شاعرانہ صناعی اور شعری صنعت/ناصر عباس نیّر

اسی مقام پر میر کی صناعی اور صنعت شعری پر چند باتیں عرض کرنی ضروری ہیں۔ تسلیم کرنا چاہیے کہ صنعتِ تضاد سے حسن پیدا کرنا عام سی بات ہے۔ میر نے بھی یہاں، یہی عام طریقہ برتا ہے۔

اکثر شعرا تضاد، تلمیح، مبالغہ، ترصیع، تجنیس، ایہام اور دوسری صنعتوں اور لفظی رعایتوں سے شعر میں حسن پیدا کیا کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان صنعتوں کا استعمال کبھی ہنر مندانہ ہوتا ہے، کبھی صرف چونکا دینے والا اور کبھی بے ساختہ اور اس قدر فطری کہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ صناعی ہے، تاہم صنعتوں کا استعمال ایک عام طریقہ، ہے۔

ہمارے بعض نقاد کلاسیکی شاعری کے مطالعے میں بس انھی صنعتوں کی نشان دہی تک محدود رہے ہیں۔ انھوں نے ظلم یہ کیا کہ ان صنعتوں کی کارفرمائی کونہ صرف مشرقی شعریات کا نام دے دیا، بلکہ ان ہی کی بنیاد پر شاعروں کے چھوٹے بڑے ہونے کا فیصلہ بھی کیا۔ انھوں نے شاعرانہ صناعی اور صنعت شعری میں امتیاز روا نہ رکھا۔

شعری صنعتیں، شاعرانہ صناعی کی اساس نہیں، ضمنی حاصلات ہیں۔ تمام شعری صنعتیں، اپنی اصل میں شاعری پر تنقیدی تدبر سے حاصل ہوئی ہیں۔ بجا کہ شاعری صناعی ہے، مگر اسے شے کی صناعی پر خیال نہیں کیا جانا چاہیے۔

آتش نے جب یہ کہا تھا کہ:

بندش الفاظ جڑنے میں نگوں سے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

تو انھوں نے شاعرانہ صناعی کو شے کی صناعی پر خیال کیا تھا۔ شے کی صناعی میں پہلوں کی صناعی کا علم اور اس کے ہنرمندانہ استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں تقلید و پابندی تو بیش از بیش ہے، ایجا د و اختراع وانحراف کا گزر نہیں۔ دوسرے درجے کے شعرا تقلید وپابندی پر قانع رہتے ہیں۔

شاعری، شے کی نہیں، انسان کی تخیلی دنیا کی صناعی ہے۔ تخیلی دنیا میں اشیا نہیں، ان کی تصویریں، تاثرات، سائے ہوتے ہیں اور وہ بھی ایک قسم کی بے قراری کی حالت میں۔ لہٰذا لفظ، شے یعنی نگ نہیں بن سکتا۔ شاعرانہ صناعی، ایجاد و اختراع و انحراف و تجربے کا مسلسل عمل ہے۔ چناں چہ یہ صناعی، صرف نئی صنعتوں ہی کی ایجاد میں نہیں، نئے خیالات، تصورات، تلازمات، احساسات اور تخیلات کی اختراع میں بھی دل چسپی رکھتی ہے۔

بڑا شاعر وہ نہیں جو زبان کو ایک اڑیل گھوڑا سمجھ کر اس پر کاٹھی ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ بڑا شاعر شہسوار نہیں، موجد ہوتا ہے۔ اسے طاقت وقدرت کے مظاہرے میں نہیں، اخترا ع وایجاد میں دل چسپی ہوتی ہے۔ اس کا مسئلہ قادر الکلام ہونا نہیں، ایک نئے کلام کا خالق ہونا ہوتا ہے۔

نیا کلام، نئی زبان ہی میں ظاہر ہوتا ہے، یا کم از کم زبان کے نئے پیرایوں میں۔ بڑا شاعر وہ ہے جوزبان کے سیال ہونے کی حقیقت کو شناخت کرتا ہے اور پھر اپنی صناعی سے کام لیتے ہوئے، نئی نئی صورتیں، تازہ بتازہ شعری پیکر ڈھالتا ہے۔ اس سے یہ فنی سچائی پنہاں نہیں ہوتی کہ کچھ یکسر نئے شعری پیکر اندر سے خالی ہوتے ہیں، وہ شاعر کی قدرتِ کلام کا چیختا اعلان تو ہوتے ہیں مگر شعریت ومعنویت سے تہی ہوتے ہیں۔ بڑے شاعر کے پیکرنئی بصیرتوں سے لبریز ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بڑ ا شاعر اس سے نہیں ڈرتا کہ اس کی بصیرتیں صدمہ انگیز ہوں۔ اس میں وہی معصومانہ حیرت، وہی سورمائی بے خوفی اور کسی حد تک وہی خندہ انگیزی ہوتی ہے جو کسی بھی موجد میں ہوتی ہے۔ میر کے یہاں ان میں سے بہت کچھ ہے۔ میر الفاظ کی رعایتوں، نسبتوں سے کام لیتے ہیں، اپنی پوری شاعری کی بنیاد ان پر نہیں رکھتے۔ انھیں میر کی صناعی کا صرف ایک رخ سمجھنا چاہیے، اساس نہیں۔نیا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply