غلط فہمیاں (3)-مرزا مدثر نواز

انسانی بستیوں میں انسانوں کو انسانوں کے ساتھ رہتے ہوئے ایکدوسرے سے شکایات ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ۔ غلط فہمیوں کو ذہنوں میں گھسنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جانی چاہیے لیکن اگر کبھی ایسی صورتحال درپیش آ بھی جائے تو اسے اپنے اعصاب پر سوار نہیں کرنا چاہیے ۔ غلط فہمیوں کی بنیاد پر کسی کو ہمیشہ کے لیے خامیوں کا مجموعہ قرار دے دینا‘ دوسرے کی ہر بات کو شک کی نگاہ سے دیکھنا اور حقیقت واضح ہونے کے بعد دل کو مکمل طور پر شک و شبہات سے پاک نہ کرنا اور بغض رکھنا ایک اچھے انسان کو زیب نہیں دیتا ۔ من گھڑت و بے بنیاد و غیر حقیقی باتوں کو ذہن میں رکھ کر نفرتوں کو پروان چڑھاتے ‘ ہم لوگ قبر تک پہنچ جاتے ہیں لیکن کبھی بھی واقعہ کی حقیقت معلوم کرنے کی سعی نہیں کرتے اور اگر اصل واضح ہو بھی جائے تو پہلے والی پوزیشن پہ واپس نہیں آتے ۔ آدمی اگر غلط فہمی کی بنا پر کسی کے بارے میں ایک غیر واقعی رائے قائم کر لے تو اس پر لازم ہے کہ معاملہ کی وضاحت کے بعد وہ فوراََ اپنی غلطی کا اعتراف کر لے ۔ معاملہ کی وضاحت کے بعد اپنی سابقہ رائے پر قائم رہنا مومن کا طریقہ نہیں ۔ اسی کی مزید وضاحت کے لیے ایک واقعہ پر نگاہ ڈالتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

(۳) خلیفہ دوم کے زمانہ میں ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ مدینہ میں ابوموسیٰ اشعریؓ ایک بار عمر فاروق ؓسے ملنے کے لیے ان کے گھر آئے ۔ دروازہ پر کھڑے ہو کر انہوں نے کہا کہ آپ پر سلامتی ہو‘ یہ ابو موسیٰ اشعری ۔ اسی طرح انہوں نے تین بار کہا ۔ مگر انہیں اندر سے کوئی جواب نہیں ملا ۔ اس کے بعد وہ واپس چلے گئے ۔ حضرت عمر غالباََ کسی کام میں مشغول تھے ۔ فوری طور پر جواب نہ دے سکے ۔ بعد کو جب انہیں معلوم ہوا کہ ابو موسیٰ اشعری واپس چلے گئے تو اگلے دن حضرت عمر نے ان کو بلوایا اور پوچھا کہ تم واپس کیوں چلے گئے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جب کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے تین بار اجازت مانگے اور پھر بھی اس کو صاحب مکان کی طرف سے اجازت نہ ملے تو اس کے بعد وہ واپس چلا جائے ۔
حضرت عمر نے ابو موسیٰ الاشعری سے کہا کہ اس وقت رسول پر تم گواہ پیش کرو ورنہ میں تم کو سزا دوں گا ۔ راوی کہتے ہیں کہ میں انصار کی مجلسوں میں سے ایک مجلس میں تھا وہاں ابو موسیٰ الاشعری آئے ۔ وہ گھبرائے ہوئے معلوم ہوتے تھے ۔ انہوں نے کہا میں عمرکے یہاں گیا اور تین بار سلام کیا ۔ مگر اجازت نہ ملی‘ اس لیے واپس ہو گیا ۔ اس کے بعد عمرؓنے مجھ سے واپسی کا سبب پوچھا ۔ میں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم کسی کے یہاں ملنے کے لیے جاؤ تو تین مرتبہ سلام کرو‘ اگر تین بار کے بعد اجازت نہ ملے تو واپس چلے جاؤ ۔ عمرؓنے کہا ہے کہ تم اس حدیث رسول پر گواہ لے آؤ‘ ورنہ میں تم کو سزا دوں گا ۔ کیا تم میں سے کوئی ہے جس نے رسول اللہ کو ایسا کہتے ہوئے سنا ہے ۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ تو ایک معلوم بات ہے اور اس کو بہت سے لوگوں نے سنا ہے ۔ پھر ابو سعید الخدریؓ اٹھ کر ان کے ساتھ روانہ ہوئے اور حضرت عمر کے پاس پہنچ کر اس قول رسولﷺ کی تصدیق کی ۔ اس کے بعد حضرت عمر نے اپنا حکم واپس لے لیا اور کہا کہ بازار کی مشغولیت نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا ۔ حضرت ابی بن کعبؓ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ اے عمر تم رسول اللہ کے اصحاب پر عذاب نہ بنو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ سبحان اللہ‘ میں نے تو ایک بات سنی پھر میں نے چاہا کہ اس کی حقیقت معلوم کروں ۔
(۳) اسباقِ تاریخ از مولانا وحید الدین خاں

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply