• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا پنجابی ، سرائیکی ، ہندکو ، پوٹھوہاری اور ڈوگری علیحدہ علیحدہ زبانیں ہیں ؟ -تحریر/قیس انور

کیا پنجابی ، سرائیکی ، ہندکو ، پوٹھوہاری اور ڈوگری علیحدہ علیحدہ زبانیں ہیں ؟ -تحریر/قیس انور

  ایک انتھروپولوجِکل نکتہ نظر

یونیورسٹی آف شکاگو کی ڈاکٹر علینہ بشیر ، یونیورسٹی آف مَیری لینڈ کے ڈاکٹر تھامس کانرز اور یونیورسٹی آف مشی گن کے ڈاکٹر بروک ہیفرائٹ کی کتاب ‘ اے ڈسکرپٹو گرامر آف ہندکو، پنجابی اور سرائیکی ‘ اگست 2019 میں شائع ہوئی، مصنفین لاہور کی پنجابی ،ایبٹ آباد کی ہندکو اور ملتانی سرائیکی کو علیحدہ زبانیں قرار دیتے ہیں (ہندکو ، پنجابی اور سرائیکی کو ‘سائنسی ‘ طور پرعلیحدہ زبانیں ثابت کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے )۔ کتاب کے مصنفین ایڈنبرا یونیورسٹی کے لسانیات اور انگریزی زبان کے پروفیسر جان جوزف کے 1982 کے ایک پیپر سے استفادہ کرتے ہوئے ‘ڈائلکٹ’ (بولی ) اور ‘لینگویج ‘ (زبان ) جیسی اصطلاحات کو لسانی کی بجائے ‘سماجی حقیقتیں ‘ (سوشل فیکٹس ) قرار دیتے ہیں۔

ڈاکٹر علینہ بشیر اور ان کے ساتھی مصنفین خود ‘زبان’ اور ‘بولی’ کے تصورات کے استعمال کی بجائے ‘ورائٹی’ یا ‘ لینگویج ورائٹی ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ‘ورائٹی’ یا ‘ورائٹیز آف لینگویج’ پر تفصیلی بحث پروفیسر رچرڈ ہڈسن کی مشہور ٹیکسٹ بک ‘سوشیو لنگوسٹکس ‘ میں موجود ہے ۔ ان کے مطابق ‘ورائٹی آف لینگویج’ کی تعریف یہ ہے ‘ a set of linguistic items with similar social distribution.

پروفیسر رچرڈ ہڈسن لکھتے ہیں کہ کچھ ورائٹیز کو مختلف زبانیں اور کچھ کو ایک ہی زبان کی بولیاں قرار دینے کے لیے کنسسٹنٹ معیار موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے پاس زبانوں ،بولیوں اور سٹائلز جیسی چیزوں کو ورائٹی کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔

ڈاکٹر علینہ بشیر اور ان کے ساتھی مصنفین سمجھتے ہیں کہ جنوبی ایشیائی پس منظر میں ‘بولی’ اور ‘زبان’ کے متعلق اہم سماجی حقیقت یہ ہے کہ بولی کو اکثر منفی طور پر نان –سٹینڈرڈ یا سٹینڈرڈائزڈ نہ کی جانیوالی ورائٹی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ زبان مثبت انداز میں ایسی سٹینڈرڈ ورائٹیز کو کہا جاتا ہے جسے سرکار استعمال یا تسلیم کرتی ہو ۔ اس سماجی حقیقت کے ہوتے ہوئے کہ ہندکو ، پنجابی اور سرائیکی بولنے والوں میں یہ شعوراور اظہار بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی ورائٹی کو ‘زبان’ کہیں، مصنفین نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ وہ اس کتاب میں ہندکو ، پنجابی اور سرائیکی کے علاوہ پوٹھوہاری اور ڈوگری کو بھی’ زبان’ ہی کہیں ۔

ایڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر جان جوزف نے اپنی کتاب ‘لینگویج اینڈ پالیٹکس ‘ میں ہائنز کلاز کے ماڈل کو بنیاد بناتے ہوئے اوپر والے نقطۂ نظر کے خدوخال بھی بیان کیے ہیں ۔ ہائنز کلاز کے مطابق کسی بولی کو زبان قرار دینے کے لیے اس کا دو معیاروں ‘آپستنت’ اور’آوسباو’ پر پورا اترنا لازمی ہوتا ہے ۔

‘اے گلوسری آف سوشیو لنگوسٹکس ‘ کے مطابق ‘آپستنت’ ( Abstand) زبان بہت مختلف لسانی خصوصیات کی حامل ہونے کی وجہ سے اپنے آپ میں ایک زبان ہوتی ہے ۔ اس کا دوسری زبانوں سے لسانی فاصلہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس کے زبان ہونے پر کوئی تنازع  نہیں ہوتا ۔ اس کی ایک مثال شمالی اسپین کی زبان ‘باسک’ ہے جس کا تاریخی طور پر دوسری یورپی زبانوں کےساتھ کوئی تعلق نہیں اور وہ اپنی گرامر ، ذخیرہ الفاظ اور تلفظ میں ہمسایہ زبانوں سے بالکل مختلف ہے۔ ‘آوسباو'( Ausbau) زبان اپنی لسانی خصوصیات کی بجائے اپنی سماجی ، ثقافتی اور سیاسی خصوصیات کی وجہ سے زبان کا درجہ حاصل کرتی ہے ۔ نارویجین اور ڈینش بولنے والے ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں لیکن یہ دونوں اس لیے مختلف زبانیں ہیں کیونکہ وہ دو آزاد اور علیحدہ قومی ریاستوں کی زبانیں ہیں جن کی تحریر کے نظام ، گرامر کی کتابوں اور ڈکشنریوں کی روایت مختلف ہے ۔

پروفیسر جان جوزف کے مطابق ماہرین لسانیات کی رائے میں ‘آپستنت’ معیار پر ‘چینی زبان’  14  بولیوں پر مشتمل ایک زبان نہیں بلکہ 14  واضح طور پر مختلف زبانیں ہیں ۔ اسی طرح ‘آپستنت’ معیار پر ‘سربین ‘ اور ‘کروشین ‘ کواکثر ماہرین لسانیات ایک ہی زبان ‘سربو-کروشین ‘ قرار دیتے ہیں ، لیکن ان زبانوں میں ادبی ترقی اس طرح ہوئی ہے کہ ان میں فرق بڑھتا جائے۔ اس وقت ایک عجیب سی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جب چند سو ماہرین لسانیات کوئی اور بات کہہ رہے ہوں لیکن کروڑوں عوام جن کی زندگی اس سوال سے جڑی ہوئی ہو اس سے الٹ انداز میں سوچتے ہوں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اپنی زبان کے متعلق لوگوں کی سوچ اور ‘ایکسپرٹ ‘ کے نقطہ نظر میں اختلاف پیدا ہو جائے تو ‘کتابی تعریف ‘ کے حوالے سے ایکسپرٹ ہی ٹھیک کہہ رہا ہوتا ہے کیونکہ مہارت کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھا اور سمجھا جائے جو عام بندہ نہیں کر سکتا ، لیکن جب ایکسپرٹ کسی کلچر میں ‘باہر والا ‘ ہو، تب ‘اندر والا ، ماہر اور باہر والا اس کا طالب علم بن جاتا ہے ۔

جدید انتھروپولوجِیکل نقطۂ نظر کسی کلچر کی اپنے متعلق رائے کی مشترک روایت کو بنیادی حقیقت سمجھتا ہے۔ یہ رائے ‘ افسانوی ہو سکتی ہے لیکن اگر لوگ اسے سچائی سمجھیں اور اپنی زندگیاں ، سوچ اور شناخت اس پر استوار کریں تو اس تجزئیے کے مقابلے میں جو اسے افسانوی سمجھتا ہے اندر کے لوگوں کی رائے زیادہ اہم اور حقیقی ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پروفیسر جان جوزف کے نزدیک جب تک لوگ یہ سمجھتے رہیں گے کہ جو وہ بولتے ہیں وہ اپنی اصل میں ‘زبان ‘ ہی ہے تو اسے ایک زبان ہی سمجھا جائے گا ۔ یہ سوال کہ کوئی (ورائٹی) زبان ہے یا نہیں ہمیشہ ایک سیاسی سوال ہوتا ہے۔ ماہر لسانیات(ورائٹیز) کی بناوٹ کے فرق یا   باہم سمجھے جانے کی پیمائش کرکے اس کا معروضی جواب نہیں دے سکتے تاہم وہ نچلی سطح سے اشرافیہ تک یہ (ورائٹی) استعمال کرنے والی اور اس کے اردگرد کی کمیونٹی کی رائے اور حکومتی اور تعلیمی پالیسی کو جان کر اپنی رائے دے سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply