“عکس” (1)۔۔نیّر عامر

اعجاز دو ہفتے کے لیے شہر سے باہر گیا تھا لیکن آج پورا ایک ماہ ہونے کو آیا تھا، اس کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ گھر کا راشن الگ ختم ہو رہا تھا اور راتوں کو تنہائیوں کے ناگ الگ پھن پھیلائے اسے ڈسنے کو تیار رہتے۔۔۔

آٹے کے خالی ہوتے کنستر کو رکھتے ہوئے اس نے سوچا، گلی کے کسی مرد یا بچے سے گزارے کے لیے تھوڑا بہت آٹا اور سودا سلف منگوا لیتی ہوں، باقی اعجاز آیا تو خود دیکھ لے گا۔ عام طور پر اس وقت کوچنگ آنے جانے والے بچوں اور دفتر سے لوٹ کر آنے والے مردوں کا گلی سے گزر رہتا تھا، آج نہ جانے کیوں اتنی دیر کھڑے رہنے کے باوجود کوئی نہیں آیا۔ وہ مایوس ہو کر دروازہ بند ہی کرنے والی تھی کہ اسے دور سے کاندھے پر اسکول بیگ لٹکائے ایک لڑکا آتا دکھائی دیا۔ بظاہر وہ کسی کوچنگ سینٹر کا راہی لگ رہا تھا۔ سولہ سترہ سال کا خوبصورت تندرست و توانا، لڑکپن سے جوانی کی طرف قدم بڑھاتا نوجوان کسی اچھے گھرانے کا معلوم ہوتا تھا۔ معصومیت اور ذہانت اس کے چہرے سے ٹپک رہی تھی۔ آنکھوں میں بہت سے خوابوں کی چمک اور ولولہ تھا۔ وہ قریب سے گزرنے لگا تو ثمینہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنی طرف بلایا، “سنو! ادھر آؤ!” اس نے ادھر ادھر دیکھ کر یقین دہانی کی کہ اسے ہی بلایا جا رہا ہے۔ “جی بولیں!” وہ گویا ہوا۔ “بات سنو! مجھے پتہ ہے کہ تم پڑھنے جا رہے ہو لیکن میرے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ تھوڑا بہت ضروری سامان ہے، تم لا دو پلیز۔۔۔!” ثمینہ نے سامان کی لسٹ اور پیسے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے لجاجت سے کہا تو وہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہ کر سکا۔ “لاؤ! جب تک تمھارا بیگ میں اندر رکھ لیتی ہوں۔۔۔” یہ کہتے ہوئے اس نے خود ہی اس کے کاندھے سے بیگ کھینچ لیا۔ طاہر سامان لے کر آیا تو ثمینہ نے اسے اندر بلا لیا۔ یہ دو کمرے کا چھوٹا سا مکان تھا، جس کے صحن کے ایک کونے میں سیمنٹ کی چادریں ڈال کر باورچی خانہ بنایا گیا تھا۔ وہیں ایک طرف تھوڑی خالی جگہ دیکھ کر اشارہ کرتے ہوئے ثمینہ بولی، “لے آؤ، یہاں رکھ دو!”
اس نے سامان رکھا اور اپنا بیگ تلاش کرتے ہوئے، صحن میں نظریں دوڑانے لگا۔
“تمھارا بیگ اندر کمرے میں ہے، جا کر لے لو!” ثمینہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ اس کمرے کی طرف چل پڑا، جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا۔ دوسرے کمرے میں ثمینہ کا پانچ سالہ بیٹا، سعد سو رہا تھا۔
ثمینہ بھی طاہر کے پیچھے کمرے میں چلی آئی۔ اب جو اس نے پلٹ کر ثمینہ کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے کے رنگ ہی کچھ اور تھے۔ اس نے اندر آتے ہی کمرے کا دروازہ بند کر لیا تھا۔۔۔

————————————————-

ثمینہ کا بیٹا سعد ابھی ایک سال کا ہی تھا کہ ساس نے اسے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا اور وہ پھر سے باپ کی دہلیز پر آ کر بیٹھ گئی تھی۔ شوہر اسے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن ماں کی حکم عدولی نہیں کر سکتا تھا لہٰذا فوراً ہی طلاق نامہ بھی بھیج دیا۔ اس وقت ثمینہ کی عمر بمشکل پچیس برس تھی اور اب اس بات کو پورے چار سال بیت چکے تھے۔ شروع شروع میں وہ ابا کی خدمت اور بیٹے کی دیکھ بھال میں لگی رہتی تو کچھ سوچنے کا ہوش نہ رہتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ کسی ساتھی کی کمی، اس کی تنہائیوں کو وحشت میں بدلنے لگی۔ ابا کے انتقال کے بعد تو اس وحشت میں اور بھی شدت آ گئی تھی۔

اعجاز چالیس، پینتالیس کے پیٹھے میں ہو گا۔ وہ اس کے ابا کے دفتر کے ساتھیوں میں سے اور اسی علاقے کے دوسرے بلاک کا رہائشی تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اکثر اسے اپنے کاموں کے لیے بلا لیا کرتے تھے۔ زیادہ تر یہ کام ان کی پینشن اور دفتری امور سے متعلق ہوا کرتے تھے مگر جیسے جیسے ان کی صحت گرتی جا رہی تھی، ان کے گھریلو معاملات میں اعجاز کا عمل دخل بڑھتا جا رہا تھا۔ اس آنے جانے کے دوران ثمینہ کی آنکھوں میں مچلتی بے لگام خواہشوں کو اعجاز نے بھی بھانپ لیا تھا۔ پھر ایک شام ایسی آئی جب ابا کے بلاوے پر اعجاز کو آنے میں کچھ دیر ہوگئی اور وہ دوا کے زیر اثر غنودگی محسوس کرنے لگے تو انھوں نے سب کام سمجھا کر کاغذات ثمینہ کے حوالے کیے اور خود سونے چلے گئے۔ بات چیت کے دوران اعجاز نے اس کا ہاتھ پکڑا تو ثمینہ نے بھی خود کو اس کے سپرد کر دیا۔ انسان ایک بار اپنی حدود سے باہر نکل آئے تو اس کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں اور وہ انجام کی پرواہ کیے بغیر گناہ کے راستے پر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا، انسانی ہمدردی کی آڑ میں ہوس پرستی کا ایک سلسلہ چل نکلا۔۔۔
————————————————-

طاہر جب سونے کے لیے بستر پر لیٹا تو اس کے تصور میں شام والے واقعے کا منظر گھوم گیا۔ آج کی کوچنگ کی کلاس بھی مس ہو گئی تھی۔ وہ تو خدا کا شکر ہوا کہ جب وہ گھر آیا تو امی گھر پر نہیں تھیں ورنہ وہ اس کی بدلی ہوئی حالت دیکھ کر ضرور سوال کرتیں۔ وہ اندر سے اب بھی کانپ رہا تھا۔ ایک عجیب سے احساس نے اس کے دل و دماغ کو جکڑا ہوا تھا۔ جیسے اس کے ساتھ کوئی بہت بڑا حادثہ گزر گیا ہو، اس کی کوئی بہت قیمتی شے اس سے جدا کر دی گئی ہو۔ اپنی بے بسی اور عزت نفس کے کچلے جانے کی خجالت کسی طور نہیں جا رہی تھی۔ یہی سوچ کر وہ اس بات کا ذکر کسی دوست سے بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ البتہ ثمینہ کی قربت نے اس کے لڑکپن کو یکایک مردانگی کے احساس میں بھی بدل دیا تھا۔۔۔ اسے یاد آیا کہ وہاں سے رخصت ہوتے وقت ثمینہ نے اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا، “جب کبھی پڑھائی سے تھکنے لگو یا گھر کی ٹینشن ہو تو میرے پاس آ جایا کرو۔۔۔ تمہیں اچھا لگے گا۔۔۔!” اور معنی خیز انداز میں مسکرا دی۔ اس خیال کے آتے ہی طاہر نے جھرجھری لی اور کروٹ بدل کر پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔
اس کے اندر ایک عجیب سی تبدیلی آنے لگی تھی۔ اس نے کبھی اپنے ہم جماعت لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں کیا تھا۔ وہ سبھی اس کے لیے صرف تعلیمی مسابقت کے شریک کی حیثیت رکھتے تھے، مگر اب اس کی نظریں کسی لڑکی پر پڑتیں تو وہیں جم کر رہ جاتیں اور اس کے اندر پیدا ہونے والی ہلچل اسے بری طرح بے چین کر کے رکھ دیتی۔ نہ پڑھائی میں دل لگتا تھا اور نہ ہی کھیل کود اچھا لگتا تھا۔۔۔ وہ اتنا بچہ نہیں تھا کہ یہ نہ سمجھ سکے، جو کچھ ثمینہ نے کیا وہ غلط تھا لیکن اس کی بے چینی کا مداوا بھی اب وہی کر سکتی تھی۔ بالآخر وہ بھی اسی راہ پر چل پڑا جس پر ہاتھ پکڑ کر ثمینہ اسے لے آئی تھی۔۔۔
————————————————-
طاہر کے واقعے کے بعد اعجاز بھی جلد ہی لوٹ آیا تھا۔ اس نے سعد کو گود سے اتارتے ہوئے ثمینہ سے استفسار کیا، “یہ آٹا کون لے کر آیا ہے؟” “گلی کے ایک لڑکے سے گزارے کے لیے تھوڑا بہت سامان منگوایا تھا، کیا کرتی آپ تو میرے گھر کا رستہ ہی بھول گئے تھے۔۔۔” ثمینہ نے الٹا اسی سے شکایت کر ڈالی۔ “اچھا یہ بتاؤ! صرف سودا ہی منگوایا تھا۔۔۔ یا میری ساری کمی اسی سے پوری کرلی؟” اعجاز نے اسے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا۔ “کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ۔۔۔ بھلا آپ کی جگہ کون لے سکتا ہے؟ آپ کمرے میں چلیں میں سعد کو سُلا کر آتی ہوں۔”
کچھ دنوں سے سعد کی طبیعت خراب سی رہنے لگی۔ وہ ہر وقت بخار میں مبتلا رہتا۔ ثمینہ اسے گھر میں ہی پیناڈول سیرپ پلا کر سلا دیتی۔ سو کر اٹھنے کے بعد وقتی طور پر بخار اتر جاتا لیکن ایک دو دن بعد پھر سے ہو جاتا۔ ایک تو وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی، دوسرے اب اس کی زندگی میں دو دو مردوں کا آنا جانا تھا، ایسے میں سعد کی بیماری کو زیادہ سے زیادہ کتنا سنجیدگی سے سوچ سکتی تھی۔ ایک دو بار محلے کے کلینک پر لے گئی تو ڈاکٹر نے کوئی ٹیسٹ کروائے بغیر دوا اور انجکشن دے دیا۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ سعد کی بیماری شدت پکڑتی جا رہی تھی۔ اعجاز کو اس کے بچے کی کیا پرواہ ہوتی، اس جانب بھی طاہر نے اس کی توجہ دلائی، “دیکھیں آپ محلے کے ڈاکٹر کو چھوڑیں، سعد کو کسی بڑے ہسپتال کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر کو دکھائیں۔ چاہے سرکاری ہسپتال چلی جائیں، وہ ٹیسٹ لیں گے تو بیماری کی وجہ سامنے آ جائے گی۔۔۔ وہ جو۔۔۔ آپ کے۔۔۔ دوست۔۔۔ آتے ہیں (اس کا اشارہ اعجاز کی طرف تھا) ان کے ساتھ چلی جائیں۔۔۔!” اس نے جھجکتے ہوئے بات مکمل کی۔ “تم ٹھیک کہہ رہے ہو میں کل ہی اس کو لے کر جاتی ہوں۔” ثمینہ اس کی بات کو سمجھتے ہوئے بولی۔
————————————————-
بڑے ہسپتال کے ڈاکٹر نے سعد کا ہسپتال میں داخلہ لکھ کر اس کے بہت سے ٹیسٹ لکھ دیئے جو مہنگے بھی تھے۔ ساتھ ہی تاکید کی تھی کہ کسی اچھی لیبارٹری سے کروائے جائیں تاکہ صحیح نتیجے تک پہنچا جا سکے۔ ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو ثمینہ کے تو جیسے سر پر آسمان ہی ٹوٹ گرا۔۔۔ وہ بوجھل سے قدموں کے ساتھ ڈاکٹر کے کمرے سے نکلی تو ڈاکٹر کے الفاظ ہتھوڑے بن کر اس کے دماغ پر برس رہے تھے۔۔۔ “بی بی ہم آپ کو کوئی جھوٹی آس نہیں دلانا چاہتے۔ کینسر سعد کے جسم میں پھیل چکا ہے۔ اب آپ کی دعائیں یا پھر کوئی معجزہ ہی اس کے کام آ سکتا ہے۔ البتہ دواؤں کے ذریعے عارضی طور پر اس کی تکلیف کو کچھ کم کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے اس کی چھٹی لکھ دی ہے۔ آپ ہر تین ہفتے بعد اسے باقاعدگی سے معائنے کے لیے لاتی رہیے گا۔۔۔”
آج اماں ابا کی کمی اسے شدت سے محسوس ہوئی تھی۔ جی کرتا تھا، ان کی گود میں سر رکھ کر جی بھر کے روئے۔ سعد کی بیماری کے دنوں ویسے ہی اعجاز نے آنا جانا کم کر رکھا تھا، اسے ڈھارس دینے کون آتا۔۔۔ کافی دن بعد طاہر، سعد کا حال احوال پوچھنے آیا تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور اس کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی۔ طاہر کا شانہ اس کے آنسوؤں سے تر ہو گیا تھا۔ ذرا ہوش آیا تو اس نے جھٹکے سے سر اٹھا لیا۔ طاہر پریشان سا سوالیہ نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
آنسو پونچھتے ہوئے اس نے ساری روداد کہہ ڈالی۔ طاہر کو بھی اس سے ہمدردی سی محسوس ہونے لگی۔ وہ جیسی بھی عورت تھی مگر اس وقت ایک بے بس ماں کی صورت اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نہ وہ شوخی تھی، نہ وہ مچلتے جذبات کی حدت۔۔۔ اگر کچھ تھا تو فقط یاس و حسرت۔۔۔! وہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی اور دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر بولی، “مجھے معاف کر دو طاہر! میں نے تم سے تمہاری معصومیت، تمہارا لڑکپن چھین لیا۔۔۔ تمہاری پاکیزہ سوچوں کو اپنی ہوس کی آلودگی سے لتھڑ دیا۔۔۔ مجھے معاف کر دو پلیز۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔!” طاہر نے سینے کے اندر ہی گھٹی گھٹی سی ایک آہ کھینچی۔۔۔ اور خود کو سنبھال کر اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولا، “آپ اتنا مت سوچیں۔۔۔! سعد کو آپ کی توجہ کی ضرورت ہے، آپ سب کچھ بھول کر بس اس کی طرف دھیان دیں اور اللہ سے دعا کریں۔ میں بھی اس کے لیے دعا کروں گا، میری امی کہتی ہیں، دعاؤں میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ ان سے تقدیر بدل جاتی ہے۔۔۔”
“مگر جب تک تم مجھے معاف نہیں کرو گے، خدا بھی شاید معاف نہ کرے۔۔۔ جو کچھ ہو چکا میں اسے تو ٹھیک نہیں کر سکتی لیکن میرا تم سے وعدہ ہے اب اس کے بعد میں تمہیں کبھی گناہ پر مجبور نہیں کروں گی۔۔۔ تمہارے اندر میری وجہ سے جذبات کے جس طوفان نے سر ابھارا ہے، اگر وہ کبھی تمہارے اختیار میں نہ رہے تو تم وہ غلطی مت دہرانا جو میں نے تمہارے ساتھ کی ہے۔۔۔ یاد رکھو! انسان کا گناہ مجسم ہو کر، کبھی نہ کبھی اس کے سامنے ضرور آتا ہے۔۔۔ تم کسی اور کو اس راہ پر کبھی مت لانا۔۔۔ تم اپنی طلب پوری کرنے میرے پاس چلے آنا۔۔۔! اس وقت تک، جب تم اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر اس قابل نہیں ہو جاتے کہ کسی نیک سیرت لڑکی کے ساتھ عزت دار، پاکیزہ رشتہ شروع کر سکو۔۔۔! اب اپنی پوری توجہ پڑھائی پر لگاؤ اور شدید مجبوری کے علاوہ یہاں آنا چھوڑ دو۔۔۔!” وہ حتمی لہجے میں بولی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply