مالکان کی پسپائی ۔۔اظہر سید

تحریک عدم اعتماد کسی عمران خان نامی شخص کے خلاف نہیں بلکہ یہ مالکان کی اپنے خلاف چارج شیٹ ہے ۔ میاں نواز شریف کے متعلق عام طور پر کہا جاتا ہے جنرل جیلانی نے دریافت کیا اور جنرل حمید گل نے ایجنسیوں کا فخر بنا کر پیپلز پارٹی کے خلاف استمال کیا اور یہ تاریخی اعتبار سے اسوقت تک درست ہے جب تک میاں نواز شریف نے صدر غلام اسحاق کے خلاف “ڈکٹیشن نہیں لوں گا” ایسی تاریخی تقریر کر کے مالکان کی زنجیر توڑ نہیں دی ۔
عمران خان نامی تجربہ جنرل پاشا ،ظہیر السلام اور جنرل ۔۔۔۔ کا کارنامہ سمجھا جاتا ہے اور درست سمجھا جاتا ہے ۔یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوا ہے ۔ اس تجربہ کی ناکامی پر کسی ایک جنرل کو زمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے ۔ نام بھلے کوئی بھی ہو یہ جنرل جیلانی،حمید گل،پاشا اور ظہیر الاسلام کا تسلسل ہے ۔
جھوٹا اور غلیظ پراپیگنڈہ محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف بھی کیا گیا تھا اور انکی جعلی برہنہ تصاویر تک جلسوں میں پھینکی گئی تھیں۔
عدلیہ کو بطور ہتھیار پیپلز پارٹی کے خلاف بھی استمال کیا گیا تھا اور مذہب کو بھی ایک مہلک ہتھیار بنایا گیا تھا ۔
محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی بھارت کا یار اور امریکی سنڈی مشہور کر کے عوامی رائے بنائی گئی تھی اور میاں نواز شریف کو ایک” ہیرو” کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا ۔
میثاق جمہوریت کے بعد گملے میں جب عمران خان نامی پودا لگایا گیا تو حکمت عملی میں زرا بھی تبدیلی نہیں لائی گئی ۔جب میاں نواز شریف کو ہیرو بنایا گیا تو ہدف صرف پیپلز پارٹی تھی جب اس نوسر باز پر بازی لگائی گئی تو ہدف دونوں بڑی سیاسی جماعتیں تھیں ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اور چسکے کیلئے مولانا فضل الرحمٰن کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔
عمران خان کو صرف میڈیا،عدلیہ اور انتظامیہ کی بھرپور مدد فراہم نہیں کی گئی بلکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا مکو بھی ٹھپا گیا۔
مخالف سیاسی جماعتوں اور لیڈر شپ کو غدار ،کرپٹ،مذہب کا دشمن اور ملک دشمن اور غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ مشہور کیا گیا ۔
عمران خان نامی تجربہ اپنی طرز کا انوکھا واقعہ ہے ۔اس تجربہ نے ملک کو معاشی طور پر نادہندہ نہیں بنایا مالکان کے پلے بھی کچھ نہیں چھوڑا ۔
اس نوسر باز کی مدد کرتے کرتے ادارے کی ساکھ کس طرح مجروح ہوئی ۔عدلیہ کے متعلق عوامی رائے عامہ کیا کہنے لگی اور سب سے بڑی بات میڈیا کو کس طرح پالتو اینکرز ،یوٹیوبرز کے زریعے نقصان پہنچایا گیا کسی کو اسکی پروا نہیں ۔
عدلیہ ، میڈیا اور انتظامیہ کسی بھی ریاست کے اہم ستون ہوتے ہیں ۔عمران نامی ناکام تجربہ میں انتظامیہ “عسکری اسٹبلشمنٹ،میڈیا اور عدلیہ کا اعتبار اس طرح مجروح ہوا ریاست کی بنیادیں ہی ہل گئی ہیں۔
پارلیمنٹ کی بات ہم اس لئے نہیں کرتے کہ اسکی حیثیت اس ریاست میں کبھی ہو ہی نہیں سکتی جسکی نصف زندگی میں فوجی جنرل براہ راست قابض رہے ہوں ۔
اس وقت جو قصہ چل رہا ہے کبھی ختم نہ ہوتا اگر ملک نادہندہ نہ ہوتا ۔عمران خان کو جانا ہی ہے ۔عدلیہ میں جو کچھ چل رہا ہے اگر مینیج کیا گیا ہے پھر بھی تبدیلی کو جانا ہی ہے ، کہ آئندہ تین ماہ میں یعنی جون 2022 تک پاکستان کو 28 ارب ڈالر کی عالمی ادائیگیاں کرنا ہیں ۔عالمی مالیاتی ادارے اگر معیشت کی صحتیابی کا سرٹیفکیٹ دیں گے تو فوجی بجٹ میں کمی اور ایٹمی پروگرام کے حوالہ سے شرائط لگائیں گے ۔صرف چینی ہی بیل آؤٹ کر سکتے ہیں اور وہ میاں نواز شریف یا آصف علی زرداری سے کم ہر راضی نہیں ہونگے ۔
غلطی ساری اس مائنڈ سیٹ کی ہے جنکے پلان اے اور بی بڑے مشہور ہیں ۔عمران خان نامی بلنڈر کا تو پہلے ہی سال میں پتہ چل گیا تھا لیکن یہ مائنڈ سیٹ کسی اور ہی دنیا میں رہتا ہے اس لئے سب کچھ لٹا کر ہوش میں آیا ہے ۔
اب تاخیر ہو چکی ہے ۔چارج شیٹ عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ خود مائنڈ سیٹ کے خلاف ہے ۔ملکی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے ۔مائنڈ سیٹ کے پاس کوئی حلیف نہیں ۔عمرانی حکومت کی صورت میں جو ایک ریت کی دیوار سامنے تھی اسے بھی مجبوری کے عالم میں اٹھانا پڑ رہا ہے ۔
حکومت کے خاتمہ کے بعد سارا کھیل سیاستدانوں کے ہاتھ میں اجائے گا ۔مائنڈ سیٹ کے پاس صرف مارشل لا کی آپشن ہے ۔اب فیصلہ کر لیں نادہندگی کا الزام اپنے سر لینا ہے یا اپنا سر دے کر نادہندہ معیشت کا الزام سیاستدانوں کے زمہ لگانا ہے ؟ سیاستدان گن گن کر بدلے لیں گے ۔ آئینی ترامیم کریں گے ۔عفریت کے ناخن اور دانت نکالیں گے اور مالکان کو مجبوری کے عالم میں سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply