یہ عید ذرا سادگی سے۔۔ماجد حلیم

اہلیانِ  پاکستان آج کل لاک ڈاؤن کے جزوی اٹھ جانے سے جس بے صبری سے شاپنگ اور خریداری میں لگے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے شاید عید الاضحیٰ کی شاپنگ بھی ساتھ ہی   کررہے ہیں۔ بازاروں میں نا صرف مردوں کا ہجوم ہے بلکہ خواتین کی لمبی لائنیں ہیں۔ کپڑے، جوتے،جیولری اور رنگسازی کی دکانوں پہ ایسا رش ہے کہ گمان ہونے لگا ہے جیسے پہلے سے موجود آدھی دکانوں کے مالکان نے یہ کاروبار ہی بدل لیے ہوں۔ 14 مارچ سے 07 مئی تک ایک ماہ اور 22 دن تک کرونا سے بچاؤ کے لیے ملک میں نیم لاک ڈاؤن رہا۔ جس میں زندگی کی بقاء کے لیے ضروریات کا خیال رکھا گیا۔ خوراک سے متعلقہ کاروبار کو چلنے دیا گیا تھا۔ اس طرح ایک آسانی کا پہلو موجود رہا۔ بے شک یہ بڑا تنگی اور ابتلاء کا دور بھی تھا۔ لیکن دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو بہت بڑی بڑی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ یقین مانیں ہمیں اس کے عشر عشیر بھی برداشت نہیں کرنا پڑا۔ اللہ سے دعا بھی یہی ہے کہ وہ ہمیں ایسے حالات سے بچائے رکھے جب باہر گلیوں میں جھانکنے سے بھی ڈر آنے لگے۔

لاک ڈاؤن کی صورتحال سے پوری دنیا کی طرح جہاں ہماری ملکی معیشت کو نقصان پہنچا ہے ،وہاں عام محنت کش اور مزدور طبقے  کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ محنت کش طبقہ نے بڑی جوانمری سے ان سب حالات کو برداشت کیا ہے۔ حکومتی سطح پہ مدد پہنچانے کا جو کام ہوا ،سب کے سامنے ہے۔ قوم نے اپنا بھی حصہ ڈالا۔ غیر سرکاری فلاحی اداروں میں الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں نے پوری قوم کو تعریف پہ مجبور کیا۔

حکومت نے شروع سے ہی ہچکچاہٹ سے کام لیا ،اور نیم مارشل لاء کی طرح نیم لاک ڈاؤن لگائے رکھا جس سے خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ البتہ معیشت بیٹھنے کے ساتھ ساتھ کرونا کیسز بڑھنے لگے۔ سینکڑوں سے ہزاروں میں ترقی بہت تیزی سے ہوئی۔ اور پھر جب کیسز کا طوفان آیا تو لاک ڈاؤن ہی ختم کردیا۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ عید کے اگلے ہی روز دوبارہ لاک ڈاؤن لگ جائے گا۔ لیکن یاد رکھیں اب کی بار لاک ڈاؤن سلیکٹڈ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر 20 دن کا مکمل لاک ڈاؤن نہیں ہوا تو پھر تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

موجودہ حالات کے پیش نظر یہ ممکن نہیں رہا کہ پسی ہوئی عوام عید الفطر کے موقعے پہ اپنی انتہائی ضروری خریداری کے  علاوہ  سوچ بھی سکے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں تین ہیں ،خوراک، لباس اور رہائش۔ لباس اور رہائش پہ تو وہ جیسے تیسے کمپرومائز کرلیتا ہے لیکن خوراک پہ کوئی کمپرومائز نہیں کرتا۔ جب کچھ میسر نہیں ہو پاتا اور معاشرے کی احساس مندی ختم ہو جاتی ہے تو وہ ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔اسے کشکول لیے پھرنے سے پھر شرم محسوس نہیں ہوتی۔

معاشرے کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جس نے اس وبا کے دور میں بھی تعلق باللہ کو مضبوط نہیں کیا۔ پسماندہ لوگوں کا خیال نہیں رکھا یا اس طرح نہیں رکھا جس طرح رکھنے کا حق تھا۔ اب بازاروں میں بھر بھر ٹولیاں اور یہ خریداریاں آخر کس بات کا پیغام ہیں؟ کیا ہم ایک مفاد پرست اور مادہ پرست معاشرہ ہیں؟ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے ہیں؟ کتنوں کے گھروں کا چولہا نہ جلا؟ کتنے بیماروں کو ادویات میسر نہیں ؟ ایسے بے بس لاچار مجبور دور کہیں بہت دور کی وادیوں کے باسی نہیں ہیں۔ کسی دوسری قوم سے بھی متعلق نہیں ہیں۔ یہیں ہماری تمہاری گلیوں میں بسنے والے، انہی محلوں اور قبصبوں کے باسی ہیں۔ ان کی خبر گیری نہیں کی، اپنی ضروریات سے اوپر کی شاپنگ موقوف کرکے ان کی مدد نہیں کی، اپنی عید کی خوشیاں ان کے نام نہ کیں ، اپنے پہلے سے موجود لباس سے گزارہ نہیں کیا , دوسروں کی خوشیوں کا سامان نہیں کیا تو یاد رکھنا، اس بے حسی کا سوال ہو گا، روزمحشر پھر کوئی جواب نہ ہوگا۔۔
چالیس گھروں کی خبر گیری والی حدیث کا تصور گھر بیٹھے بٹھائے نہ بنائیے، اٹھ کر گرتوں کا ہاتھ تھام لیجیے۔
مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی۔۔
اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، نئے کپڑے نہ بنانے سے، بڑے بڑے کھانوں کا اہتمام نہ کرنے سے، مصافحہ اور معانقہ نہ کرنے سے آپ کی عید کے ثواب میں کٹوتی نہیں ہوگی۔ بلکہ ثواب بڑھا دیا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس عید کو سادگی سے گزاریے،اس احساس کے ساتھ کہ سب کو سب نعمتیں میسر نہیں ہیں۔

Facebook Comments

ماجد حلیم
ماجد حلیم شعبہ: تعلیم تعلیم: ایم فل اسلامک اسٹڈیز، ایم ایس سی اکنامکس ، کامرس گریجویٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply