کیا پاکستان 1971 کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے ؟۔۔۔۔۔فرخ ملک

بہت سارے دوستوں کا خیال ہے کہ کیا پاکستان اب بھی بنگلہ دیش کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے ؟تو جواب یہ ہے کہ آج کے حالات اور  1971میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت کے حالات میں بڑا فرق ہے ۔1971 میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہو نے کے بہت سے محرکات تھے۔ جن میں سب سے بڑا محرک سوویت یونین اور انڈیا  کا اتحاد تھا ۔ ان دونوں  نے ملکر پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کی سازش کی ۔ انڈیاشروع دن سے ہی پاکستان کے وجود کے خلاف تھا اور وہ کسی طرح یہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک طاقتور پاکستان جو کہ مکمل اسلامی ملک ہے اس کے مقابل آئے ۔ اور کچھ ہمارے راہنماؤں نے اردو کو قومی زبان بنا کر سازشوں کو ہوا دی تھی جو کہ پہلے تو اندر ہی اندرسلگتی رہی  جس کو بعد میں انڈیا نے خوب ہوا دی  اور اس کو آتش فشاں بنانے میں مدد دی ۔

سوویت یونین جانتا تھا کہ امریکہ پاکستان کو اس کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور آئندہ بھی کرے گا-اس لئے وہ پاکستان کو کمزور سے کمزور کر دینا چاہتا تھا ۔ سوویت یونین ایران میں کام کررہا تھا اور وہاں شاہ ایران کی حکومت کو بدلنا چاہتا تھا اور اس عمل میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکا تھا، اسی طرح پاکستان کو گھیرا ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھا۔ کیونکہ پاکستان ہی وہ واحد ملک تھا جو کہ جنوبی ایشیاء میں امریکہ کا سب سے بڑا حمائتی تھا اس لئے وہ اس کو کمزور سے کمزور کر دینا چاہتا تھا ۔ ایک طرف انڈیا دوسری طرف ایران اور تیسری طرف افغانستان میں سویت یونین  خود آ کر بیٹھنا چاہتا تھا اور وہاں سے بلوچستان کے راستے گوادر بندرگاہ کو اپنے استعمال میں لانا چاہتا تھا۔ اس لئے سوویت یونین نے بنگلہ دیش بنانے میں  انڈیا کی پو ری پوری مدد کی ۔

لیکن اس کے مقابلہ میں سی آئی نے بر وقت  کامیاب چالیں چلیں اور سوویت یونین کی چالوں کو الٹا کر رکھ دیا ۔ سب سے پہلے اس نے بنگلہ دیش بنانے میں سوویت یونین کی کو ئی مزاحمت نہیں کی کیونکہ امریکہ چاہتا تھا کہ موجودہ پاکستان زیادہ توجہ سے روس کے خلاف بنیاد فراہم کر سکتا ہے اگر بنگلہ دیش ساتھ رہا تو انڈیا اور سوویت پاکستان کی توجہ دوسری طرف مبذول کراتے رہیں گے اور امریکہ وہ مقاصد حاصل نہیں کر پائے گا جو وہ سوویت یونین کو ختم کرنے کیلئے   پلان  کر چکا تھا یا کر رہا تھا ۔اس لئے امریکہ کے بحری بیڑے جہاں تھے وہیں رہے اور انڈیا اور سویت یونین نے بنگلہ دیش بنا کر بڑی بغلیں بجائیں حالانکہ یہ ان کی جیت نہیں بلکہ ان کی شکست کا آغاز تھا ۔ دوسری طرف موجودہ پاکستان  کا مورال ڈاؤں ہو گیا کیونکہ عالمی سطح پر اس کی جگ ہنسائی ہو ئی تھی  اس کو فوجی شکست ہوئی تھی ۔اس طرح اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہین بچا تھا  کہ وہ مکمل طورپر  امریکہ کا ہمنوا بن جائے کیوں  کہ اس وقت اس پورے خطہ میں امریکہ کے علاوہ دوسرا کوئی ملک بھی پاکستان کا مدد گار نہیں تھا ۔بلکہ پاکستا ن خود کو ہر طرف سے گھرا ہوا محسوس کرنے لگا اور اپنے وجود کو خطرہ میں محسوس کرنے لگا ۔ اس موقع پر امریکہ نے عرب مملک کی مدد سے پاکستان کو حوصلہ دیا اور 1974 میں اسلامی سربراہی  کانفرنس پاکستان میں کروائی گئی جس میں  عرب ممالک نے مشکل حالات میں پاکستان کی ڈھارس بندھائی  اور پاکستان نے اپنے وجود کو اکٹھا کیا ور امریکہ کا مکمل ہمنوا بن گیا

دوسری کامیابی جو سی آئی اے نے حاصل کی وہ ایران میں اس کا اپنی مرضی کا فرقہ وارانہ انقلاب برپا کرنا تھا ۔ روس ایران میں سوشلسٹ انقلاب لانے میں کامیابی کے آخری مراحل میں تھا لیکن امریکن سی آئی اے ،ایم آئی سکس  اور دوسری یورپی ایجنسیوں نےوہاں پر کٹر مذہبی انقلاب بپا کر دیا گیا جو کہ بظاہر امریکہ اور یورپ کے خلاف تھا لیکن اندرکھاتے اس نے انہی ممالک کی مدد کی ۔  یہ سوویت یونین اور کے جی بی کی بہت بڑی شکست تھی۔ کہاں سویت یونین امید لگا رہا تھا کہ وہ ایران اور انڈیا کی مدد سے پاکستان کو سینڈ وچ بنا کر رکھ دے گا اور پاکستان کو اور کمزور کر دیا جائے گا لیکن بنگلہ دیش کے علیحدہ ہونے سے پاکستان کے پاس امریکہ کادامے درمے اور سخنے ساتھ دینے کے سوا کو ئی چارہ نہ بچا تھا اور وہ پہلے سے زیادہ شدت سے  امریکہ کیلئے مدد گار ثابت ہوا  اور اس نے آنے والے دنوں میں بازی کو امریکہ کے حق میں پلٹنے میں اہم رول پلے کیا ۔

ایران  میں ناکامی کے بعد سوویت یونین نے جھٹ اپنی فوجیں افغانستان میں اتار دیں اور اپنی غلطیوں کو کم کرنے اور ان سے بہتر نتائج پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اب صیاد دام میں پھنس چکا تھا  اور پاکستان نے  سی آئی اے  سے مل کر 1971 کا بدلہ سوویت یونین سے خوب لیا ۔ سی آئی اے پاکستان کو ان حالات کیلئے پہلے تیار کر چکی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک دفعہ  جنرل بابر مرحوم نے برملا اعتراف کیا تھا کہ ہم نے مجاہدین کی تیاری 1974 سے ہی شروع کر دی تھی  لہٰذا افغانستان میں  گھمسان کا رن پڑا اور سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔

اگر بنگلہ دیش علیحدہ نہ ہوا ہو تا  تو سوویت یونین  انڈیا کی مدد سے افغان جنگ کے دوران پاکستان  کی توجہ دوسری طرف مبذول کر سکتا تھا  اور پاکستان کی سویت یونین کے خلاف لڑائی کی شدت کو کم کر سکتا تھا لیکن وہ پہلے ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار چکا تھا اس لئے اس نے یہ موقع بھی ضائع کر دیا تھا ۔

یہ تھے وہ حالات جن میں بنگلہ دیش بنا تھا۔ اُس وقت دنیا کی سب بڑی قوتیں بنگلہ دیش کو بنانے پر تلی ہو ئی تھیں اس لئے علاقائی طور پر کمزور پاکستان کی فوج اپنی پوری کو ششوں کے باوجود اس تقسیم کو روک نہ پائی ۔ لیکن پاکستان کی فوج نے اپنے دشمنوں سے بدلا ضرور لیا ۔ سویت یونین کو توڑ کر اور انڈیا  کواس دوران سی آئی اے کی مدد سے مشرقی پنجاب میں ایک بڑی تحریک چلا کر ۔   دوسری  جو بڑی کامیابی پاکستان نے حاصل کی وہ اس نے ایٹمی قوت حاصل کر لی اور 11 سالہ افغان جنگ میں اس نے اپنی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں  کوانتہائی طور پر  فعال بنا لیا ۔ جنہوں نے آگے چل کر قبائلی علاقوں  اور بلوچستان میں پیدا ہونے والی سورشوں کو دبانے اور پاکستان کے وجود کو برقرار رکھنے بہت شاندار کرکردگی دیکھائی ۔  جس کیلئے وہ خراج تحسین کی مستحق ہیں ۔

لہٰذا اب پاکستان کی وہ صورت حال نہیں ہے جو 1971 میں تھی ،  اب پاکستان کے ساتھ ایران کے حالات بھی صحیح ہیں ۔ چائنہ پاکستان کے ساتھ ہے روس سے اس کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ روس اب پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا متمنی ہے ۔  امریکہ افغانستان میں بری طرح پھنس چکا ہے ۔ پاکستان کو نئے اتحادی میسر آ چکے ہیں ۔ بس انڈیا مخالفت کر ہا ہے اور 1971 کے بعد جس طرح پاکستان اپنے وجود کو برقرا رکھنے کے خطرہ سے دوچار تھا اب بازی الٹ چکی ہے اب وہ خطرہ انڈیا کو لاحق ہو چکا ہے ۔   اس لئے وہ اب امریکہ اور اسرا ئیل کی مدد سے خطہ میں جنگ مسلط کرکے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے ۔  اس کی حالیہ کوشش کو جو کہ فروری کے مہینے میں کی گئی کا جواب جس طرح پاکستان نے دیا اس سے اس کی جگ ہنسائی ہوئی ہے اور پاکستان کا امیج پہلے سے عالمی طور پر بہتر ہوا۔ اور ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے بھی انڈیا کو پاکستان کے خلاف اب  دم مارنے کی مجال نہیں ۔سامراج  فوجی لحاظ سے پاکستان کو باوجود کوشش کے تباہ نہیں کر سکا۔ سوات میں آپریشن اور قبائلی علاقوںمیں دہشت گردوں  کا قلع قمع کرکے اور سرحد پر باڑ لگا کر پاکستان  نے کئی ایسے حساس  سوراخ بھی  بند کر چکا ہے جہاں سے اس کو ڈسا جا سکتا تھا  ۔ اب بھی سامراجی پٹھو اور انڈیا کے تربیت یافتہ لوگ ان علاقوں میں سورش برپا کرنے کی کو شش کر رہے ہیں لیکن انشا اللہ یہ کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔

ا ب آخری اور کٹھن مرحلہ  معاشی طور پر بحالی کا  مرحلہ ہے جو   شروع کیا جاچکاہے ۔ اب دیکھیں پاکستان اس مشکل مرحلہ  سے کیسے نکل پاتا ہے۔ اب جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کو ٹکڑے کرنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ علاقائی سپر طاقتیں چائنہ اور روس پاکستان کے ساتھ ہیں اور پاکستان زیادہ بہتر اور طاقتور طریقے  سے اس خطہ میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ میرے ملک اور قوم کا حامی ناصر ہو۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply