• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کامیاب سفارتی حکمت عملی/ڈاکٹر ندیم عباس

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کامیاب سفارتی حکمت عملی/ڈاکٹر ندیم عباس

ایران کے انتخابات میں آقای ابراہیم رئیسی صدر بنے تو بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ اب معاملات بڑی سرعت سے آگے بڑھیں گے۔ سب کی نظریں مغرب اور ایران کی نیوکلیئر ڈیل کی بحالی کی طرف تھیں۔ سب سوچ رہے تھے کہ کچھ کمپرومائز کرنے کے بعد ایران اور مغرب کی ڈیل ہو جائے گی۔ امریکہ اور یورپ کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہر ملک کو قذافی کا لیبیا سمجھتے ہیں، جو اپنے سارے ایٹمی اثاثے امریکہ کے حوالے کر دے۔ ایران اعلیٰ تہذیب کا حامل ایک خود دار ملک ہے، جس کی ہزاروں سالوں کی تاریخ ہے۔ ایران نے مغرب کے قومی غیرت کے منافی مطالبات کو نہ ماننے کا اعلان کر دیا، یوں یہ تو سرد خانے میں چلا گیا۔ اس کے جواب میں مظاہروں کو ہوا دے کر اور دیگر دباو بڑھا کر ان ممالک نے ایران پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔

رئیسی صاحب نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ہی پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کی بات کرکے اپنی خارجہ پالیسی کی وضاحت کر دی تھی۔ خطے کے ممالک پر امریکی اثرات ہی اس قدر زیادہ تھے کہ وہ کسی معاہدے یا اعلانیہ مذاکرات کی طرف نہیں آتے تھے۔ افغانستان سے امریکی انخلاء اور سعودی عرب کی ارامکو آئل فیلڈ پر حملوں کو نہ روک پانے پر سعودی عرب کی قیادت نے بھی یہ محسوس کر لیا کہ امریکہ انہیں استعمال کر رہا ہے۔ اب ان کے پاس جنگ اور خطے میں طاقت کے ذریعے مفادات کے حصول کا راستہ تقریباً بند ہوچکا تھا۔ یمن، شام اور عراق میں یہ حکمت عملی ناکام ہوچکی تھی۔

ان حالات میں چینی صدر سعودی عرب کا دورہ کرتے ہیں، جس میں بظاہر ایران کے کچھ جزائر پر عرب امارات اور بحرین کے موقف کو سپورٹ کرنے والے بیانات سامنے آتے ہیں۔ اسلامی جمہوری ایران چائنا سے باقاعدہ احتجاج کرتا ہے۔ اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ ون وے پر چائینہ سے تعلقات کا یہ نتیجہ نکلا کہ اب چائینہ کے صدر ہمارے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ اس وقت اسلام ٹائمز کے ایک ویڈیو پروگرام میں اس پر تفصیل سے بات کی تھی کہ آپ اسے ایران کی سفارتی ناکامی کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ یوں دیکھیں کہ امریکی کیمپ کے اہم ممالک چین کے ساتھ مل رہے ہیں، اس طرح وہ امریکہ سے دور ہوں گے۔

چین کے صدر نے انہیں خوش کرنے کے لیے وقتی بیان دیا ہے، جو ان ممالک کی عوام میں انہیں خوش کرنے اور ظاہری جیت کا تاثر دینے کے لیے ہے۔ اس سے چین سعودی عرب کو امریکہ سے الگ کرنا چاہتا ہے اور جب سعودی عرب چین کے قریب ہوگا تو اس وقت ایران اور چین کا بات چیت کرنا اور آگے بڑھنا آسان ہے۔ آقای ابراہیم رئیسی کے دورہ چین اور صدر سے ملاقات نے بہترین سفارتی کامیابیاں سمیٹیں اور سعودی عرب ایران تعلقات بحال ہونے کا اعلان ہوگیا۔ اب خطے کو مزید ایسی خبریں سننے کو ملیں گی، جنہیں سننے کے لیے کروڑں مسلمان منتظر ہیں اور ان کے اعلان ہونے لگے ہیں۔

سعودی عرب نے یمن کے رہنماوں کی صدارتی کونسل کو یہ بتا دیا ہے کہ اب یمن میں جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر دفاع سلمان بن خالد نے کونسل کے ممبران کو تفصیلی بریفنگ دی ہے، اس میٹنگ میں اس جنگ سے نکلنے پر بات کی گئی ہے۔ میادین کے مطابق یمن کے لیے سعودی عرب کے سفیر نے صنعا کی یمنی حکومت کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس میں جنگ بندی کی توسیع، ملازمین کی تنخواہوں کے معاملات، بارڈر کا کھلنا اور حدیدہ کی بندرگاہ کو تجارت کے لیے کھولنا جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی یمنی یمنی بات چیت کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا، جسے سعودی عرب سپانسر کر رہا ہے۔

اس کے مطابق پہلے دو سال کے لیے ایک ابتدائی سیٹ اپ بنایا جائے گا اور پھر ایک مستقل حکومت کی طرف بڑھا جائے گا۔ یمن کا مستقبل کا نطام اور ریاستی ساخت سے متعلق صنعا کی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان معاملات کافی حد تک حل ہوچکے ہیں۔ صنعا سے انصار اللہ کی پولیٹکل کونسل کے ممبر نے یہ بیان دیا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے کے یمن پر مثبت اثرات پڑیں گے۔پچھلے ہفتے روئٹر نے خبر دی تھی کہ اومانی اور سعودی سفیر آنے والے ہفتے میں صنعا کا دورہ کر رہے ہیں، یہ بڑی پیش رفت ہے۔

فرانس کی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا نے بیجنگ میں ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے۔ امریکی اور یورپی میڈیا اس ملاقات کو فرنچ شہریوں کی رہائی، انسانی حقوق اور دیگر کچھ معاملات سے جوڑ رہا ہے۔ بات اتنی سادہ نہیں ہوسکتی۔ ایران کا وزیر خارجہ چائنہ کی سرزمین پر ایسے معاملات پر بات کے لیے فرنچ وزیر خارجہ سے ملاقات کرے گا؟ یقیناً ایسا نہیں ہوسکتا، اصل معاملہ وہی ہے کہ چائنہ بڑی تیزی سے یورپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ طاقت کا مرکز اور دنیا کی واحد سپر پاور کا تصور اب ختم ہو رہا ہے۔ جس طرح مشرق وسطی میں حیران کن تبدیلیاں آرہی ہیں، بالکل اسی طرح یورپ بھی اپنے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کرے اور اپنے مفادات کو دوسرے کے مفادات پر قربان نہ کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان ملاقاتوں کا ایک اثر یورپ لینڈ کرتے ہی میکرون کے اس بیان کی صورت میں سامنے آگیا، جس میں وہ کہتا ہے کہ یورپ کو ریاستہائے متحدہ امریکہ پر اپنا انحصار کم کرنا ہوگا۔ آج کل سوشل میڈیا پر یہ بات بڑی وائرل ہے کہ چین عراق میں آٹھ ہزار سکول بنا رہا ہے، امریکہ نے اس عرصے میں تیس سکول بھی نہیں بنائے، مگر امریکہ نے عراق پر انتیس ہزار بم ضرور گرائے، چائینہ تعمیر کرتا ہے اور امریکہ بمباری کرتا ہے۔ امریکہ کو اب دنیا میں تباہی پھیلانے والی جنگوں کا سلسلہ ہر قیمت پر روکنا ہوگا اور تعمیر کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply