سرکنڈا (Reeds)۔۔ثنا اللہ خان احسن

ایک قسم کی لمبی اور پتلی پتی والی گھاس کے پھول کا ڈنٹھل جو دس بارہ فٹ لمبا اور ہاتھ کی انگلی کے برابر موٹا ہوتا ہے۔ عموماً چھپر اور بعض دیگر چیزیں نہانے میں کام آتا ہے۔ اس کی چھال کو مونجھ کہتے ہیں پیڑ جھنڈ کہلاتے ہیں، بینڈ، سینٹھا، نرکل، لاظ – کانا- سٹا-
اس کے باریک تنکوں سے جھاڑوئیں بنائی  جاتی ہیں جبکہ مونجھ کو کوٹ کر اس کی رسیاں بنائی  جاتی ہیں-
سرکنڈےکو انگریزی میں Reed کہتے ہیں۔

امریکہ میں اس کی ایک قسم پمپس گراس ( Pamps Grass) کہلاتی ہے جس کے روئی  کے بور جیسے پھول مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں
سرکنڈا اکثر خالی میدانوں میں اور دریا جھیل کے پاس میلوں میل پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ ندی نالوں کے کنارے یا جوہڑ جھیل تالاب کے ساتھ میلوں تک پھیلے ہوتے ہیں- جب ہوا چلتی تو ان کے روئی  کےبور نما پھول دور تک لہراتے ہوئے ایسے لگتے ہیں جیسے کوئی سفید جناتی مخلوق ایک تال اور لے میں رقص کررہی ہو- رات کے وقت ان کے درمیان موجود کیچڑ نما دلدل میں سینکڑوں مینڈکوں کی ٹر ٹر اور پن ڈبیوں اور رہ رہ کے شور مچاتی ٹٹیریوں کا شور ایک عجیب ماحول پیدا کردیتا ہے-

گزرے وقتوں میں اس سے قلم بھی بنتے تھے جن کو دوات میں ڈبو کر ان سے لکھا جاتا تھا۔ تختی پر لکھنے کے لئے بھی قلم اسی سے بنایا جاتا تھا۔
سورہ العلق میں ہے کہ اﷲ نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ جامع ترمذی کی حدیث 2233 میں حضور پاک ﷺ سے مروی ہے کہ
اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ عربی زبان میں ’’ قلم‘‘ کے معنی کاٹنے یا تراشنے کے ہیں۔ یہ ایک عمومی تجربے میں آئی حقیقت ہے کہ تراشنے اور کاٹنے سے ہی کوئی چیز انسانی استعمال کے قابل بنتی ہے۔

سن ستر کی دھائی  تک  سکولوں میں تختی پر خوشخطی کروانا معمول تھا- پہلی جماعت سے ہی بچوں کو لکڑی کی تختی پر سرکنڈے کے قلم سے الف ب پ  لکھوانے کی مشق کروائی جاتی تھی- روزانہ لکڑی کی تختی کو ملتانی مٹی سے لیپ کر اگلے دن کے لئے تیار کرلیا جاتا تھا- سیاہی  کی دس دس پیسے کی پڑیاں بازار میں ملا کرتی تھیں- ایک پڑیا کو شیشے کی بنی چھوٹی سی بوتل میں ڈال کر اچھی طرح گھول لیا جاتا تھا اور اس دوات میں کسی سوتی کپڑے کی چھوٹی سی چار تہہ والی گدی بھی ڈبو دی جاتی تھی جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ جب قلم دوات میں ڈبویا جائے تو اس کی نب خراب نہ ہو- قلم بنانے کے لئے مناسب سائز کا سرکنڈے کا سٹا استعمال کیا جاتا تھا جس کے ایک سرے کو تیز چاقو یا بلیڈ کی مدد سے چھیل کر قلم کی شکل دی جاتی تھی لیکن قلم کی لکھائی کی تمام تر خوبصورتی کا دارومدار نب کے اگلے حصے کو ایک خاص زاوئے سے تراشنا ہوتا تھا- یہ کام عموما” استاد کرکے دیا کرتے تھے-

جس کے گھر کوئی خوش خطی جاننے والا ہوتا تھا، وہ تو پھر کچھ قلم بنانا اور دوات تیار کرنا سیکھ جاتا تھا۔ ورنہ اکثر بچے تو نوک دار قلم سے ہی ٹیڑھا میڑھا لکھ لاتے تھے، دوات بھی بہہ رہی ہوتی تھی۔ بس لکھ کر لانی ہوتی تھی، درست کروانے والا کوئی نہ ہوتا تھا۔ لیکن بعض اساتذہ بڑی محنت اور توجہ سے بچوں کو خوشخطی سکھاتے تھے- دوات کو پکا اور سیاہ چمکدار بنانے کے لئے بھی مختلف نسخے و ٹوٹکے آزمائے جاتے تھے جن میں دوات میں چینی ڈالنا، ذرا سی مٹی ڈالنا یا پھر درخت کا گوند شامل کرنا تھا- گوند والی سیاہی واقعی بہت پکی اور چمکدار ہوتی تھی-

اکثر انگریز شعرا نے اپنی شاعری میں قلم کے لئے ریڈ (Reed) کا لفظ ہی استعمال کیا ہے- ‫اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کا اندازہ ہوتا ہے۔

‫ترجمہ: پڑھ اور جان کہ تیرا رب کریم ہے، جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے ، سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔‬

سرکنڈوں سے چقیں اور چٹائیاں و دیگر سامان بھی بنایا جاتا ہے۔ اکثر بنجارے لوگ اس کے سٹوں کی مدد سے مختلف کھلونے بھی تیار کرتے ہیں جن میں رنگ برنگے کاغذ بھی لگائے جاتے ہیں۔ جیسے کی رنگ برنگی پھرکی، ڈھولکی والی بیل گاڑی کہ جب اس کو گھسیٹو تو ربڑ بینڈ کی مدد سے لگا ایک چھوٹا سٹا مستقل ایک نقارے نما ڈھولکی کے تنے ہوئے کاغذ پر ڈرم کی اسٹک کی طرح چوٹ مارتا ہے اور ایک ٹر ٹر ٹر کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ بنجارے ان کی مدد سے بے شمار کھلونے بنانے کا فن جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ زرا پتلے سٹوں سے روٹی کی چنگیریاں، چھاج، ٹوکریاں، چقیں چٹائیاں وغیرہ بھی بنائ جاتی ہیں۔
موٹے سرکنڈوں سے جھونپڑیاں اور چھتیں بھی بنائی جاتی ہیں۔ یہ آج بھی غریب آدمی کو سر چھپانے کے لئے سستا سایہ فراہم کرتا ہے- لکڑی یا بانس کا فریم بنا کر اس کے اوپر اور اطراف میں سرکنڈے کی بنی چقیں باندھ کر ان کے اوپر گھاد پھونس اور مٹی کے گارے کا لیپ کر دیا جاتا ہے- کچھ لوگ مٹی گارے کے لیپ کا بھی تکلف نہیں کرتے بلکہ صرف سرکنڈے کے چھپر سے ہی کام چلاتے ہیں- کراچی سے خیبر تک آپ کو ہائی  ویز پر اکثر یہ چھپر ہوٹل یا ڈھابے نظر آئیں گے-

ہمارے ایک فیسبک دوست بتاتے ہیں کہ کراچی میں سرکنڈا ایک زمانے میں لیاری اور ملیر ندی کے اطراف میں میلوں پھیلا ہوتا تھا. ملیر کے پل کی نیچے مشرقی سمت باغات تھے جن میں امرود, پپیتا, کیلا, بیر, جنگل جلیبی اور فالسے وغیرہ مشہور تھے۔

ان باغات میں ہم گھومتے, وہیں کھانا کھاتے اور پھر اسی سرکنڑے کو سلگاکر سگریٹ کی طرح پیتے. فائدہ یا نقصان کا تو پتہ نہیں لیکن کم سنی میں اس سگریٹ کا لطف ہی کچھ اور تھا-
راقم نے بھی بچپن میں اس کی سگریٹ کے کش لئے ہیں-اس کا دھواں وغیرہ تو منہ میں نہیں جاتا تھا بس وہ اس کا چھلکا اتار کر سفید تھرموپول ٹائپ  سٹک کا ایک سرا جلا کر اس کو سگریٹ کی طرح منہ میں لئے گھومتے تھے۔ یہ کام گرمیوں کی چلچلاتی دوپہر میں کیا جاتا تھا جب کہ سب گھر والے قیلولہ کرتے تھے لیکن ایک دن امی نے ہم کو یہ سگریٹ پیتے دیکھ لیا۔ اور پھر۔۔۔طبیعت ایسی ستھری کر دی کہ آج تک نہ سرکنڈے کی اور نہ اصلی سگریٹ پینے کی ہمت ہوئی ہے نہ حاجت۔

نرسل:
ایک قسم کا پودا جس کے درمیان میں سرکنڈے کی شکل کی مگر بیچ میں سے خالی اور سخت نکلتی ہے اس سے حقوں کے نیچے اور پتوں سے چٹائیاں بنتی ہیں نیز ایک قسم کی گھاس۔
اس کی ایک قسم اندر سے بانس کی طرح کھوکھلی ہوتی ہے- اسے نرسل کہا جاتا ہے-
نرسل سرکنڈے کے مقابلے سخت اور مضبوط ہوتی ہے اور اس کے بیچ میں ایک نالی نما خلا ہوتا ہے۔ اکثر پرانے زمانے میں قلم نرسل سے ہی بنتے تھے کہ وہ سخت ہوتی ہے اور اس کی تراشی ہوئی  نب برسوں چلتی تھی۔ نرسل کی پتلی نلکی کو بطور اسٹرا بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے- پرانے زمانے میں جو مریض اس قدر کمزور ہوجاتے تھے کہ اٹھ کر پانی بھی نہ پی سکتے تھے تو ان کو نرسل کی لمبی نلکی گلاس یا پیالے میں ڈال کر لیٹے لیٹے پانی وغیرہ پلایا جاتا تھا- حقہ بھی نرسل کی نلکیوں کی مدد سے ہی بنایا جاتا ہے- یہ بانس کی فیملی کا جھاڑ ھے ۔۔۔اس میں کئی قسمیں ہیں۔
اس میں بینت ( Cane) بھی شامل ھے جس کی جلد مضبوط لچکدار اور سخت ہوتی ہے ،جس سے کبھی پلاسٹک کی ایجاد سے قبل کرسیاں بُنی جاتی تھیں ۔۔بینت ۔۔بتان یا رتان بھی کہلائی  جاتی ہے۔ بینت کا بنا فرنیچر اور ٹوکریاں و آرائشی سامان آج بھی بہت مقبول ہے۔

ضلع اٹک اور گرد و نواح میں اسے سروٹ کہا جاتا ہے کانا اس کے تنے کو کہتے ہیں ۔اس کا سٹہ جو ابھی نوخیز ہو اور غلاف سے نہ نکلا ہو نہایت مزیدار ہوتا ہے پیاس کو تسکین دیتا ہے- مصر میں دریائے نیل کے کنارے سرکنڈے کی ایک قسم پیپرس (Papyrus) ہزاروں سال سے موجود ہے- کہا جاتا ہے کہ قدیم مصر میں اس پیپرس کے چھال سے ہی کاغذ نما مٹیریل تیار کیا جاتا تھا جس پر لکھا جاتا تھا- اس پیپرس سے ہی انگریزی لفظ پیپر بنا جو کاغذ کے لئے بولا جاتا ہے- قدیم مصر میں فرعون کے ادوار کی تمام دستاویزات اور مزہبی کتب اسی پیپرس پر لکھی جاتی تھیں- آج بھی مصر اور افریقہ میں پیپرس سے بے شمار سامان بنایا جاتا ہے-

سرکنڈے کے طبی فوائد
سرکنڈے کے طبی فوائد بھی ہیں۔ طب بلغم، صفرا اور نشے کو دور کرتا ہے اس کی جڑ کا لیپ امراض میں مفید ہے اس سے سرمہ، زخم پر لگانے کا سفوف اور دیگر ادویات تیار ہوتی ہیں۔
“وید کہتے ہیں کہ سرکنڈا میٹھا کڑوا، کچھ گرم مقوی اور باد اور منی کا بڑھانے والا ہے . جوڑوں کا درد دفع ہوتا ہے” ( ١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ٣٤٥:٤ )

یہ چینی ہربل ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے-
چینی رتوایتی طریقہ علاج کے مطابق سرکنڈے کی جڑ کو اچھی طرح دھو کر خشک کر کے پاوڈر بنالیا جاتا ہے۔ اس کی خوراک نو سے تیس گرام تک ہے، چینی طریقہ علاج میں یہ سفوف جسم کی گرمی،- پھیپھڑوں اور مثانے کی گرمی: پیشاب کی جلن اور رکاوٹ متلی اور دماغی سکون کے لئے استعمال کیا جاتا ہے-

اس کی جڑ کا جوشاندہ گردوں سے پتھری نکالنے کے لئے مفید ہے۔ سرکنڈے کی جڑ اور گوکھرو کا جوشاندہ پلانے سے فیل شدہ گردے بتدریج بحال ہونا شروع ہو جاتے ہیں،ڈائیلیسز سے جان چھوٹ جاتی ہے-
کانے کی جڑ اور گوکھرو کا جوشاندہ پلانے سے فیل شدہ گردے بتدریج بحال ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ڈائیلیسز سے جان چھوٹ جاتی ہے.
گوکھرو کو بکھڑا بھی کہتے ہیں یہ ایک گول اور سخت کانٹا ہوتا ہے اور اکثر درمیان سے ٹوٹ کر دو حصے ہو جاتا ہے اور ہر حصے پر تین نوکدار کانٹے ہوتے ہیں ہڈی جیسے سخت اور کالے چنے کی جسامت سے چھوٹے چھوٹے، اس کا پوڈر کرنا مشکل کام ہے ہاون دستہ میں کوٹ کر کافی گرینڈر میں گرینڈ کریں تو کام بنے گا۔
اس کا سب زیادہ فائدہ ادویاتی طور پر۔۔۔گردے کے علاوہ ورم غدہ قدامیہ
یعنی انلارجڈ پروسٹیٹ گلینڈز میں دیکھنے میں آیا ہے،
اس کا روئی نما پھول ذیابیطس کے مرض میں مفید ہے،
پانچ کلو پانی میں ایک کلو سرکنڈوں کی جڑ ۔۔صاف شدہ کوٹ کر ڈال دیں،
چوبیس گھنٹے پڑا رہنے دیں ابال کر جب ڈھائی کلو پانی رہ جائے تو پن چھان کر جوشاندہ کا تین کلو چینی میں قوام کر لیں ،
ایک تا دو چمچ تین مرتبہ ایک کپ پانی میں حل کر کے پلائیں،
پروسٹیٹ کے علاؤہ پیشاب کی جلن،رکاوٹ،
ایل ایف ٹی کو نارمل رکھتا ہے۔

شوگر اور اس کا انتہائی کافی و شافی بالکل مفت کامیاب علاج

بیاض حکیم خدا بخش جنجوعہ میں حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ
شوگر ایک تیزی سے پھیلنے والا مرض بن گیا ہے ۔ دور حاضر کے طبیبوں نے اس مرض پہ کافی ریسرچ کی ہے۔ سینکڑوں ادویات ترتیب دی گئیں ۔ ہر دوا کا اپنا اثر ہے جو چیز میری انتہائی مجرب ترین ہے جس کے سبھی استعمال کرنے والوں نے صحت پائی وہ انسانیت کے اپنا راز عام کرتا ہوں، اور درخواست کرتا ہوں جو شوگر کے مریض ہیں ، جن کی شوگر کنٹرول نہیں ہوتی بار بار چھوٹا پیشاب آتا ہے ،کمزوری اور ہاتھ و پنڈلیوں میں درد ہوتا ہے ، وہ کچھ دن یہ میرا کامیاب نسخہ استعمال کریں۔
معمولی نہیں سمجھنا جو اک بار کر لے گا ان شاءاللہ تمام شوگر کے مریضوں کو بتاتا پھرے گا –
ھوالشافی :

دریا کے کناروں پہ پانی میں جو سر کنڈے کے بوٹے ہوتے ہیں، جن کو کانے بھی کہا جاتا ہے ان کی جڑیں نکال کر پانی سے دھو کر صاف کر کے مٹکے میں ڈال دیں۔
اور مٹکہ پانی سے بھر دیں جب بھی پیاس لگے، اس مٹکے والا پانی پیا کریں تین سے دس دن تک شوگر سے پیدا شدہ کمزوری ختم۔ بار بار چھوٹا پیشاب آنا ختم چالیس دن میں شوگر حتمی طور پہ نارمل ،ایک بار آزمائش شرط ہے۔
اس سے بوڑھے آدمی کا پراسٹیٹ غدود بڑھنے کی وجہ سے پیشیاب کی بندش کے ورم دور کرنے میں مفید ہے۔
سرکنڈا کی جڑ یعنی کانے کی  جڑ صاف کرکے ایک پاؤ لیکر ایک سیر پانی میں رات کو بھگو کر رکھیں  اور صبح کو جڑ کو ڈنڈے کونڈے میں خوب کوٹ کر پانی میں برتن آگ پر رکھیں اور جوش دیں جب پانی تین پاؤ رہ جاے تو اتارکر صاف چھان کر تین پاؤ چینی کھانڈ ملاکر شربت تیار کریں
مقدار خوراک ڈیڑھ تولہ شربت ہمراہ شربت بزوری 10 تولہ پانی ملا کر پلائیں صبح و شام ہمراہ چند دن استعمال سے ورم غدہ قدامیہ پراسٹیٹ بالکل درست ہو جائے گی۔
اس کے استعمال سے آپریشن کی ضرورت نہیں رہتی مجرب ہے ازمائیں اور اپنی دعاوں میں یاد رکھیں, (بیاض حکیم خدا بخش جنجوعہ مرحوم, )

Advertisements
julia rana solicitors london

سرکنڈا کی سر کو جلاکر راکھ بنالیں اور حسب طریق پانی میں حل کرکے دوسرے دن چھان کر کڑاہی میں ڈال کر آگ پر جوش دیں جب پانی جل کر خشک ہو جائے اور نمک بنا لیں, مقدار خوراک دو رتی پتھری گردہ و مثانہ اور پتہ  کے لیے مجرب ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply