اشبھ دنوں کی شبھ کامنا۔۔ربیعہ سلیم مرزا

یہاں تو چالیس سال بھی بہت ہیں ۔جینا ایسے لگنے لگا  ہے  جیسے طویل سفر  ہے  جو ختم ہی نہیں ہوتا ۔۔۔
اور گزشتہ پانچ سال تو ایسے گزرے کہ جی ہر دن سوچتا ہے “جنی ہوئی بتھیری نئیں “؟
ہم سے پہلے والے یا تو بہت ڈھیٹ ہیں یا بہت مضبوط ۔۔اب بھی مسکرا کر جیے جارہے ہیں ۔
سدا سکھی تو شاید ہی کوئی رہا ہو ۔؟
اب ستیہ پال آنند جی کی مثال لے لیں ۔
نوّے برس کی عمر میں بھی چہرے پہ اک معصوم سی مسکراہٹ سجائے جتا رہے ہیں کہ زندگی بہت حسین  ہے۔۔چلیں مان لیتے ہیں۔
کیونکہ جب وہ لکھتے ہیں اندھیرے اجالے دونوں کی تفہیم کردیتے ہیں ۔
اب یہ بھی نہ کہہ سکوں کہ تحریروں کی بات اور  ہے  , سارے ذائقوں کا رچاؤ نہ ہو تو مصنف کے سبھاؤ پہ انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں ۔
چترکار کے چلتر میں رنگ نہ ہوں توکاغذ پہ قوس وقزح نہیں اترتی  ۔
سو سارے بل چھل تحریروں میں اتار کر ستیہ اپنے نام کی طرح ست  ہے۔
گزشتہ روز ان کا جنم دن تھا ۔میں مصروف تھی ۔پتہ نہیں مسائل کو مصروفیت کہنا کہاں تک روا ہے ؟
بس فیس بک سے دور تھی ۔۔۔
شبھ کامنائیں ارپن کرتی پر پتہ ہی دیر سے چلا۔اور جنم دن بیت گیا ۔۔۔
کہاناں۔۔۔۔۔ یہ پانچ، سال اتنے کٹھور اور بانجھ ہیں کہ آنگن میں تلسی کا پودا سوکھتا ہی جارہا ہے ۔
سو اب بھی اسی کی آبیاری درپیش تھی ۔چوک  ہو گئی  ۔
ستیہ پال آنند کو ہمیشہ گرو سمجھا اور ان کی تحریروں سے سیکھا ۔اب کتنا سیکھ پائی یہ تو نہ جان سکی، اتنا جان لیا کہ کچھ نہیں جان سکی ۔
پھر بھی گروجی کو جنم دن کی ڈھیر ساری تاخیری مبارکباد ۔
دعا ہے اسی طرح کی میسنی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے گرو سینچری ماریں ۔
ڈبل سنچری کریں ۔تاکہ آنے والی نسلیں کہیں کہ یہ  ہے  ستیہ پال آنند جن سے ہماری پردادی نے لکھنا سیکھا تھا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply