اب عرفان کا زہر زباں پہ نہ آئے گا ۔۔۔۔محمد وقار اسلم

حق گوئی بے باکی کو پسند کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے لاگ بھی رہا جانا ضروری ہے ،انسان کو یکتا عمل پر کاربند رہنے کی تحریص ملے یہ بھی حوصلہ افزاء بات ہے لیکن ہم سچ بیانی کو تمام تر خطرات کا خدشہ مول لے کر جاری رکھنے کی جسارت اس لئے نہیں کر سکتے کہ ہر کسی کا کوئی اپنا ہے ،ایک فیملی بیک گراؤنڈ  ہے۔ ایک کلیہ ہے ایک ضابطہ ہے جس کے تحت آپ کو اس بات کا تعین کرنا ہے کہ بہادری اور بیوقوفی  کے درمیان ایک باریک دھارے سے آپ کہیں حماقت کے گڑھے میں گر نہ پڑیں۔کیونکہ متعین کردہ حدود کو پار کرنا ابلاغ کے لئے بازیچہ اِطفال اس لئے نہیں ہے کہ انہیں سخت گائیڈ لائنز دی جاتی ہیں ،اوران کو زیرِنگرانی رکھا جاتا ہے۔مجھے کسی واحد اپنے نے یہ بغاوتی طرز کی تحریریں لکھنے سے روک دیا ہے اور صرف اچھے اچھے اصلاحی کالم لکھنے کی تنبیہہ  کی ہے۔بہتر تریاق رکھنا ہر کسی صاحبِ عقل کا حق ہے اور اس سے محروم رکھا جانا قابلِ قبول نہیں تصویر کے دونوں رُخ خود بھی دیکھنا اور دکھانا بھی راقم جیسوں کا فرض سمجھا جاتا ہے، عالمی قوتوں کا اہم فیصلوں پر اثر انداز  رہنا بھی باعث تفکر اور فکری اعتبار سے بڑے ہچکولے کی بات ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں میں کتنی کامیاب رہتی ہے اس کا پتہ تو لگ ہی جائے گا خیر ہر پاکستانی کو یہ آرزو بر لائی ہے کہ ملکی استحکام کے لئے بہتر اقدام کئے جانے چاہییں اور دعا بھی یہ ہی ہے کہ اپنے اچھے مقاصد میں پی ٹی آئی کامیاب رہے۔تونسہ جیسے نظر انداز ہوئے علاقے سے وزیرِ اعلیٰ آنا بہت اچھا قدم ہے اگر بزدار صاحب کٹھ پتلی کی بجائے اپنے جیسے عام لوگوں کے غم گسار رہ سکیں، کُرسی انہیں سہراب کے پر لگا کے اونچا نہ اڑا دے۔وزیرِاعظم بیوروکریسی کو اپنے ماتحت رکھنے یا گھر کا کُکڑ بنا کر رکھنے کو تیار نہیں، نہ ہی اپنی سرپرستی کرنے یا اپنے شخصی دباؤ کے زیر سایہ چلانے پر رضامند ہیں انہوں نے اہم بیوروکریٹس اور ان کی کارکردگی پر فہرستیں تیار کر لی ہیں اور وہ اچھے کردار والے بابو کو بغیر کسی پریشر کے کام کرنے دینے کی جستجو لئے سوچ و بچار کر رہے ہیں۔ اہم تقرر و تبادلے کئے جانے کا امکان ہے یہ بات طے ہے کہ وزیرِ اعظم پوری نیک نیتی سے کانٹ چھانٹ سے یہ فیصلے کریں گے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں یہ ملک کا معاملہ ہے اسے فہم و فراست سے دیکھا جانا یقینی ہونا چاہیے۔ایسا قفس جو مجبوریوں کو آڑے لے آئے ،فیصلوں میں ردو بدل لے آنے کا سبب ضرور بن سکتا ہے مگر اپنی لگن کو سامنے رکھتے ہوئے اس احتمال کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ میری تقرریوں پر اہم لوگوں سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ واقعی بیوروکریسی ہی تو ملک چلاتی ہے ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ سراسر نقصان کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے جب کپتان کو اس سب سے نمٹنا ہے اداروں کا وقار بلند کرنا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ عثمان بزدار کو سب سے بڑے صوبے کے فیصلے کرنے میں بہت احساس ذمہ داری دکھانے کا عندیہ دیں۔چونکہ یہ افسر بابو ہی تمام اسکیمیں رکھتے ہیں اور مدرک ہوتے ہیں کہ کیسے کس طرح کسی کارِ ترقی کو انجام دلایا جائے تو ان کا چناؤ یا ذمہ داری کا سونپا جانا تمام تر باتوں کا جائزہ لینے کے بعد کیا جانا چاہیے۔
جو بھی درونِ دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
اب آگہی کا زہر زباں پر نہ آئے گا

معروف صحافی برادرم مسعود چوہدری نے سب سے پہلے 10 اگست 2018 ء کو 27 اہم عہدوں پر پنجاب اسمبلی میں دی جانے والی ترقیوں پر سب سے پہلے کالم لکھا وہ لکھتے ہیں کہ کل 27! مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا اور سمجھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کا ایک انتہائی اہم آئینی ادارہ جس کے ذمہ قانون بنانے کی انتہائی اہم ذمہ داری ہے اس میں موجود انتہائی اہم دماغوں سے ناراض ہو کر کسی صحافی بھائی نے خبر لگا دی ہے۔ لہذا کچھ صحافتی تحقیق کے بعد مجبور ہو گیا کہ حقیقت حال اپنے قارئین کی نذر  کی جائے اور مل کر اپنی قوم کے بڑوں کی بے حسی کا ماتم کیا جائے۔پنجاب اسمبلی کے 1986  کے افسران کی ترقیوں سے متعلق مروجہ اصول کے مطابق ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی (DPC) تین ممبران سے کم پر مشتمل نہیں ہو سکتی اور گریڈ 17 یا اس سے اوپر کی ترقیوں کے لیئے ڈی پی سی ممبران میں سپیکر پنجاب اسمبلی کا شامل ہونا لازمی ہے جبکہ سپیکر کی غیر موجودگی میں یہ فرائض ڈپٹی اسپیکر سرانجام دیتا ہے  لیکن اس صورت میں بھی وہ بطور اسپیکر ہی فرائض سرانجام دے رہا ہو گا۔ جبکہ باقی ماندہ کے لیئے سیکریٹری کا موجود ہونا لازمی ہے۔

ان ترقیوں کے لیئے بلائی جانے والی ڈی پی سی بغیر سپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کے کیسے عمل میں لائی جا سکتی تھی؟ کیونکہ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ جون کے مہینہ میں جبکہ یہ ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی کے اجلاس بلا کر منظور نظر خواتین و حضرات کو نوازا جا رہا تھا اس وقت سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں الیکشن لڑ رہے تھے اور اپنے منصب کے قلمدان عملی طور پر الیکشن کمیشن کے حوالہ کر چکے تھے۔ یہ صاف صاف مروجہ قوانین کے ساتھ وہ مذاق ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ اس سب کے مرتکب افراد شاید کبھی قانون کی گرفت میں نہ آسکیں کیونکہ آخر کار اتنی بڑی تعداد کے افسران ہی نے کار سرکار بھی تو چلانے ہیں۔محمد خان بھٹی جیسا قلندرِ حق جس نے کچھ ماہ قبل ہی چارج دوبارہ سنبھالا ہے ان کی وساطت سے یہ سچ آپ تک پہنچا ہے کہ کس طرح کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہوئی۔

عارف شاہین صاحب اورعلی عمران صاحب کو ایڈیشنل سیکریٹری گریڈ 19 سے اسپیشل سیکریٹری گریڈ 20،طارق محمود صاحب کو AAA گریڈ 18 سے ڈائریکٹر آرء ٹی گریڈ 19، حافط خورشید صاحب کو پرائیویٹ سیکریٹری گریڈ 18 سے سٹاف افسر گریڈ 19، نوید اسلم صاحب کو سینئراسٹیٹ افسر گریڈ 18 سے ایڈیشنل سیکریٹری گریڈ 19، غلام معین الدین، عامرحبیب، اور فیض الباسط صاحبان کو ڈپٹی سیکریٹری گریڈ 18 سے ایڈیشنل سیکریٹری گریڈ 19، سجاد صدیقی صاحب کو ڈپٹی ڈائیریکٹر گریڈ 18 سے ڈائیریکٹر گریڈ 19 میں ترقی دے دی گئی۔فیصل بٹر صاحب، تہمینہ تابش صاحبہ، نعیم اختر صاحب، اور رائے سلیم صاحب کو اسسٹنٹ سیکریٹری گریڈ 17 سے ڈپٹی سیکریٹری گریڈ 18 میں ترقی دے دی گئی ۔ سلطان احمد صاحب سینئر ٹرانسلیٹر گریڈ 17 کو ڈپٹی ڈائیریکٹر گریڈ 18 جبکہ خالد محمود صاحب سینئر ٹرانسلیٹر گریڈ 17 کو ڈپٹی سیکریٹری گریڈ 18 میں ترقی دے دی گء۔ جبکہ دیگر ترقی پانے والوں میں رائے مظہر صاحب، عادل شہزاد صاحب، عبدالصمدصاحب، عدنان ریاض صاحب، عبدالقہارصاحب، محمد میاں جمیل صاحب، عظیم بٹ صاحب، منور صاحب، مصطفی صاحب، اشفاق صاحب، اور محسن نور صاحب شامل ہیں۔جب ایک عام آدمی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس سے اس جگہ پر موجود چند ایک افراد متاثر ہوتے ہیں۔ جب ایک قانون کا رکھوالا قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس سے لوگوں کا قانون پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور عوام الناس قانون کی پاسداری سے منحرف ہونے لگ جاتی ہے لیکن جب ایک قانون بنانے والا جس کے ذمہ معاشرہ کی رہبری کی اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے قانون کی دھجیاں اڑاتا پایا جاتا ہے اور قانون کو کسی خاطر میں نہیں لاتا تو یہ عمل معاشرہ کی تباہی پر مہرتصدیق ثبت کر دیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہمارے آئینی اداروں میں بیٹھے بڑے اعلیٰ معاشرتی اقدار کا نمونہ بنیں وہ تو خود اس جستجو میں ہیں کہ کیسے اپنے منظور نظر خواتین و حضرات کو نوازنا ہے۔ اب ہر جگہ تو چیف جسٹس نوٹس نہیں لے سکتے اور نہ ہی نیب پہنچ سکتاہے۔ کچھ تو ہمیں خود بھی آئینہ دیکھنا ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

انہوں نے بہت دلچسپ اسرار و رموز دکھلائے اور بتائے ہیں اب ملک بھر کی بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہوجائے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ جسے بھی سیکرٹری،ہوم سیکرٹری،چیف سیکرٹری اور دیگر اہم ذمہ داریاں دی جائیں اس کا کٹھا چٹھا کھول کر سامنے رکھا جائے اور پھر ہی اسے کلین چِٹ دی جائے ہمارے پاکستان کے بیوروکریٹس میں بیشتر احسن ہیں اور وہ کسی بھی غلط کام میں حکمران کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں ایسے اچھے لوگوں سے ملک بھرا پڑا ہے مگر افسوس لائم لائٹ میں یا فوکس میں صرف چند کرپٹ لوگوں کو دکھایا جاتا ہے جو اچھے ایمپریشن کو مندمل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ہیں ان کے کئے کو زائل کرنے کے لیئے اچھے کھرے لوگوں کی تعیناتی ضروری ہے کیونکہ اگر ایسے ہی سفارشی اور کھلنڈرے قسم کے لوگ اوپر آتے رہے تو شدید چاہت اور کوشش کے بعد بھی ملک کی تقدیر سنور نہیں سکے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply