کچھ جزیرے ہیں باقی جوہڑ ہے۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ابھی تھوڑی دیر پہلے گھر میں ویجیٹیبل آئل کی ایک بوتل لائی گئی جس پر درج قیمت 1025 روپے تھی لیکن دکاندار نے یہ کہہ کر کہ پرانے سٹاک سے ہے، قیمت بڑھ چکی ہے 1200 روپے میں دی اور ساتھ ہی نوید دی کہ اب جو سٹاک آئے گا اس میں ایسی ہی بوتل کی قیمت 1280 ہوگی۔ میں نے مذاق میں ہنستے ہوئے کہا ” عمران خان زندہ باد ” تو بھتیجی نے اس کا جواب مخالفانہ نعرے سے دیا۔
بالواسطہ محصولات لگتے ہی چلے جا رہے ہیں اور لگتےہی چلے جائیں گے کیونکہ قرض دینے والے بین الاقوامی اداروں سے معاملات کسی برتے پر طے کیے جاتے ہیں بصورت دیگر ان کی منشاء ماننا پڑتی ہے۔ آئی ایم ایف جس سے محض چھ ارب کا قرض وہ بھی چھوٹی چھوٹی اقساط میں لیا گیا غالبا” یہ منوائے جا رہی ہے کہ پہلے سے لیے گئے قرض ادا نہیں ہوئے اور مزید قرض مانگنے آ گئے تھے اب اس کے ساتھ ساتھ پہلے والے بھی لوٹاؤ۔
براہ راست ٹیکسز تو آپ وصول نہیں کر سکتے کیونکہ پاورلومز والے کارخانے بند کرکے چابیاں آپ کے حوالے کرنے کی دھمکی دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ چینی اور گندم کے کارٹلز جنہیں آپ مافیا کا نام دے کر جان چھڑانے کی اب تک کامیاب کوشش کر رہے ہیں، کے سرکردہ رکن آپ کی بغل میں بیٹھے ہوئے ہیں، یہ لوگوں کو معلوم ہو چکا ہے۔ مگر ناتواں لوگ کریں بھی تو کیا کریں۔ صبر کر سکتے ہیں یا خود کشی۔ صبر کریں تو بال بچے بھوکوں مرتے ہیں اور خود کشی کرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ حرام موت مرتے ہیں بلکہ لواحقین کو بھی یکا و تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔
اس ملک میں بقول ایک اعلٰی فوجی افسر کے کچھ جزیرے ہیں جیسے کینٹ، ڈیفنس ہاؤسنگ سکیمز، بحریہ ٹاؤنز اور کچھ دیگر پوش علاقے۔ اگر آپ ان کے باسی ہیں تب تو آپ کو شہریت سے متعلق آسائشیں جیسے صفائی وغیرہ کی سہولت میسر ہے۔ ان کے علاوہ اگر آپ کہیں اور ہیں تو سمجھیے ایک بڑے جوہڑ میں ہیں جہاں نالیوں سے غلیظ پانی ابل کر گلیوں اور سڑکوں کو ناقابل رفت بنا رہا ہے۔ کہیں کھلے ریستورانوں میں بنتے کھانوں اور غذا پر غلیظ گرد اڑ کر پڑتی ہوئی انہیں صحت کے لیے خطرہ بنا رہی ہے۔ مکھیاں ہیں کہ بھنبھنا رہی ہیں۔ چھپکلیاں ہیں کہ لپک رہی ہیں۔ مچھر ہیں کہ امراض کو موجب بنے ہوئے ہیں۔
ہسپتال ناکافی ہیں۔ جو ہیں وہاں بھی حالات جوہڑ کے سے ہیں۔ کہیں عملہ کم تو کہیں ڈاکٹر نااہل۔ میں جس قصبے میں مقیم ہوں وہاں سے ہر سال ساٹھ سے ستر طلباء تو میڈیکل کی تعلیم کے لیے صرف کرغیزستان جاتے ہیں۔ ریگولر اور سیلف فنانسنگ پر میڈیکل کالجوں میں داخل ہونے والے علیحدہ ہیں۔ ڈاکٹر ہیں کہ بنتے چلے جا رہے ہیں مگر ان کی اہلیت زیر سوال ہے پھر تیس لاکھ سے ستر لاکھ میں بننے والے ڈاکٹر کیسے ہونگے ویسے ہی جیسے پچیس لاکھ دے کے متعین ہونے والا تھانیدار۔ پہلے تو جو لگایا تھا اسے پورا کرنا مقصد ہوگا۔ آگے کا تصور آپ خود کر سکتے ہیں۔
کل میں یہاں کے ایک نامور سرجن کے پاس بیٹھا تھا جن کا اپنا ایک خاصا مناسب ہسپتال ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ طب کے پیشے کی نہ تعظیم رہی اور نہ طب سے وابستہ افراد میں اہلیت باقی بچی۔ بتا رہے تھے کہ تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں جب ہم تھے تو ہم ہر طرح کی ایمرجنسی سے نمٹتے تھے جیسے گائنی، کارڈیک، ایکسیڈنیٹل وغیرہ غیرہ ہماری کوشش ہوتی تھی کہ کسی کو کہیں اور نہ جانے دیں، اب اسی ایمرجنسی میں چار ڈاکٹر ہیں اور طبی عملہ کم، ڈاکٹر ایمرجنسی سے نمٹنے کی بجائے بس یہی کہتے ہیں کہ ملتان لے جاؤ، بہاولپور لے جاؤ۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے کہا کہ ہم تو خائف ہیں، اس لیے کہ اگر ہمیں خود یا ہمارے اہل خانہ کو کسی طبی ایمرجنسی کا سامنا ہو تو کس کے پاس جائیں؟
اس جوہڑ میں ہی مگر مچھ ہیں جو شکار وکار کرکے شام کو اپنے اپنے جزیرے میں چلے جاتے ہیں، اللہ اللہ خیر صلا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply