• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • محمد بن قاسم کے بارے میں تاریخی حقائق (دوم،آخری حصّہ)۔۔ صدیق اکبر نقوی

محمد بن قاسم کے بارے میں تاریخی حقائق (دوم،آخری حصّہ)۔۔ صدیق اکبر نقوی

کیا راجا داہر بدکردار تھا؟

چند لوگ راجا داہر پر بہن سے شادی کرنے کے الزامات لگا تے ہیں، انہوں نے یہ سارے الزام چچ نامہ سے لئے ہیں۔ یہ کتاب حملہ آور عربوں کے لکھے گئے جنگی پروپیگنڈے کا ترجمہ ہے۔ جس دور میں اموی لشکر سندھ پر حملہ آور ہوا تھا اس دور میں سرکاری سرپرستی میں جعلی حدیثیں گھڑنے کا دھندہ عروج پر تھا، اور اسی وجہ سے بعد کے محدثین کو صحیح اور جعلی احادیث میں فرق کرنے کیلئے علمِ رجال کی بنیاد رکھنا پڑی۔ ہندوؤں میں بہن سے شادی تو کیا، کزن سے شادی بھی حرام ہے، وہ مسلمانوں کو اس بنیاد پر برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے جس سے ہندوؤں میں اسلام اتنی تیزی سے نہیں پھیلا جتنی تیزی سے بدھ مت کے ماننے والوں میں پھیلا، اور وسطی ایشیاء اور وادئ سندھ سے بدھ مت کا خاتمہ ہو گیا۔ راجا داہر کے خلاف پروپیگنڈا یہاں کی مقامی ثقافت سے میل نہیں کھاتا ہے نہ ہی اس کو اس کے عرب مخالفین کی کتابوں کے علاوہ کسی ماخذ سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

کیا راجا داہر سندھی نہیں تھا؟

بعض لوگ راجا داہر کو غاصب ثابت کرنے کیلئے یہ کہتے ہیں کہ اسکا تعلق کشمیر یا شمالی پنجاب کے خاندان سے تھا اور وہ بھی سندھ پر غاصب تھا۔ حقیقتِ امر یہ ہے کہ کشمیر سے گوادر تک کا علاقہ وادئ سندھ کا حصہ تھا۔ پنجابی اور سندھی زبانیں ایک دوسرے کا پرتو ہیں۔ پنجاب کو الگ نام سے پکارنے کا سلسلہ مغلیہ دور سے شروع ہوا۔ سندھی تہذیب کو صوبہء سندھ تک محدود کرنے کا سلسلہ انگریز دور میں شروع ہوا۔ آثار قدیمہ کے مطابق گندھارا، ہڑپہ اور موئنجو دڑو کی تہذیبیں بھی بہت مماثلت رکھتی ہیں۔ محمد بن قاسم کے حملے سے پہلے کابل و کشمیر سے مکران و بمبئی تک کے لوگوں کی زبان اور مذہب ایک ہی تھے۔ یہاں کی تقریباً آدھی آبادی بدھ مت سے تعلق رکھتی تھی اور اتنی ہی ہندوؤں کی تھی۔ ہندو آبادی اکثر دیہاتوں میں رہتی اور صوفی مسلک تھی۔ بدھ مت کے ماننے والے شہروں میں زیادہ تھے۔ وہ تاجر تھے اور بدھ کی تعلیمات کے ظاہری معنوں پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ اسی لئے جو لوگ ہندوؤں سے مسلمان ہوئے انکی توجہ تصوف کی طرف زیادہ رہی اور جو بدھ مت سے مسلمان ہوئے انکا جھکاؤ احادیث کی طرف تھا۔ راجا داہر اسی تہذیب کا فرزند اور اسی سرزمین کا مدافع تھا۔ کچھ افراد یہ کہتے ہیں کہ داہر کیسا کمزور راجا تھا جو ایک سترہ سالہ لڑکے سے ہار گیا۔ بات یہ ہے کہ سندھ پر حملہ ایک لڑکے نے نہیں، بلکہ ایک فوج نے کیا تھا جس میں ماہر جنگجو شامل تھے اور جس کا حجاج سے مسلسل رابطہ تھا اور ہر تین دن بعد قاصد آنے کا سلسلہ قائم تھا۔ اسکا ہارنا ایسا ہی ہے جیسے سراج الدولہ، ٹیپو سلطان اور سکھ طاقتور دشمنوں کے مقابلے میں ہارے۔

کیا سندھ میں اسلام محمد بن قاسم نے پھیلایا؟

قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان تو اسی وقت بن گیا تھا جب پہلا مسلمان سندھ کے ساحل پر وارد ہوا۔ اس سے بعض لوگوں نے محمد بن قاسم مراد لیا ہے جبکہ مسلمان دورِ نبوی میں ہی موجودہ پاکستان کے علاقے میں آ چکے تھے۔ سندھ اور عرب کے درمیان تجارتی تعلقات صدیوں سے قائم تھے اور تاجر اور سیاح اپنی مسافرت کے دوران مختلف افکار اور تہذیبی اثرات کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ سندھ میں 711ء میں حجاج بن یوسف کی طرف سے محمد بن قاسم کے ذریعے حملے سے بہت پہلے اسلام آ چکا تھا۔ نہ صرف اسلام کے ابتدائی عرصے کی تاریخ میں متعدد عرب مسلمانوں کے سندھ آنے کا ذکر ملتا ہے بلکہ سندھ سے کئی نو مسلموں کے عرب و عراق جانے اور وہاں اہم کردار ادا کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جاٹ کو عربی میں زط اور سیابجہ  کہا جاتا ہے۔ بلاذری اور ابن خیاط کے مطابق 656ء میں عراق میں ہونے والی جنگِ جمل میں بصرہ کے خزانے کی حفاظت کیلئے حضرت علی کی طرف سے متعین کردہ  سپاہیوں میں موجودہ پنجاب اور سندھ کے جاٹ بھی شامل تھے جو خزانے پر یلغار کے دوران قتل ہوئے۔( احمدبن یحیی بلاذری، فتوح البلدان، جلد2، ص462. )  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کے مقامی باشندوں میں اسلام کو قبول کرنے اور جنگوں میں شریک ہونے تک کا رجحان موجود تھا۔ اس سلسلے میں دوسرا اہم حوالہ امام حسین کے بیٹے زین العابدین (659ء – 713ء) کی دوسری شادی کا ہے، جو ایک سندھی خاتون جیدا السندي سے ہوئی جن سے 695ء میں انکے فرزند امام زید بن علی پیدا ہوئے۔ اسطرح سندھ زیدی سادات کا ننھیال ہے۔ محمدبن قاسم کے سندھ پر حملے کا مقصد دولت اور زمین پر قبضہ کرنے اور بیٹیوں سے جبر کرنے اور انکو لونڈیاں بنا کر بازاروں میں بیچنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اسے مقامی آبادی کا مذہب بدلنے سے بھی کوئی غرض نہ تھی۔ تاریخ و احادیث کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتوحہ علاقوں میں لشکریانِ بنی امیہ کی توجہ اسلام پھیلانے کے بجائے جزیہ کی آمدنی بڑھانے پر ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ وہ نو مسلموں پر بھی یہ کہہ کر جزیہ لگاتے تھے کہ یہ دل سے مسلمان نہیں ہوئے۔ دوسری طرف چچ نامہ میں ایسے متعدد مقامی غیر مسلموں کا ذکر ہے جنہیں محمد بن قاسم نے راجا داہر سے بے وفائی کرنے کے انعام میں عہدوں سے نوازا۔ یہاں اس کے دور میں اسلام کی تبلیغ کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔

اگر موجودہ پاکستان کے علاقوں میں اسلام کے پھیلنے کی تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسلام آہستہ آہستہ پھیلا۔ مختلف اسلامی مسالک کے مبلغین یہاں آتے رہے لیکن یہاں مقامی ثقافت سے ہم آہنگ افکار کو ہی پذیرائی ملی۔ چنانچہ جب 1005ء میں محمود غزنوی نے یہاں حملہ کیا تو ملتان پر اسماعیلیوں کی حکومت تھی جس کی آبادی کا بڑا حصہ غیر مسلموں پر مشتمل تھا۔ نیز ہندوستان کے ایسے علاقے جن پر مسلمانوں کا اقتدار نہ تھا، وہاں بھی مسلمان دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ امن و سلامتی سے رہتے رہے ہیں۔ مسلمان بادشاہوں کی حکومت میں ہندو اعلی عہدوں پر فائز رہے ہیں تو ہندو بادشاہوں کی حکومت میں مسلمان عہدیداروں کا ذکر مل جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ (متوفیٰ 1761ء) سے پہلے کے برصغیر میں شدت پسندی کی مثالیں بہت کم ہیں۔

محمد بن قاسم کو ہیرو بنانے میں کیا برائی ہے؟

محمد بن قاسم کو ہیرو بنانے کا سلسلہ بیسویں صدی میں شروع ہوا جب جدید ٹیکنالوجی اور اصلاحات کی وجہ سے عوام شریک اقتدار ہوئے اور ہندو مسلم دشمنی کی سیاست نے عروج پایا۔ اسی دوران ہندوؤں میں شدھی تحریک، راشٹریہ سیوک سنگ، اور ساورکر جیسے فاشسٹ پیدا ہوئے تو مسلمانوں میں مجلس احرار، خاکسار اور جماعت اسلامی نے مذہبی فاشزم کو اختیار کیا۔ اس دوران ماضی سے ایسے برے کرداروں کو تلاش کر کے پھولوں کے ہار پہنائے جانے لگے۔ ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں نصابِ تعلیم مرتب کرنے والوں نے پاکستانی بچوں کو افغان جہاد میں استعمال کرنے کیلئے جنگجو بنانا چاہا تو ان کیلئے محمد بن قاسم سے بہتر نمونہ کون ہو سکتا تھا؟ چنانچہ تاریخی حقائق کو جھٹلا کر اس کو پہلا پاکستانی قرار دے دیا گیا۔ لیکن پاکستانی معاشرے نے ڈکٹیٹر کے اس گناہ کا خمیازہ خودکش حملوں، غربت اور جہالت کی شکل میں بھگتا۔ جب ہم ایسے لوگوں کو ہیرو قرار دیں جنہوں نے ظلم کیا ہو تو ہم ظلم کو برا نہیں سمجھتے۔ ماضی کے برے کرداروں کو برا نہ کہنے سے انکی برائی ہمارے اندر آ جاتی ہے۔

بیرونی حملہ آور ہیرو نہیں ہو سکتے

اس مرحلہ پر ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ جب بھی غیر ملکی حملہ آور کسی ملک پر حملہ کرتے ہیں ، اس پر قبضہ کرتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں نہ صرف اس ملک کا سیاسی، سماجی اور معاشی نظام ٹوٹتا ہے اور معاشرہ بے چینی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے، بلکہ اس کے ذرائع کو یہ حملہ آور غصب کے لیتے ہیں اور ملک کو مفلس اور کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ اب اگر ہم اپنے مسلمان حملہ آوروں کو ان کے جنگی جرائم اور لوٹ مار پر معاف کر دیں، ان کے قتل عام کو نظر انداز کر دیں، تو اس صورت میں ہم کبھی بھی حقیقی تاریخی شعور پیدا نہیں کر سکیں گے اور تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ جہاں تک حملہ آوروں کا تعلق ہے، اس میں ہمیں اس فرق کو قائم نہیں رکھنا چاہئیے کہ یہ ہمارے ہیں یا دوسروں کے ہیں۔ کیونکہ حملہ آور چاہے وہ کوئی ہوں، ان کا مذہب، نسل اور زبان کوئی ہو، وہ حملہ آور ہوتے ہیں، لہٰذا انہیں اسی تناظر میں دیکھنا چاہئیے اور تاریخ کے ساتھ انصاف کرنا چاہئیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں بنیادی ماخذ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مبارک علی کی کتابوں سے مدد لی گئی ہے۔

Facebook Comments

صدیق اکبر نقوی
عن عباد بن عبداللہ قال علی انا عبداللہ و اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر (سنن ابن ماجہ، ١٢٠)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply