علی ابنِ ابی طالب/عامر حسینی

جب حجاز،یمن، عراق، جزیرہ(آج کے بحرین، اردن وغیرہ کے علاقے) ان سب جگہوں پر “انارکی” پھیل گئی تھی اور اشرافیت کے خلاف جگہ جگہ عوامی تحریکیں اُٹھ کھڑی ہوئی تھیں اور حج کی آمد پر مرکز سے ناراض ایک بہت بڑی تعداد کے احتجاج کے دوران اُٹھ کھڑے ہونے والے ہنگامے میں جناب حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ  عنہ شہید کردیے گئے تھے اور اُس وقت مسلم برادری بطور برادری کہیں نظر نہیں آرہی تھی ، کسی کو منقسم اور گروہوں میں بٹ جانے والی کمیونٹی /امت “امیر” ماننے کو تیار نہ تھی کیوں کہ “جماعت” نام کی شئے مٹ گئی تھی، ممکن تھا کہ قتل و غارت گری کا ایک اور بڑا دور شروع ہوجاتا، ایسے میں وہ سب مل کر پہلے فرداً فرداً مدینہ کے اندر مہاجر اور انصار بقید حیات ہستیوں کے پاس آئے ،ہر ایک ہستی انکار کرتی گئی، انھوں نے بھی انکار کردیا جو شہید ہونے والی ہستی کی زندگی میں اُسے معزول کرکے خود اس منصب پہ فائز ہونے کے خواہش مند تھے۔ اس موقع  پر جو لوگ مرکز کی جانب سے پہلے دو خلفاء رضوان اللہ کی روش سے انحراف کا الزام لگاکر مرکز کے خلاف بغاوت کے کرتا دھرتا تھے انھوں نے دھمکی دی کہ اگر فوری طور پر امیر نہ مقرر کیا تو وہ فلاں فلاں کی گردن اُتار دیں گے۔۔ اس الٹی میٹم کے بعد لوگ اُس شخصیت کی طرف گئے جس کی امارت اشرافیت   سب سے زیادہ ناپسندیدہ رہی تھی، اسے امیر چننے کی تجویز جب اُس کے بیٹے کے کانوں میں پڑی تو اُس نے اپنے والد محترم کو مدینہ کے نواح میں جانے کا مشورہ دیا لیکن اُس شخصیت نے اُس پُرآشوب اور انارکی کی آگ میں جل رہے سماج میں امن و آشتی قائم کرنے کے لیے اس تجویز کے ساتھ امارت کی پیشکش قبول کرلی کہ اُس کی امارت کو قبول کرنے کا اعلان اہل مدینہ کو مسجد نبوی میں کھلے عام کرنا ہوگا اور بیعت عام کرنا ہوگی ۔

کیا ستم ظریفی ہے جس نے مدینہ اور مکہ کو بہت بڑی آگ سے بچایا اور اس وقت انارکی کو دور کردیا جس کے دور ہونے کا کسی کو یقین نہیں تھا لیکن جب ایسا ہُوا، امن کے آثار پیدا ہونے لگے تو اُسے امن قائم کرنے اور اپنے زمانے کی اشرافیت کا ساتھ دینے کی بجائے عدل، برابری اور حق جیسی اقدار کی عملی تجسیم اور ظلم کرنے والا کوئی ہو ،اُس سے درگذر نہ کرنے پر اصرار نے اشرافیت کو اس کے خلاف متحد کردیا، چونکہ وہ پارٹی بازی اور اپنے کیمپ کی ہر جائز ناجائز بات اور عمل کو سند جواز نہیں دیتا تھا تو اُس کے ساتھ یہ ہوا۔
اپنے بھی خفا مجھ سے، بے گانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

اور صرف انھیں ہی نہیں بلکہ خلوص دل اور وفاداری کے ساتھ اُن کا ساتھ دینے والے ہر ایک فرد اور اس کے خاندان کو تعزیب سے گزرنا پڑا اور پھر 19 رمضان کو سازشوں کے سارے جال تنگ ہوگئے اور اُن پر عین حالت نماز میں حملہ ہوا، زہر سے بجھی تلوار نے اُنھیں شدید زخمی کیا اور 21 رمضان المبارک 40 ہجری میں وہ ہستی اپنے رفیق الاعلیٰ سے جاملی۔

لوگ آج تک یہ سوال کرتے ہیں کہ اُس ہستی نے اپنے سر پر ضرب لگتے وقت “فزت بالرب الکعبہ” (رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا) کیوں کہا؟
یہ سوال بار بار اس لیے بھی ہوتا ہے کہ کیونکہ جب اقدار کی بجائے طاقت و اقتدار کو ہی ہدف اور مقصود بالذات بنایا جائے تو ظاہری طاقت اور اقتدار پر قبضہ پانے والے کامیاب ٹھہرائے جاتے ہیں-

مجھے تو کوئی تعجب نہیں ہوتا جب عدل و حق و مساوات جیسی اقدار سے منحرف ہوکر اقتدار پانے اور سیم و زر کے ڈھیر لگا لینے کو فتح و شکست کا معیار ٹھہرایا جائے۔

جدیدیت اور اس کی پیدا کردہ معاصر حسیت کی روشنی میں آج کے سماجی ، معاشی اور سماجی، سیاسی شعور اور اس کے تقاضوں کی روشنی میں 40 ہجری کے سماجی ، معاشی اور سماجی ، سیاسی عوامل سے بنی حسیت کو ماپنے کی کوشش نے ہمیشہ اقدار کے منحرفین کو ہی سرخرو ثابت کیا ہے۔ 21 رمضان 40 ہجری کو اُس ہستی کی شہادت سےاُس اقدار پسند کی تعذیب، اُس پر الزامات کی بارش ختم نہیں ہوئی-

Advertisements
julia rana solicitors

خود کو عقلیت پسندی کے اونچے درجے پر فائز کرنے والوں کو اقدار پسند ہستی کے دفاع سے کہیں زیادہ فکر جن پر الزام لگا ہو اُن کے الزام سے انھیں بَری کرنے پہ لگی رہتی ہے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply