• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/حسین شہید سہروردی۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط10

پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/حسین شہید سہروردی۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط10

پاکستان میں جو سیاست دان آئین کی اہمیت کو سمجھتے تھے ان میں حسین شہید سروردی سب سے نمایاں تھے، ایوب خاں کے دور میں سہروردی نے ہر ممکن طریقے سے یہ بات مقتدر حلقوں تک پہنچائی کہ سہروردی وہ آخری شخص ہیں جن کے ساتھ آئینی تصفیہ کرکے مشرقی اور مغربی پاکستان کو جوڑا جا سکتا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کا خیال تھا کہ آئین تو کاغذ کے چند پرزے ہیں ملک کو جوڑنے میں اہم کردار ریاستی ادارے اور ریاستی قوت ادا کرتی ہے۔

حسین شہید سہرودی کا تحریک پاکستان میں بہت اہم کردار تھا۔ جناب حسین شہید ہی وہ راہنما تھے جنہوں نے  1946ءکے دِلّی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ  کی قرارداد پیش کی اور یو پی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں نے اس کی تائید کی تھی۔ قراردادِ لاہور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ انہیں 1941ء میں مسلم لیگ سے خارج کر دیا گیا تھا۔

بہت سے محققین کہتے ہیں کہ جناب حسین شہید سہروردی بنگال کو پاکستان سے الگ رکھنا چاہتے تھے مگر اب بہت سے شواہد دستیاب ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظمؒ کی اپنی بہت خواہش تھی کہ بنگال تقسیم نہ کیا جائے، اسے ایک تیسرے ملک کے طور پر آزاد کر دیا جائے۔ قائد اعظمؒ کہتے تھے۔۔”بنگال بذاتِ خود ایک برِاعظم ہے‘‘۔ لیکن لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور پنڈت جواہر لال نہرو نے قائد اعظمؒ کی یہ تجویز نہ مانی۔ بنگال کو متحد رکھنے اور ایک آزاد ملک کی حیثیت دینے کے حوالے سے وزیر اعظم بنگال حسین شہید سہروردیؒ کو قائد اعظمؒ کا اعتماد حاصل تھا‘ اور وہ اس نہج پر خاموشی سے کام بھی کرتے رہے۔ یہ سب ڈاکومینٹس اب سامنے آچکے ہیں۔ کانگریسی قیادت بھی بنگال کو متحد رکھنے پر آمادہ تھی، لیکن نہرو اور پٹیل کسی صورت آمادہ نہ ہوئے۔

بنگال کی تقسیم میں یہ بہت بڑا خطرہ تھا کہ بنگال میں وسیع پیمانے پر ہندو مسلم فساد شروع ہو جائے گا ،مغربی بنگال سے مسلمانوں کا صفایا ہو جائے گا اس وقت حسین شہید سہروردی بنگال کے وزیر اعظم تھے وہ اسے اپنی ذّہ داری سمجھتے تھے کہ مغربی بنگال میں رہنے والے مسلمانوں کے تحفظ کا بندوبست کریں اس لیے  اس نازک موقع پر انھوں نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو پنجاب اور وسطی اقلیتی صوبوں کے مسلمان راہنماؤں نے اختیار کیا جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد نئے تشکیل شدہ ملک میں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی فکر کی اور مشرقی پنجاب اور وسطی صوبوں کے مسلمانوں کو بے سہارا چھوڑ دیا حالانکہ قائد اعظم نے وسطی صوبوں کے کئی اہم راہنماؤں کو حکم دیا تھا کہ وہ بھارت میں رہ کو  ان مسلمانوں کی راہنمائی کریں اور ان کو تحفظ دلانے کی کوشش کریں مگر ان میں سے بیشتر راہنما پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔ اور مشرقی پنجاب میں خصوصا ً کوئی مسلمان راہنما نہیں تھا جو مختلف علاقوں کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے  کچھ کر پاتا، اس وجہ سے مہاجرین  کی ایک بڑی تعداد پاکستان کی طرف اُمڈ آئی تھی۔

حسین شہید سہروردی شاید وہ واحد مسلم لیگی راہنما تھے جنہوں نے اپنے صوبے میں مسلمانوں کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا، وسطی صوبوں میں مولانا حسرت موہانی کو دوسری مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے باقی لوگ کانگرسی تھے جنہوں نے اس موقع پر وسطی صوبوں کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے  کام کیا۔ حسین شہید سہروردی نے بنگال میں فسادات کے دوران گاندھی جی سے ہاتھ ملایا اور کلکتہ میں گاندھی جی کے ساتھ رہائش اختیار کی، جبکہ گاندھی جی چاہتے تھے کہ وہ مشترکہ بنگال کے شورش زدہ علاقے نوا کھلی کا دورہ کریں جہاں اس وقت کے بدترین ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔

سہروردی کا خیال تھا کہ گاندھی جی کا نوا کھلی کا دورہ ان فسادات کو مزید بڑھاوا دے گا، اور اگر وہ اس کے بجائے کلکتہ میں رہیں اور فسادات ختم کرنے کی کوشش کریں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ سہروردی نے جب اپنا یہ منصوبہ گاندھی جی کو پیش کیا تو گاندھی جی کا مؤقف تھا کہ وہ اس شرط پر کلکتہ ٹھہر سکتے ہیں کہ سہروردی بھی ان کے ساتھ وہاں رہیں۔ سہروردی نے اس سے اتفاق کیا اور پھر آہستہ آہستہ ان دونوں رہنماؤں کی کوششوں سے ہندو مسلم فسادات ختم ہوگئے۔

حسین شہید سہروردی کی دوسری کوشش بھی ان کی بالغ نظری کی دلیل تھی حسین شہید سہروردی کی تجویز تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ کا نام تبدیل ہونا چاہیے اور اس کے دروازے مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے لیے بھی کُھلے ہونے چاہئیں۔ مسلم لیگ کا نام پاکستان عوامی لیگ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب ”مسلم لیگ کا دورِ حکومت“ کے صفحہ نمبر 46 پر رقم طراز ہیں:

” ان کی یہ دلیل دو نکات پر مبنی تھی۔

اولاً: مسلم لیگ نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے۔اس لیے نئے حالات کے مطابق اس کے آئین میں ترمیم ہونی چاہیے ورنہ اس بات کا خدشہ ہے کہ حکومت کی پالیسیاں صرف مسلمانوں کی فلاح وبہبود تک مرکوز رہیں گی اور اقلیتی فرقے نظر انداز ہو کر رہ جائیں گے۔

ثانیا: بھارت میں انڈین یونین مسلم لیگ کا بھی نام عوامی لیگ رکھا جائے اور اس کی رکنیت کے دروازے بھارت کے تمام شہریوں پر کھول دینے چاہئیں، تا کہ اس کی رکنیت صرف مسلمانوں تک محدود نہ رہے اور اسے دوسرے مذاہب کے لوگوں کی بھی حمایت و تائید حاصل ہو سکے۔“

سہروردی کا خیال تھا کہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو انھیں علاقوں میں تحفظ دیا جائے۔ اس کے لیے  پاکستان مسلم لیگ کی جگہ ایک ایسی سیاسی جماعت بہت مؤثر ہوگی جو وہاں غیر مسلموں کو بھی شامل کرے۔

قائداعظم سہروردی کی تجویز سے اصولی طور پر متفق تھے صرف اس وقت کو موزوں نہیں خیال کرتے تھے۔

اس ضمن میں ڈاکٹر صفدر محمود مزید لکھتے ہیں کہ:

” قائد اعظم نے بی بی سی کے نمائندے رابرٹ سمسن کو ایک انٹرویو دیا جس میں انھوں نے کہا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ مسلم لیگ کے دروازے غیر مسلموں پر کھول دیے جائیں   کیوں کہ ابھی اس کے لیے مسلمانوں کی رائے عامہ تیار نہیں۔“

اگر چہ  ڈاکٹر صفدر محمود  نے یہ بات منفی طور پر لکھی ہے مگر اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ قائداعظم کو حسین شہید سہروردی کی تجویز سے اتفاق تھا صرف وہ اس کو کچھ عرصے کے لیے  التواء  میں رکھنا چاہتے تھے۔۔

کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر جن ناموں پر غور کیا تھا وہ لیاقت علی خاں کے علاوہ حسین شہید سہروردی کا نام تھا جن کو بنگال کی وزارت اعلیٰ  کا کافی تجربہ تھا مگر وہ اس وقت کلکتہ میں تھے اس لیے  ان کے نام کو ڈراپ کیا گیا۔ اگر حسین شہید سہروردی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنتے تو یقیناً  پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔

شاید یہی وجہ تھی کہ لیاقت علی خان  حسین شہید سہروردی کو اپنا ایک طاقت ور حریف سمجھتے تھے اس لیے  ان کے دور میں حسین شہید سہروردی کے خلاف کئی اقدام اٹھائے گئے۔ پاکستان میں آئین ساز اسمبلی کی نشست اس بنیاد پر خالی کر دی گئی کہ جو شخص تقسیمِ ہند کے بعد 6 ماہ کے اندر اندر پاکستان کے کسی علاقے میں رہائش اختیار نہیں کر پاتا وہ اپنی نشست پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس قرارداد کے تحت شہید سہروردی نے کوشش کی کہ مشرقی پاکستان میں انہیں کوئی رہائش گاہ مل جائے۔ شائستہ اکرام اللہ کے مطابق وہ جون 1948 میں ڈھاکہ گئے لیکن ان کی آمد کے 24 گھنٹوں کے بعد انہیں ڈھاکہ بدری کا نوٹس دیا گیا۔ یہ نوٹس آئی جی ذاکر حسین کی ہدایات پر سٹی مجسٹریٹ نے ان سے وصول کروایا۔ یہ نہ صرف ڈھاکہ بدر کیے جانے کا نوٹس تھا بلکہ اس میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ آئندہ 6 ماہ کے لیے مشرقی پاکستان داخل نہیں ہو سکتے۔

سہروردی صاحب ایک ماہر قانون دان تھے۔ سیاست ان کا پیشہ نہ تھا۔ روزگار کے لیے وکالت کرتے تھے, لیکن پاکستان کی انتقامی سیاست میں عموماً سب سے پہلے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ معتوب فرد کے اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے اور اسے اس حد تک مجبور کیا جائے کہ اس کی روزی روٹی کا حصول اس کے لیے مسئلہ بن جائے۔ سہروردی صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شائستہ سہروردی اکرام اللہ سہروردی کی سوانح عمری کے صفحہ نمبر 74 پر لکھتی ہیں کہ:

”انہوں نے اپنی وکالت دوبارہ سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے انہیں روکنے کے لیے اپنی سازشوں میں اضافہ کر دیا۔ کراچی اور لاہور کی عدالتوں کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ وکیل کی حیثیت سے انہیں رجسٹر نہ کریں۔ یہ منٹگمری (جسے اب ساہیوال کے نام سے جانا جاتا ہے) کی ایک عدالت تھی جس نے حسین شہید سہروردی کو وکیل کی حیثیت سے قبول کیا.

سیاسی حریف کو غدار اور ایجنٹ قرار دینے کی قبیح سیاسی روایت کی داغ بیل لیاقت علی خان نے ڈالی۔ قیام پاکستان کے بعد بحیثیت وزیر اعظم انھوں نے حسین شہید سہروردی کو غدار اور ہندوستانی ایجنٹ کہا۔

قیام پاکستان کے بعد جب خواجہ نظام الدین سے مشرقی بنگال کی وزارت اعلیٰ کے لیے  سہروردی صاحب کا مقابلہ ہونے لگا تو کچھ اراکین اسمبلی نے وفاداریاں تبدیل کر کے خواجہ نظام الدین کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال  دیا۔ سہروردی صاحب کے دوستوں نے پیسے کے ذریعے وفاداریاں خریدنے کی تجویز دی تو انہوں نے جواباً کہا:

’’ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے اور میرا کوئی ایسا ارادہ نہیں کہ اس کی سیاسی فضا کو رشوت کے ذریعے آلودہ کروں۔ میں ایسا اقتدار قطعی طور پر قبول نہ کروں گا جو ناجائز ذرائع استعمال کر کے حاصل کیا جائے۔‘‘

1949ءمیں انہوں نے جناح عوامی لیگ کی بنیاد ڈالی یہ ان کا وہی موقف تھا کہ مسلم لیگ اپنا مقصد حاصل کر چکی ہے اس لیے  انھوں نے قائداعظم سے اس بارے میں رضا مندی لی تھی کہ موزوں وقت پر مسلم لیگ کا نام بدل کر عوامی لیگ رکھا جائے یہی جناح عوامی لیگ بعد میں عوامی لیگ کے نام سے معروف ہوئی۔ 1950ءکی دہائی میں شروع شروع میں وہ قائد حزب اختلاف کے فرائض انجام دیتے رہے۔

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہاں کی نوکر شاہی کے نامزد گورنر جنرل مرحوم غلام محمد کو اپنے جوڑ توڑ کو مقبولِ عام بنانے کے لیے اسی سہروردی کے تعاون کی شدید ضرورت محسوس ہوئی، چنانچہ اس کو جنیوا سے بلا کر پاکستان کا وزیرِ قانون بنایا گیا۔۔

شہاب نامے میں لکھا ہے کہ سکندر مرزا نے محمد علی بوگرہ کے بعد حسین شہید سہروردی سے وزارت عظمی کا وعدہ کیا تھا مگر انھوں نے چوہدری محمد علی کو وزیر اعظم بنا دیا شاید وہ آئین بنانے کا کریڈٹ سہروردی کو نہیں دینا چاہتے تھے۔ سہروردی کے دباؤ  پر چوہدری محمد علی کے دور میں دوسری دستور ساز اسمبلی کی تشکیل ہوئی جس میں مشرقی پاکستان کے صوبائی اراکین  نے دوسری دستور ساز اسمبلی کے اراکین کا انتخاب کیا اس طرح اسمبلی میں حسین شہید سہروردی کے حامیوں کی بڑی تعداد دستور اسمبلی کا حصہ بن گئی۔

1956ءمیں جب پاکستان کا آئین منظور ہوا تو وہ ان چند افراد میں شامل تھے جنہوں نے بعض اصولوں کی بنیاد پر اس آئین پر دستخط نہیں کیے تھے دستور ساز اسمبلی میں حسین شہید سروردی کے اتحادی بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس لیے  چوہدری محمد علی کی وزارت کے خاتمے کے بعد صدر کو مجبور کیا گیا کہ وہ شہید کو وزیراعظم کی حیثیت  سے قبول کریں، گو کہ اس سے قبل صدر اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ ایسا صرف ان کی لاش پر ہی ممکن ہے، لیکن حالات نے انہیں اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کیا۔

عوامی لیگ نے پاکستان میں مخلوط حکومت کی قیادت کر کے ری پبلکن پارٹی سے اتحاد کر لیا۔ سہروردی وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہو گئے۔

سہروردی نے ۱۹۵۶ کے آئین کے تحت حلف اٹھا کر اس آئین کی افادیت کو تسلیم کر لیا اس طرح پاکستان کا پہلا آئین دونوں حصوں کا متفقہ آئین بن گیا۔ اس کی حیثیث دونوں حصوں میں ایک جوڑنے والے عنصر کی ہوگئی۔

انہوں نے عہد کیا کہ وہ توانائی کابحران دور کریں گے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی تفاوت کا خاتمہ کریں گے۔ انہوں نے پاکستانی فوج کی تنظیم نو کابھی عہد کیا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ ایسی شراکت داری کی بنیاد رکھی جس کے تحت ایک خاص مقصد اور مفاد کو حاصل کیا جانا تھا۔ اسے سٹریٹجک شراکت داری بھی کہا جاتا ہے۔ کاروباری طبقے اوربیورو کریسی نے ان کی پالیسیوں کے حوالے سے ان پر بڑا دباؤ ڈالا۔ ان میں امداد کی تقسیم‘ نیشنلائزیشن اور وی یونٹ سکیم کی مخالفت شامل تھی۔

پاک چین تعلقات کے معمار بھی جناب حسین شہید سہروردی ہی تھے۔ انہوں نے  مغربی بلاک کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے 1956 میں چین کا دورہ کیا اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قرار پائے جس نے کمیونسٹ چین کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔ اس دورے میں کابینہ اور اعلیٰ افسران کا ایک بڑا وفد بھی وزیر اعظم کے ساتھ تھا جس نے چینی وزیر اعظم چو این لائی کے ساتھ ملاقات کی اور الائنس پیکٹ پر دستخط کیے۔ اس ملاقات کے بعد ہی بیجنگ میں پاکستانی سفارتخانہ قائم کیا گیا۔ اسی طرح جب 1957 میں چو این لائی پاکستان آئے تو کراچی میں ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔

گوادر کے حصول کے لیے  بھی سہروردی نے اپنے دور میں کافی کام کیا تھا اس کے ساتھ مشرقی پاکستان سے جڑا ایک علاقہ بھی حاصل کرنے کی بات چیت شروع کی۔۔

مرحوم سہروردی کی وزارت عظمی ریپبلیکن پارٹی کی مرہون منت تھی، جو اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق تھی۔ صدر اسکندر مرزا نے سہروردی صاحب کو بلاکر کہا کہ ریپبلکن پارٹی تمہارا ساتھ چھوڑ گئی ہے، تم استعفٰی دے دو۔ سہروردی اڑ گئے کہ وہ تحریک عدم اعتماد لے آئیں، میں اسمبلی میں اپنا دفاع کروں گا۔ یہ بول کر وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو ریڈیو پر خبر نشر ہو رہی تھی کہ وزیراعظم سہروردی نے صدر کو اپنا استعفٰی پیش کردیا۔

مشہور صحافی منیر احمد منیر لکھتے ہیں مجھے ایک انٹرویو میں ایک سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عبدالحمید دستی نے یہ بتا کر حیرت زدہ کر دیا تھا کہ جب صدر سکندر مرزا نے وزیر اعظم سہروردی سے استعفٰی  طلب کیا تو وہ رو رہے تھے۔ سہروردی جیسا بہادر اور جری سیاستدان کیوں رو رہا تھا؟ میں جستجو میں رہا۔ سید مرید حسین شاہ نے بتایا کہ انہیں روتا دیکھ کر نواب مظفر علی قزلباش نے حیرت کا اظہار کیا تو سہروردی صاحبؒ نے جواب دیا: ”میں اس لیے نہیں روتا کہ پرائم منسٹری جا رہی ہے۔ میں اس لیے روتا ہوں کہ کشمیر ہمیشہ کے لیے گیا‘‘۔ سید مرید حسین کی زبانی یہ سن کر میری جستجو کو ایک اور مہمیز لگی۔ سید امجد علی نے گتھی سلجھا دی۔ کہنے لگے، صدرِ امریکہ آئزن ہاور بڈابیر (پشاور) میں مواصلاتی اڈہ  کھولنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم سہروردی نے شرط رکھی، میں اڈہ  کھولنے کی اجازت دے دیتا ہوں، اس کے عوض مجھے کشمیر لے دیں۔

سہروردی صاحبؒ کے اگر آنسو بہے تو اس پاکستان کی خاطر، سہروردی کی رخصتی نے نہ صرف پاکستان کے دونوں حصوں میں ناقابل بیان   فاصلہ  پیدا کیا بلکہ کشمیر حاصل کرنے کا ایک موقع بھی گنوا دیا۔

سہروردی کو اس پرسرار طریقے سے برطرف کرکے سکندر مرزا نے اپنی برطرفی کا طریقہ منتخب کرلیا تھا۔ سکندر مرزا کو خوف تھا کہ آئین کے تحت الیکشن کے ذریعے منتخب ہونے والا وزیر اعظم ان سے زیادہ طاقت ور ہو گا اور وہ میوزیکل چیئر کا یہ سلسلہ ختم کر دے گا جس کے ذریعے سکندر مرزا وزیر اعظم نامزد اور برطرف کر رہے تھے۔

چوہدری محمد علی اور سہروردی کی پے درپے برطرفیوں نے پاکستانی بیوروکریسی میں بھی اضطراب پیدا کر دیا تھا سہروردی صاحب سے زبردستی استعفیٰ لینے کے بعد سرکاری افسران میں ایک ایسا طبقہ بھی تھا جو اس کے خلاف تھا، اور ان کی ہمدردیاں مکمل طور پر حُسین شہید کے ساتھ تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ کسی طور یہ معاملہ عوامی عدالت تک پہنچایا جائے۔ معروف سیاست دان اور کاروباری شخصیت بیگم سلمیٰ احمد اپنی خود نوشت سوانح عمری میں اس حوالے سے لکھتی ہیں کہ:

”آفتاب احمد خان حسین شہید سہروردی کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔ جب ایوب خان نے عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد مارشل لاء نافذ کیا، تو سول سروس کے ایک گروہ نے ایک دوسرے سے رابطے استوار کیے اور طے کیا کہ مارشل لاء کے نفاذ کے خلاف عوامی رائے بنائی جائے۔ انہوں نے اس حوالے سے پوسٹرز بھی چھپوائے جو پورے کراچی میں لگائے جانے تھے۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ یہ عمل انجام دیتے، راز فاش ہوگیا۔ پوسٹرز قبضے میں لے لیے گئے۔ منصوبہ سازوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں نمایاں انکل آفتاب تھے۔ ان کی جیل سے رہائی کے لیے بارہا کوششیں کی گئیں۔

1958ءمیں جب ایوب خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو سہروردی تن تنہا حزب اختلاف کی آواز بن گئے۔۔

مارشل لاء لگا کر جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ تو کرلیا، لیکن اسے معلوم تھا کہ پرانے سیاستدانوں کو ٹھکانے لگائے بغیر سکون سے حکومت کرنا مشکل ہوگا، لہذا ایبڈو کے نام سے نیب طرز پر ایک  قانون بنایا، جس کے تحت سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے جاتے۔ جواب میں یا تو سیاستدان 7 سال تک سیاست سے بے دخلی قبول کرتا، یا فوجی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرتا۔

جن چند سیاستدانوں نے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا، ان میں مرحوم حسین شہید سہروردی بھی تھے۔ مارشل لاء  والوں کی باریک بینی اور تو کچھ نہ ڈھونڈ سکی، چاولوں کے ایک پرمٹ کو سامنے لے آئی‘ کہ جب سہرودیؒ وزیر اعظم تھے، انہوں نے اپنے اختیارات کے غلط استعمال میں ایک شخص سیٹھ نور علی کو چاولوں کا پرمٹ دیا تھا۔ پنجاب اسمبلی میں ملٹری کورٹ کے سامنے یہ مقدمہ چلا  کہ بطور وزیراعظم انہوں نے اپنے ایک چہیتے صنعتکار کو بلااستحقاق امپورٹ پرمٹ دیا۔ فوجی عدالت میں سہروردی صاحب نے ریکارڈ سے ثابت کردیا کہ مذکورہ پرمٹ کے اجراء کیلئے وزارت تجارت کے سیکرٹری نے ان سے منظوری لی ہی نہیں، بلکہ خود ہی پرمٹ جاری کردیا۔ فوجی عدالت کے سربراہ کرنل نے سہروردی صاحب سے کہا کہ کسی سیکرٹری کیلئے یہ کیسے ممکن ہوا کہ متعلقہ وزیر اور وزیراعظم سے منظوری لیے بغیر اتنا بڑا پرمٹ خود ہی جاری کردیا۔ سہروردی نے جواب دیا کہ میں سیٹھ نور علی کو جانتا تک نہیں۔ مجھے اس کے لیے سفارش دو افراد نے کی تھی۔ ایک تو اس وقت ملک بدر ہے۔ دوسرا یہیں ہے۔ جو ملک سے جا چکا، اس کا نام ہے سکندر مرزا۔ اس نے بحیثیت صدرِ پاکستان مجھ سے اس پرمٹ کے لیے سفارش کی‘ لیکن سیٹھ نور علی کا دوسرا سفارشی یہیں ہے۔ وہ اس وقت کمانڈر انچیف تھا۔ اس کا نام ہے، جنرل محمد ایوب خاں‘‘۔ صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خاں کے بارے میں سہروردی صاحبؒ کے اس اظہار پر عدالت ہُو کے عالم میں آ گئی۔ عدالت کو پریزائیڈ ایک کرنل کر رہا تھا۔ جنرل ایوب خاں کے حوالے سے کرنل نے سہروردی صاحبؒ سے پوچھا: ”کیا انہوں نے آپ کو اس کا حکم دیا تھا؟‘‘ اس استفسار پر سہروردی صاحبؒ  طیش میں آ کر گرجے: ”وہ کیسے مجھے حکم دے سکتا تھا۔ میں وزیر دفاع اور وزیر اعظم تھا۔ اس نے عاجزی کے ساتھ مجھ سے التجا کی تھی۔

اس کے بعد اس وقت کے صدر سکندر مرزا اور آرمی چیف نے اس کیلئے سیکریٹری پر دباؤ  ڈالا یہ سن کر کرنل کا چہرہ پیلا پڑ گیا، اور کانپتے ہوئے بولا: آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟ سہروردی صاحب نے جیب سے ایوب کی ایک دستخط شدہ پرچی نکال کر دکھائی، جو وزیراعظم سہروردی کے نام تھی، اور ان سے مذکورہ صنعتکار کو پرمٹ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ سہروردی صاحب نے کہا کہ میں نے کیس دیکھ کر پرمٹ دینے سے انکار کردیا تھا، تو صدر اور آرمی چیف نے وزیراعظم کی منظوری کے بغیر سیکریٹری سے پرمٹ جاری کروادیا۔

اس گفتگو کے بعد سہروردی صاحب کو 7 سالہ نااہلی کی سزا تو پھر بھی دی گئی، لیکن پریس کو عدالتی کارروائی رپورٹ کرنے سے روک دیا گیا۔

حکومت نے سہروردی کو ایبڈو کے قانون کے تحت سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا لیکن سہروردی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور سیاسی طور پر مسلسل متحرک رہے۔ انہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان‘ دونوں صوبوں کے طوفانی دورے کیے اور عوام کو مارشل لاءحکام کے عزائم سے آگاہ کیا۔

1962 میں کراچی سنٹرل جیل سے رہائی کے بعد انھوں نے این ڈی ایف (نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ) کی بنیاد رکھی۔ نورالامین اور مولانا بھاشانی سمیت تمام اپوزیشن رہنما ان کی چھتر چھاؤں  میں کام کرنے پر متفق تھے۔ پارٹی کے جنرل سیکریٹری شیخ مجیب الرحمان مئی میں لندن والے گھر میں ان سے ملنے آئے۔ انھوں نے شیخ مجیب سے کہا کہ وہ فیصلہ کریں گے کہ کیا اِ سی  برس کے آخر میں ان کی وطن واپسی کے بعد سیاسی جماعتیں فعال کی جائیں۔

جناب حسین شہید سروردی کو اندازہ تھا کہ پاکستان کے پہلے آئین میں پاکستان کے دونوں حصوں کی رضا مندی شامل تھی اس  آئین کو منسوخ کرکے ایک خطرناک مثال قائم کی گئی ہے انہوں نے اپنے اس اضطراب کا کئی بار اظہار کیا۔

یوسف خٹک مرحوم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ سہروردی صاحبؒ نے انہیں ایک نہیں دو مرتبہ کہا تھا: ”آپ ایوب خاں سے کہیں کہ میں مرنے سے پہلے پاکستان کے لیے ایک آخری خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک آئینی تصفیہ ہو جائے، ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو یہ خدمت انجام دے سکے۔ میں ایوب خاں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان میں نہ رہوں تو اس کے بعد جب تک ایوب خاں صدر ہوں میں ملک سے باہر چلے جانے کے لیے بھی تیار ہوں۔

ایوب خاں کو ایسے آئینی تصفیے  کی اہمیت کا پتہ ہوتا تو وہ پاکستان کے پہلے آئین کو ہی کیوں منسوخ کرتا چنانچہ اس نے سہروردی صاحبؒ کی یہ پیشکش سُنی اَن سُنی کر دی۔ حسین شہید سہروردی کو خطرہ تھا کہ آئینی تصفیے کی عدم موجودگی دونوں ممالک کو علیحدہ کر جائے گی اور بنگلہ دیش الگ ملک کے طور پر آزاد اور خود مختار نہیں ہوگا بلکہ وہ نیپال اور بھوٹان کی طرح آزاد ہوگا انھوں نے صدر ایوب خاں کو ایک طویل خط لکھا جس میں یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک بھارتی پولیس ایکشن کی مار ہے۔ اور یہ مستقبل کا بھوٹان اور سکم ہو گا۔ ۔واضح رہے وہ قیام پاکستان سے پہلے ایک متحدہ بنگال کی صورت میں الگ ملک کے حمایتی تھے جو ان کے نزدیک اپنی آزادی اور خود مختاری کے پورے امکانات رکھتا تھا مگر وہ مشرقی پاکستان کی آزادی کو خود مسلمان بنگالیوں کے لیے  نقصان دہ سمجھتے تھے مگر وہ متحدہ پاکستان میں عزت اور وقار کے ساتھ رہنا چاہتے تھے محکوم اور مجبور بن کر نہیں۔۔مگر ایوب خاں خود بنگالیوں کو ساتھ نہیں رکھنا چاہتے تھے۔

ممتاز صحافی سہیل وڑائچ نے ولی خان سے انٹرویو کیا تو انھوں نے بتایا کہ ایوب خان نے ان سے کہا تھا ’’ اگر آپ نے پاکستان بچانا ہے تو جتنی جلدی ممکن ہو مشرقی پاکستان سے جان چھڑا لیں۔ ‘‘

جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب ’’ زندہ تاریخ ‘‘ میں لکھا ہے کہ 1968 میں ایوب خان نے انھیں بتایا کہ مشرقی پاکستان جلد ہم سے الگ ہوجائے گا۔ ایوب خان بنگالیوں سے اس لیے بھی ناراض تھے کہ صدارتی انتخابات میں مشرقی پاکستان میں بنگالیوں نے ان کے بجائے فاطمہ جناح کا  ساتھ دیا۔

1963ءکے اوائل میں انہیں  دل کا دورہ پڑا۔ وہ علاج کروانے کے لیے یورپ گئے اور پھر آرام کرنے کی غرض سے بیروت کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔ 5 دسمبر 1963ءکو نصف شب کے قریب ان کی حالت اچانک خراب ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ انہیں کوئی طبی امداد پہنچائی جاسکتی وہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوٹل ہی میں دم توڑ گئے۔

ان کا انتقال 5 دسمبر 1963 کو جلا وطنی کے دوران بیروت کے ایک ہوٹل میں پراسرار حالت میں ہوا۔ ان کی موت کے حوالے سے کئی افواہیں زیرِ گردش رہیں، جبکہ سرکاری مؤقف یہی رہا کہ دل کے دورے کے باعث ان کی جان گئی ہے۔ پاکستانی سیاست کے لاتعداد رازوں کی طرح ان کی موت کا راز بھی اب صرف متنازع اور ایک راز ہے، جو ہمیشہ کے لیے دفن ہوچکا ہے۔

بعد میں ان کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کا اخباری انٹرویو شائع ہوا جس میں یہ راز کھولا گیا ہے کہ سہروردی مرحوم طبعی موت نہیں مرے تھے،  بلکہ ان کو مروایا گیا تھا۔

۔ سہروردی کی میت وطن واپس لائی گئی جہاں 8 دسمبر 1963ءکو انہیں شیر بنگال مولوی فضل الحق کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply