عورت کمتر نہیں۔۔اسماعیل گُل خلجی

میں بچپن سے ایک مشہور کہاوت سنتا آ رہاں ہوں کہ “عورت مرد سے کمتر ہے” یہ کہاوت کسی حد تک درست ہے اور وہ اس لئے کہ عورت اپنے کچھ اوصاف اور ان کے اظہار میں مرد سے کمتر ہے ۔ مثلاً جسمانی طاقت اور بہادری ایسے اوصاف ہیں جن میں مرد عورت سے بالاتر ہے ۔ اور عورتوں کی  ایک وسیع تعداد اپنے تحفظ کے سلسلے میں مردوں پر انحصار کرتی ہے ۔ چونکہ ہم پدرسری نظام میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اس نظام میں جہاں عورت مرد کے مظالم کا شکار ہے وہاں وہ اپنے تحفظ کے لئے مردوں پر انحصار کرتی ہے۔

لیکن، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عورت کو قدرت نے ایک خاص وصف سے نوازا ہے جو مرد میں نہیں ہے ۔ قدرت نے عورت کی  کوکھ زرخیز بنا کر اسے تخلیقیت کے خدائی وصف میں حصہ دار بنایا ہے۔

وہ روح کو روئے زمین پر لانے کی وجہ بنتی ہے ۔ عورت ہمیشہ تخلیق کرتی ہے اور جب تک یہ کائنات قائم رہے گی عورت کی تخلیقیت بھی قائم رہے گی ۔

یہ عورت ہی ہے جو ہمیشہ معاف کرتی ہے، برداشت کرنا جانتی ہے، درگزر کرنا اور درد سہنا جانتی ہے اور کبھی کبھی تو وہ بیرونی حالات کی وجہ سے اپنے درد کا اظہار بھی نہیں کرتی ۔ یہ اس کی فطرت ہے کہ وہ امن چاہتی ہے، محبت چاہتی ہے، والد، بھائی یا شوہر کو دکھ میں دیکھ کر عورت ہی ان کے  دکھ گھٹانے میں مدد کرتی ہے۔ وہ ہمیشہ تعمیر کا سوچتی ہے، غلامی سے نفرت کرتی ہے، محبتیں بانٹنا اور رشتے جوڑنا جانتی ہے ۔

اس کے برعکس مرد کے اندر ایک بے قراری اور ادھورا پن ہے ۔ کبھی خود کو مطمئن نہیں سمجھتا، شدت پسندی اور انتہا پسندی میں ہمیشہ مرد ہی نظر آتا ہے ۔ چنگیز خان، ہلاکو خان اور ہٹلر جیسے سفاک مردوں  کے  تشدد کی  داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ یہ مرد ہی ہے جو ہمیشہ حاکم بننا اور فتح حاصل کرنا چاہتا ہے، زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی  کرنا چاہتا ہے اور اس لالچ میں وہ اپنے راستے میں کھڑی  ہر رکاوٹ کو جبر اور تشدد سے ہٹانے میں  کوئی عار محسوس نہیں کرتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

عورت ہی تو ہے جس سے وہ تمام تر کمزوریوں اور ناکامیوں کا بدلہ با آسانی لے سکتا ہے ۔ کیونکہ صاحب جو کچھ کماتا ہے اور اس کمائی کی  خاطر وہ عورت کو چار دیواری میں بند کرکے  اپنی بادشاہت منواتا ہے ۔اپنی آسودگی کے لئے شادی نہیں شادیاں کرتا ہے، پھول جیسی بچیوں کو بھی جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہے ۔ اور جب بے بس اور کمزور عورت اپنے جیون ساتھی کا  انتخاب کرتی ہے، اسے غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے ۔ میں کس دکھ، درد  اور ظلم کو اپنے کاغذ کی  زینت بناؤں، جو عورت ازل سے سہتی آ رہی ہے ۔ قدرت اگر مرد کو  بھی کوکھ دے  کر بھیجتا، تو شاید آج یہ جبر اور تشدد دیکھنے کو نہیں ملتا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply