غزنوی اور سومنات، کچھ حقیقت کچھ فسانہ۔۔۔ محمد عبدہ

 سلطان محمود غزنوی کا اصل نام ابوالقاسم محمود اور خطاب یمین الدولہ تھا۔ اس کی پیدائش 2 اکتوبر 971 اور بعض تاریخی حوالوں میں نومبر 971 میں ہوئی۔ ابتدائی عمر میں ہی قرآن حفظ کرنے کے علاوہ اسلامی فقہ اور علم و حدیث میں بھی مہارت حاصل کرلی۔ سلطان محمود غزنوی کا باپ سبکتگین ایک ترک غلام تھا جو کہ بلاشبہ افغانستان کا پہلا خودمختار بادشاہ بھی کہلاتا ہے۔ سکتگین کی حکومت خراسان‘ ہرات‘ بخارا’ مکران‘ خضدار‘ جلال آباد‘ پشاور‘ اٹک اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ جب سکتگین کی وفات اگست 997 میں ہوئی تو اس وقت سلطان محمود اپنے باپ کی طرح سے نیشاپور کا حاکم مقرر تھا اور سلطان کا بھائی اسماعیل جو باپ کی وفات کے موقع پر غزنی میں موجود تھا‘ نے اپنی  تاج پوشی کا اعلان کردیا۔سلطان محمود نے پہلے خطوط و کتابت کے ذریعے بھائی اسماعیل سے بات کرنے کی کوشش کی جب کوئی حل نہ نکلا تو 998 میں غزنی پر حملہ کردیا۔ اسماعیل کی حکومت ختم کرکے خود غزنی کی سلطنت سنبھال لی۔
سلطان محمود جن کو اسلامی تاریخ کے چند عظیم جرنیلوں میں شامل کیا جاتا ہے‘ کی فوج کم و بیش ایک لاکھ تھی اور فوج میں عرب‘ غوری‘ سلجوق‘ افغان‘ مغل کے علاوہ دس سے پندرہ ہزار ہندو سپاہی بھی شامل تھے۔ ہندستان سے جتنے بھی فوجی بھرتی کیے  جاتے تھے۔ وہ بیشتر ہندو ہوتے تھے۔ ان کا کمانڈر بھی ہندستانی ہوتا تھا جس کو سپہ سالار ہندوان کہا جاتا تھا ۔ہندو فوجی افسروں میں چند ایک قابل   ذکر نام بیرپال‘ چک ناتھ‘ زناش‘ بجے راﺅ اور سوہنی راؤ  شامل تھے۔
عباسی خلیفہ نے 999 میں سلطان محمود کو یمین الدولہ کا خطاب عطا کیا جس کی مناسبت سے سلطان محمود کے خاندان کی حکومت کو یمینی سلطنت بھی کہا جاتا ہے۔ محمود غزنوی نے ہرات کے قریب صحرا کنارے ایک خاص شہر ’’ ہاتھی نگر‘‘ تعمیر کیا کہ ان خطوں کی گرم آب و ہوا ہندوستان کے موسموں سے مطابقت رکھتی تھی۔ پھر اس نے ہندستان سے لائے ہوئے سینکڑوں ہاتھیوں کی پرورش اس شہر میں کی۔ ہاتھیوں کے ساتھ انہیں سدھارنے والے بھی ہندستان سے منگو  لائے گئے اور یوں ہاتھی اس شہر میں خوش وخرم ہوگئے۔محمود ہربرس ان ہاتھیوں کی مدد سے ہندستان پر حملہ آور ہوتا اور واپسی پر انہیں غزنی کی بجائے ہرات کے قریب اس ہاتھی نگرمیں واپس بھیج دیتا تھا۔
سلطان محمود غزنوی جس کی سب سے بڑی وجہ شہرت ہندستان پر سترہ حملے ہیں‘ کی بنیادی وجہ جان لینا انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ پاکستان کے علاقے شہر لاہور سے پشاور تک کا علاقہ ایک ہندو راجہ جے پال کے زیر سلطنت تھا۔ جے پال اور سلطان محمود کے باپ سبکتگین کی ایک جنگ پشاور اور جلال آباد کے علاقوں میں 986 میں ہوئی تھی‘ جس میں جے پال کو شکست ہوئی اور سبکتگین کی سلطنت دریائے سندھ کے ساتھ اٹک تک پھیل گئی تھی ۔سلطان محمود نے حکومت سنبھالتے ہی پشاور تک کے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی مہمات کرکے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا تو راجہ جے پال جو کہ پہلے ہی اپنی شکست کا بدلہ لینے کو بے تاب تھا‘ نے ایک بڑا لشکر تیار کیا اور غزنی پر حملے کے لئے نکل پڑا۔ 1001 میں پشاور کے قریب راجہ جے پال اور سلطان محمود کی فوجوں کا ٹکراؤ  ہوا۔ راجہ جے پال کو شکست ہوئی اور پورے خاندان سمیت گرفتار ہوگیا۔ مذاکرات اور ایک بھاری تاوان کے عوض رہائی کے بعد جے پال واپس لاہور آیا‘ چونکہ لڑائی سے پہلے جے پال اپنے اردگرد کے راجاؤں  سے مدد لیکر گیا تھا اس لئے شکست کے بعد نہایت شرمندگی کی حالت میں اپنی حکومت بیٹے انندپال کے حوالے کرکے خود لاہور کے ایک دروازے کے پرانے برگد کے درخت کے پاس ایک بہت بڑی چتا جلائی اور جل مرا۔
سلطان محمود غزنوی نے دوسرا حملہ جو کہ 1004 کو ہوا۔ بھنڈا یا بھیرہ جو کہ دریائے ستلج کے قریبی علاقوں پر مشتمل ریاست پر کیا جس کا راجہ بجی راؤ تھا۔ تیسرا حملہ ملتان کے حاکم ابوالفتح کے خلاف 1006 میں کیا لیکن راستے میں ہی دریائے سندھ کے کنارے جے پال کے بیٹے انند پال کے ساتھ مڈبھیڑ ہوگئی ۔سخت جنگ کے بعد انند پال کو شکست ہوئی اور بعض روایات کے مطابق وہ کشمیر پناہ لینے کے لئے بھاگ گیا۔ انند پال کو شکست دینے کے بعد سلطان محمود نے ملتان کا رخ کیا اور ملتان کو فتح کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ملتان کا حاکم جے پال کے پوتے سکھ پال کو مقرر کیا جو اسلام قبول کرچکا تھا۔ جلد ہی سلطان محمود کو پھر ملتان جانا پڑا جہاں پر سکھ پال نے بغاوت کردی تھی۔ 1008 میں سلطان نے سکھ پال کو شکست دے کر معزول کردیا۔ اسی دوران انند پال جو کہ شکست کھا کر کشمیر بھاگ گیا تھا نے واپس آکرایک بار پھر سلطان کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ اس کے ساتھ ہی انند پال نے اردگرد کے راجاؤں  سے مدد لیکر ایک بہت بڑا لشکر اکٹھا کردیا۔
1008 کے آخری دنوں میں ایک بار پھر دریائے سندھ کے قریب اٹک کے علاقے میں جنگ کا آغاز ہوا۔ خونریز جنگ کے بعد انند پال کو ایک بار پھر شکست ہوئی۔ 1009 کے آخری مہینوں میں ایک بار پھر سلطان محمود نے ہندستان پر حملہ کرکے پہلے نرائن پور کی ریاست کو فتح کیا اور پھر 1010 میں ملتان کے گردونواح کے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کرلئے۔ 1014 میں سلطان نے انند پال کے بیٹے لوجن پال کو موجودہ کوہستان کے علاقے میں شکست دی اور مزید لوجن پال کی مدد کے لئے کشمیر سے آئے ہوئے ایک بڑے لشکر کو بھی شکست فاش سے دوچار کیا۔ 1015 میں سلطان محمود نے کشمیر پر حملہ کیا   لیکن برف باری کے باعث راستے بند ہونے پر بغیر جنگ کے ہی واپس آنا پڑا۔ 1018 میں سلطان محمود نے پہلی بار پنجاب کے پار دریائے جمنا کے علاقے میں اپنی فوج کو اُتارا اور ہندوؤں  کے مذہبی مقام متھرا کو فتح کرنے کے بعد ایک مشہور ریاست قنوج کا محاصرہ کرلیا۔ قنوج کے راجے نے سلطان سے صلح کا پیغام بھیجا اور سلطان کا باجگزار بننا قبول کرلیا۔ 1019 میں قنوج کی ملحقہ ریاست کالنجر کے راجہ گنڈا نے قنوج پر حملہ کرکے راجہ کو قتل کردیا اس کی خبر جب سلطان محمود تک پہنچی تو وہ اپنے مطیع راجے کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے نکلا اور کالنجر پر حملہ کرکے اسے شکست فاش سے دوچار کیا۔ راجہ لوجن پال اور راجہ گنڈا جو کہ سلطان محمود سے شکست خوردہ تھے۔ دونوں نے مشترکہ طورپر ایک بڑے حملے کی تیاری کی اور ایک بار پھر 1019 میں ہی سلطان کو دوبارہ ان دونوں کی سرکوبی کے لئے ہندستان کا سفر کرنا پڑا۔ نتیجتاً دونوں راجاؤں  کو شکست ہوئی اور ہندستان سے ہندو شاہی راج  کا خاتمہ ہوگیا۔
سلطان محمود غزنوی 1020ء سے 1025ء کے درمیانی عرصے میں سلطنت کے شمالی مغربی حصے اور دریائے فرات کی وادیوں میں فتوحات میں مشغول رہا۔ اسی عرصہ میں سلطان محمود کو اپنے مخبروں سے یہ اطلاعات متواتر مل رہی تھیں کہ شمالی اور وسطی ہندستان کی تمام ریاستیں سلطان سے شکست کھانے کے بعد بدلہ لینے کے لئے ہاتھ پیر مار رہی ہیں اور اب کی بار ایک مشترکہ حملے  کی تیاری ہے، اس کے لئے گجرات کے علاقے کاٹھیاوار میں ایک بہت ہی مشہور مندر سومنات کو مرکز بنایا گیا ہے۔ سومنات سمندر کے کنارے ایک عظیم الشان مندر تھا‘ جسے پورے ہندستان میں ہندوؤں  کے درمیان ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ مندر میں موجود شیوا کے بت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شیوا بت کو غسل دینے کے لئے تازہ پانی روزانہ کی بنیاد پر دریائے گنگا سے لایا جاتا تھا۔ جنگ کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں کہ سلطان نے پیشگی حملے کی تیاری شروع  کردی۔ غزنی سے سومنات تک فاصلہ تقریباً 2600 کلومیٹر بنتا ہے جس میں سے 500 کلومیٹر طویل مشکل ترین صحرائے چولستان اور راجستھان بھی پڑتا تھا۔
اکتوبر 1025 میں سلطان کی فوج تیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ غزنی سے روانہ ہوئی۔ تین مہینوں کی مسافت کے بعد جنوری 1026 میں سومنات مندر کے قریب پڑاؤ  ڈالا۔ ہندستان کے طول و عرض سے مہاراجے اور راجواڑے اپنی اپنی فوج کے ساتھ مندر کی حفاظت کے لئے موجود تھے۔ جنگ کا آغاز ہوا اور ایک سخت مقابلے کے بعد سلطان محمود فتح یاب ہوا۔ مندر کو توڑ ڈالا گیا۔ یہی وہ مشہور جنگ ہے جس کی بنا پر بعض مورخین نے سلطان محمود کی ذات کو ایک لٹیرا مشہور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سومنات کے بعد سلطان محمود کی ہندستان پر آخری لڑائی 1027 میں ہوئی جو کہ دریائے سندھ سے دریائے بیاس کے درمیانی علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ آخری دو تین سال سلطان محمود غزنوی بیمار بھی رہا اپنی آخری جنگی مہم 1029 میں ایرانی علاقے رے میں انجام دی اور رے کے حاکم آل بویہ کو شکست دی اور کہا جاتا ہے کہ دق اور سل کے مرض میں مبتلا ہوکر اپریل 1030 میں 59 سال کی عمر میں غزنی میں وفات پائی۔
دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر رومیلا تھاپر نے اپنی کتاب “سومناتھ: تاریخ کی بہت سی آوازیں (Somantha: the many voices of history)” میں محمود غزنوی کے مشہور سومنات حملے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس نے سومناتھ مندر پر نویں صدی سے اٹھارویں صدی تک سنسکرت گجراتی ہندی فارسی تمام زبانوں کے پرانے مخطوطے اور 1951 میں سومناتھ کی تیسری کھدائی سے ملنے والے نوادرات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ خاص کر گیارہویں اور بارہویں صدی کے ہندو شاعروں کی شاعری اور کچھ سفرناموں کا خاص  ذکر کیا ہے۔ ان کتبات میں   سے کچھ تو محمود غزنوی کے حملے سے بھی پہلے کے ہیں۔ رومیلا تھاپر نے سینکڑوں کتابوں‘ مقالوں اور قدیم سنگی کتبوں کے حوالے سے یہ حقیقت دریافت کی ہے کہ سومناتھ جو سومناتھ پٹن ، سوم شاور پٹن اور دیو پٹن کے نام سے بھی مشہور تھا۔ کبھی بھی محمود نے برباد نہ کیا۔ تھاپر کا کہنا ہے کہ ان زمانوں میں بڑے اور اہم مندروں کی جاگیریں ہوتی تھیں اور ان کے اندر نذرانوں کی صورت میں جمع شدہ بے پناہ دولت ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ جب کوئی ہندو راجہ بھی ان خطوں میں یلغار کرتا تو وہ بھی ان مندروں کو لوٹتا تھا اور اکثر اپنی فتح کی نشانی کے طورپر وہاں ایستادہ بت اپنے ساتھ لے جاتا تھا تو محمود نے بھی وہی کچھ کیا جو اس سے پیشتر ہندو راجے کرتے آئے تھے۔ لیکن سب کچھ ویسا نہیں ہوا جیسا آج بیان کیا جارہا ہے۔ اس عہد کے کسی مخطوطے یا دریافت ہونے والے پتھر پر یہ نقش نہیں ہے کہ محمود کے حملے کے بعد سومنات اجڑ گیا بلکہ یہ درج ہے کہ اس کی یلغار کے بعد سومنات بدستور آباد رہا اور وہاں پرستش ہوتی رہی۔
رومیلا تھاپر کی تحقیق کے مطابق یہ انگریز حکمران تھے جنہوں نے ’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی حکمت عملی کے تحت اس نظریے  کو فروغ دیا۔ خاص طور پر1857 کی جنگ آزادی کے بعد جس میں مسلمان اور ہندو یکساں طورپر شامل تھے اور یہ ہندوؤں کے لئے  خاص تھا کہ دیکھو مسلمان تم پر کیسے کیسے ظلم ڈھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے سومنات کو برباد کر دیا جب کہ ہم تمہاری عبادت گاہوں کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس مہم کا آغاز گورنر جنرل لارڈ ایلن برو(Ellen brough) کی برطانوی پارلیمنٹ کی 1843 کی اس بحث سے ہوتا ہے جسے(The proclamation of gates) یعنی دروازوں کی برآمدگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی کتاب اور زبان میں 1857 سے پہلے محمود غزنوی بطور لٹیرا کا  ذکر نہیں ملتا۔
وائسرائے ہند The Viscount Earl canning 1858-1862 Charles John نے جنگ آزادی کے بعد محمود بطور لٹیرا کا بھرپور پرچار کیا۔ اس نے برطانوی پارلیمنٹ میں ایک تقریر میں اس بات کا  ذکر کیا جسے پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے منظور کرکے پورے ہندستان میں پھیلایا۔ اور برطانوی و ہندستان کے انگریزی اخبارات نے اس پر مسلسل لکھنا شروع کیا۔
تھاپر کا کہنا ہے کہ اب بھی لوک گیتوں میں محمود غزنوی کے گن گائے جاتے ہیں۔ سومنات کے فقیر اور سادھو محمود غزنوی کو ایک داستانوی ہیرو گردانتے ہیں۔ اگر وہ محض ایک لٹیرا ہوتا‘ مندروں کا دشمن ہوتا تو ہندو لوک گیتوں میں اس کی توصیف کیوں کی جاتی۔ بعدازاں ہم نے بھی انگریزوں کے تخلیق کردہ اس نظریے  کو آنکھیں بند کر کے قبول کرلیا۔
تھاپر نے یہ بھی لکھا ہے کہ سومنات کے علاقے میں بے شمار مسلمان تاجرآباد تھے جو گھوڑوں کا بیوپار کرتے تھے۔ ان میں عرب بھی شامل تھے جنہوں نے مقامی عورتوں سے شادی کرکے ہندوستانی تہدیب کو اپنا لیا تھا۔ مارکوپولو نے بھی اپنے سفر نامے میں سومنات اور گجرات کے علاقے کے بیوپاریوں کا ذکر کیا ہے‘ جو ایران سے گھوڑے لاکر ہندوستان میں فروخت کرتے تھے۔ یہ بیوپاری باہر سے گھوڑے‘ شراب اور دھاتیں درآمد کرتے تھے اور ہندوستان کے کپڑے‘ مصالحے‘ جواہرات‘ لکڑی اور تلواریں برآمد کرتے تھے۔ سومنات کا علاقہ تجارت کا ایک اہم مرکز تھا۔
تھاپر کی تحقیق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کوہستان نمک میں جو مندر تھے وہ بہت غریب تھے‘ دولت صرف تھانیسر‘ ملتان اور سومنات کے مندروں میں تھی‘ ان مندروں سے حاصل ہونے والی دولت سے محمود کی فوج کی تنخواہیں دی جاتی تھیں اور ان میں سے بیشتر ہندو ہوتے تھے اور ان مندروں پر حملہ کرنے والوں میں شامل ہوتے تھے‘ ہندوستان میں جتنے بھی فوجی بھرتی کیے  جاتے تھے ان کا کمانڈر بھی ہندوستانی ہوتا تھا جس کو سپہ سالار ہندوان کہا جاتا تھا اور وہ محمود کا وفادار ہوتا تھا۔ محمود غزنوی کے دور کے دریافت شدہ کتبات جو جنرل آف ایشیاٹک سوسائٹی بنگال ، ایپی گرافیا انڈیکا اور انڈین اینٹی کواری میں شائع ہوچکے ہیں۔
محمود غزنوی نے 1026 میں سومناتھ پر حملہ کیا تھا اس کے 12 سال بعد 1038 میں گوا کے مقامی راجہ کدمب نے سومناتھ کا شاہی سفر کیا جس پر ایک سفرنامہ بھی لکھا تھا۔ جو سنسکرت زبان میں چھپا ہے۔ اس کے مطابق مندر کو تباہ نہیں کیا گیا بلکہ محمود کی فوجوں نے اس کی بے حرمتی کی تھی۔ اور سومناتھ مندر کی خطے میں سیاسی بالادستی ختم کی تھی۔ اور حملے کے بعد اسے دوبارہ مرمت کرلیا گیا تھا۔ اور مندر کی رونق برقرار رہی۔ گوا سے سومناتھ تک کے سفر کا ایک احوال 1125 کی ایک تحریر میں بھی ملتا ہے۔ اس شاہی سفر میں بادشاہ کا جہاز سمندری طوفان میں تباہ ہوگیا تھا اور ایک عرب بیوپاری نے بادشاہ کی جان بچائی تھی۔ اس مدد کے عوض بادشاہ نے عرب بیوپاری کے پوتے کو ایک علاقہ کا منتظم بنایا اور اسے مسجد بنانے کی اجازت دی تھی۔
بارہویں صدی کے گجراتی چولوکیا خاندان کے راجہ کمارپال کے مطابق راجھستان کا مگران مندر شان و شوکت میں سومناتھ سے کم تر تھا۔ سومناتھ کے قریب منگرال سے ملنے والے بارہویں صدی کے ایک کتبے کے مطابق سومناتھ مندر میں دیوی دیوتاؤں پر چڑھاؤں کی صورت میں بہت مال آتا تھا۔ گیارہویں صدی کی ایک مہارانی نے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ سومناتھ مندر آنے والے یاتریوں کے سفر کو ٹیکس فری کیا جائے اور وہ راستے میں دریا پل یا کسی مقامی راجہ کے علاقے سے گزرنے پر کوئی ٹیکس ادا نا کریں۔ بارہویں صدی تک سومناتھ مندر اس قدر امیر ہوچکا تھا کہ سونے چاندی کے انبار لگ چکے تھے۔ چولوکیا بادشاہ کمارپال کے کتبے سے پتہ چلتا ہے اس نے سومناتھ کے تحفظ کے لئے  ایک گورنر مقرر کیا تھا جس کا کام مندر کی دولت کو مقامی ابہیرا راجاؤں کی ڈکیتی و لوٹ مار سے بچانا تھا۔ کمار پال نے بھاؤ براہسپتی کو 1169 میں سومناتھ کا گند یعنی راہب اعلی مقرر کیا تھا۔ اس راہب اعلی کی اہم  ذمہ داری مندر کو آباد رکھنا اور ویران ہونے سے بچانا تھا کیونکہ محمود غزنوی کے بعد مندر خستہ حال ہوچکا تھا جس کا تعلق حملے سے نہیں بلکہ خستہ حالی کی ایک وجہ کل یگ یعنی بیوپاریوں کی جانب سے مندر کی مالی سرپرستی چھوڑ دینا تھا۔
دوسرا مندر کی عمارت بہت زیادہ پرانے ڈھنگ کی تھی  جس  کا کوئی پرسان حال نہ  تھا۔
تیسری وجہ مندر سمندر کے بہت قریب ہونے کی بنا پر سمندری لہریں اور نمی عمارت کو نقصان پہنچاتی تھی۔ اس کے کچھ سال بعد 1216 میں اس وقت کا چولوکیا بادشاہ سومناتھ مندر کو مالوہ کے ہندو راجاؤں کی لوٹ مار سے بچاتا رہا تھا۔ بھدر کالی کے کتبے کے مطابق بھوبر ہسپتی کا دعوی ہے کہ وہ ہے جس نے کمارپال کو تیار کیا تھا کہ وہ مندر کو دوبارہ تعمیر کرے۔
اس کا کہنا ہے کہ اصل مندر سونے کا بنا ہوا تھا جس کو بعد میں سونا ہٹا کر چاندی کے مندر میں بدل دیا گیا اور آخر میں چاندی ہٹا کر پتھروں کا مندر بنادیا گیا۔ مندر کی آمدنی اور بارے راہبوں کے معاوضے بڑھانے کے لئے  برہمپوری گاؤں کے محصولات کا استعمال کیا گیا تھا۔ اتنے زیادہ تاریخی سنسکرت پراکرت اور جینی کتبات میں محمود غزنوی کے حملے کا  ذ کر نہ  ہونا حیران کن ہے۔ ان میں اگر کچھ لکھا گیا ہے تو اتنا کہ مندر خستہ ہوگئے ہیں ان کی تعمیر ضروری ہے اور مندر کے بتوں کے توڑنے کا جو  ذکر آیا ہے وہ سب مقامی ہندو راجاؤں کے بارے ہیں جو دولت لوٹنے کے لئے  سومناتھ مندر پر حملے کرتے تھے۔ محمود غزنوی کے حملے اگر اتنے ہی سنگین جذبات کو زخمی کردینے والے اور ناقابل برداشت ہوتے جیسے کہ اب دعوے کیے جاتے ہیں۔ تو حملوں کے دوسو برس بیت جانے کے بعد ان کو اس طرح نہ  بھلا دیا جاتا کہ کسی کتبے میں محمود غزنوی کی طرف سے مندر کی تباہی اور لوٹ مار کا  ذکر نہیں ملتا۔
اگر  ذکر ہے تو صرف اتنا کہ محمود واپس جاتے ہوئے سومناتھ پٹن میں ایک مختصر فوج چھوڑ کر دب شالم کو اپنا گورنر قائم کرگیا تھا۔ محمود غزنوی کے ایک معاصر شاعر دھن پال جو مالوہ کے بھوج دربار کا شاعر تھا نے اپنی شاعری نے محمود کی گجرات پر مہم کا  ذکر کیا ہے۔ محمود راجستھان کے ستیہ پور کے مقام پر جین مندر میں مہاویر مجسمے کو توڑنے میں ناکام رہا جبکہ سومناتھ کے بڑے بت کو توڑا ضرور مگر مندر کو تباہ اور مال کی لوٹ مار نہیں کی۔ اسی طرح پربھار سوری نے بھی لکھا ہے کہ محمود کے ہاتھی مہاویر مجسمے کو نہیں توڑ سکے تھے۔ حتی کہ کشمیر کا مشہور شاعر بلہانا جو محمود کے 50 سال بعد 1076 میں سومناتھ آیا۔ گجرات کے چولوکیا دربار میں رہا۔ ایک ناٹک کرن سندری بھی لکھا۔ گجرات کے لوگوں کے تفصیلی حالات لکھے اور محمود غزنوی کے ملتان میں اسماعیلی شیعوں پر حملہ کا تفصیلی  ذکر کیا ہے مگر محمود غزنوی کے سومناتھ حملے کا کوئی  ذکر نہیں کیا۔
یہ ایک بڑی حیران کن بات نظر آتی ہے۔ محمود غزنوی کے سومنات حملے بارے جو وجوہات منسوب کی جاتی ہیں۔ گجرات میں غزنوی کے ہم عصر اور دوسو سال بعد تک مصنفوں و شعراء نے سومناتھ کی محمود کے ہاتھوں تباہی اور دولت کی لوٹ مار کا ذکر تک نہیں کیا۔ آج جتنی شدت سے محمود غزنوی کو لٹیرا ثابت کیا جاتا ہے اگر یہ اتنا بڑا اور اہم واقعہ ہوتاتو اس دور میں کتابیں بھر دی جاتیں۔ 
تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ سومناتھ کا حملہ بھی باقی دوسرے حملوں جیسے جواز اور نتائج رکھتا تھا۔ اور صدیوں تک محمود کو لٹیرا کی بجائے اچھے الفاظ میں یاد رکھا گیا۔ حقیقتاً یہ انگریز ہی تھے جنہوں نے اس سازشی تھیوری کا آغاز کیا۔ اور ہندوؤں میں نفرت کے بیج بوئے۔ پھر کچھ اپنے بھی اس رو میں بہک گئے۔ ہم نے اپنے  نابینا پن  میں اس عظیم علم دوست فاتح محمود غزنوی کو صرف بت شکن اور لٹیرے کے درجے پر فائز کرکے اس کی قامت مختصر کردی ہے جو بقول ایڈورڈز گبنز مقدونیہ کے سکندراعظم سے بھی عظیم فاتح تھا۔
کتابیات۔ references سومناتھ۔ رومیلا تھاپر بھدر کالی کتبہ ص 193 کاٹھیا وار کا کتبہ۔ بی ڈی ایس کالکر دیو پتن پر شاستی۔ ایپی گرافیکا انڈیکا!

 

Facebook Comments

محمد عبدہ
مضمون نگار "محمد عبدہ" کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور حالیہ کوریا میں مقیم اور سیاحت کے شعبے سے تعلق ہے۔ پاکستان کے تاریخی و پہاڑی مقامات اور تاریخ پاکستان پر تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔ "سفرنامہ فلپائن" "کوریا کا کلچر و تاریخ" اور پاکستانی پہاڑوں کی تاریخ کوہ پیمائی" جیسے منفرد موضوعات پر تین کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”غزنوی اور سومنات، کچھ حقیقت کچھ فسانہ۔۔۔ محمد عبدہ

  1. کوئی آفتاب اقبال جو بھی ہندو خاتون ریسرچر کی تحریر پہنچا دے جو ہندو لٹیرے راجاؤں کی اولاد سے معلوم ہوتا ہے اور جس نے محمود غزنوی صاحب کو ڈاکو ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا

Leave a Reply