان لے لینا، اس پر حملہ کرنا، وغیرہ سب بقا کے ٹول ہیں۔ جنت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہاں موت نہیں ہوگی اس لیے جنت میں بقا کی جنگ ہوگی ہی نہیں۔ جب فنا سے بچنے کی جنگ نہیں ہوگی تو بقا کے ٹولز میں سے کچھ نہ ہوگا۔ بقا کی ساری جنگیں دنیا ہی میں چھوڑ کر جنت میں جانا ہوگا۔ وہاں پر جب بقا ہی بقا ہے تو کیا ثبوت ہے کسی کے پاس کہ جنت میں مردوں عورتوں کے پاس بقا یعنی سیکس کے ہتھیار موجود بھی ہوں گے؟ اب قارئین ہی بتائیں کہ پھر سیکس کیوں ہوگی خواہ بیویوں سے سہی؟ کیا دلیل ہے آپ کے پاس کہ جنت میں سیکس ہوگی؟ آپ کے پاس سوائے اس کے کیا دلیل ہے کہ سیکس آپ کو پسند ہے اور آپ کے دماغ پر بری طرح سوار ہے؟ کیا آپ اپنے اسی غلیظ ذہن کی وجہ سے ہر وہ دعویٰ نہیں کر رہے جس کا ذکر قرآن میں ہے ہی نہیں؟

بارِ دگر اور بالوضاحت عرض ہے کہ یہ تصور محض جنسی گھٹن زدہ دماغ کی پیداوار ہے کہ جنت میں انسان ایکس وائی زیڈ کرے گا۔ جب قرآن نے ایسا کچھ نہیں بتایا تو اس پر اصرار کیوں؟ کیا یہ توہینِ وحی نہیں ہے؟ اس موقع پر قرآن کے لفظ لم یطمثھن سے مزہ لینے والے یہ سوچ لیں کہ “قرآن کو چھو نہیں سکتے” بھی قرآن کے ہی الفاظ ہیں۔ ان چھوا ہونے کا واحد مطلب unsexed نہیں ہے۔ سو اگر آپ چوبیس میں سے چوبیس گھنٹے سیکس کو سوچتے ہیں تو آپ ان چھوا کو باکرہ سمجھ سکتے ہیں ورنہ قرآن نے یہ بھی کہا کہ اسے (قرآن کو) کافر چھو نہیں سکتے۔ اس کا مطلب اب خود سمجھیے کہ قرآن کو نہ چھونے کا مطلب کیا کیا ہوسکتا ہے؟

القصہ حور کے بارے میں قرآن کے الفاظ کے سوا جو بھی کچھ ہے وہ مجمع باز مقررین اور سانڈے کا تیل بیچنے والوں کی Desperation کی افسانہ گوئی ہے۔ ادبی پیرائے میں اسے زیبِ داستاں کہہ لیجیے۔

اب اس سوال کا جواب کہ حور ہماری دنیا والی عورت ہوگی جس کا Refurbished ماڈل جنتی مرد کو دیا جائے گا یا یہ کوئی نئی مخلوق ہوگی، یا یہ ہمارا دنیا والا مرد ہوگا جس کا Refurbished ماڈل جنتی عورت کو دیا جائے گا یا یہ کوئی نئی مخلوق ہوگا، اوپر کی گئی بات سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ جو بھی ہوگی/ہوگا، اپنی ساخت اور مزاج کے اعتبار سے اعلیٰ تر ہوگا اور وقتیا جانے (outdate) والی چیز نہیں ہوگا۔

رہا یہ سوال کہ حور کا قد کتنے فٹ ہوگا، تو اس بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ فٹ کا مقداری پیمائشی نظام غالبًا گیارھویں صدی عیسوی میں برطانیہ سے شروع ہوا (تفصیل گوگل کرلی جائے) یعنی اسلام کے ظہور سے کوئی چھہ صدی بعد، لہٰذا حور کے قد کو فٹوں میں ناپنا ویسا ہی لطیفہ ہے جیسا زکوٰۃ کے لیے ساڑھے سات تولہ سونے کی مقدار کو فرض سمجھنا۔ ذرا عقل استعمال کیجیے کہ حور کی دیومالائی جسامت کس قدر ہوسکتی ہے کہ جب قرآن کی آیت میں اس کو خیموں میں بیٹھا بتایا گیا ہے؟

انسان اس چیز کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے جس سے عقیدت ہوجائے یا خوف پیدا ہوجائے۔ مثلًا قدیم بزرگوں کی قبریں لمبی لمبی بنانا اسی وجہ سے ہوا۔ عقیدت مندوں کے ہر ہجوم نے کسی بزرگ کی قبر کے سائز میں سو سال میں اگر دو فٹ اضافہ کیا ہو تو چھہ فٹ کی قبر ہزار سال میں چھبیس فٹ کی ہوجائے گی۔ انسان شروع سے اسی خوبصورت متوازن قد کے ساتھ ہے جس میں وہ آج ہے، یعنی وہی قد جو جنابِ محمد علیہ السلام کا تھا۔ چنانچہ بعض مقررین جو مابعد الطبیعیات (درست: مابعد اللغویات) کے ذکر میں سیکڑوں فٹ لمبی حوروں کا سراپا بیان کرتے ہیں یہ قدیمی دیومالائی روایات کی بازگشت ہے جس میں ماورائے انسان مخلوق سے ایسے مظاہر وابستہ کیے جاتے تھے۔ وہاں ان کا مقصد خوف دلانا ہوتا تھا اور اگر مزے کی چیز ہے تو اس سے لذت کا وفور دکھانا۔ قرآن میں کسی مخلوق کا قد غیر معمولی طور پر بڑا نہیں بتایا گیا۔

حوروں کے سراپے اور وائٹل سٹیٹسٹکس کی لذت شار تفصیلات کے لیے قدیم ماقبل مسیحی مذہبی لٹریچر سے Nymphs اور Virgins of Paradise وغیرہ کو پڑھ لیجیے تو آپ کو ان مقررین کی معلومات کے مآخذ کا پتہ لگ جائے گا۔ قدیم عرب لٹریچر میں بھی عورت کی سوائے جنسی کھلونے کے کچھ حیثیت نہیں ہے۔ قرآن، البتہ، ایسی کسی تفصیل سے خالی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ حور اور اس سے متعلق تمام چیزوں کی بہتر تاویل انھیں متشابہات قرار دینا ہے۔ اور مختصراً سمجھ لیا جائے کہ جنت کا بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ اس میں موجود سب مرد عورتوں کی خواہشات بلا تردد پوری ہوں گی۔ اگر قرآن کے علاوہ کسی تفصیل کا راستہ کھولتے ہیں تو یہ سب معلومات یہود و نصاریٰ کے قدیم مذہبی لٹریچر سے مراجعت کے بغیر ممکن نہیں، اور یہ وہ چیز ہے جس پر دربارِ نبوت میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ خدا سمجھ دے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”حور (Companions Pure) کا کم و کاست۔۔حافظ صفوان محمد

  1. سوری رحمان میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کہ وہ ان چھوئی ہوں گی(مفہوم)
    میں بحثیت طالب علم اس بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہوں گی۔

Leave a Reply