ٹارگٹ، ٹارگٹ، ٹارگٹ /قسط4

پشتو میں شاپنگ۔
پشاور میں ہمارے قیام کا زمانہ 1995 سے لے کر 1998 تک رہا۔ اس دور میں پشاور ایک پرامن شہر ہوا کرتا تھا۔ مال روڈ کے بیچلر آفیسرز کوارٹرز ہمارا مسکن تھے اور ڈیو آرٹلری میس میں ہم کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ اپنا فارغ وقت بتایا کرتے۔ انگریزوں کے دور کی نشانی پشاور کا یہ ڈیو آرٹلری میس صدیوں کی تاریخ اپنے اندر سمیٹے نہایت شان سے مال روڈ پر ایستادہ تھا اور آج بھی ہے۔ اس میس کی خاص بات اس کی تعمیراتی خوبصورتی اور تزئین و آرائش تھی۔ وکٹورین سٹائل کی بلڈنگ، دیدہ زیب فرنیچر، ووڈ پینلنگ اور دلکش لانز کو دیکھ کر دل بے اختیار اسے تعمیرکرنے والوں کو داد دینے کو چاہتا۔ اپنی عسکری زندگی میں ہمیں درجنوں میس دیکھنے کا اتفاق ہوا، لیکن ڈیو آرٹلری میس جیسا بانکپن کسی اور میں ڈھونڈے سے بھی نظر نہ آیا۔ان دنوں میس لائف کے علاوہ یار لوگوں کا واحد شغل سستی شاپنگ کے لیے پشاور کے بازاروں کے چکر لگانا تھا۔ باڑے میں انواع واقسام کی دیسی بدیسی اشیا ارزاں نرخوں پر دستیاب تھیں۔ ہمیں خود تو شاپنگ کا کوئی خاص شوق نہیں تھا، البتہ گھر والے اکثر فرمائشیں نوٹ کرواتے رہتے تھے جنہیں پورا کرنے کے لئے ویک اینڈ پربازاروں کی خاک چھاننا ایک معمول کی بات تھی۔

پٹھان بھائیوں کے ساتھ مول تول کرنا بھی ایک آرٹ سے کم نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کے ہزار روپے مانگ کر سو روپے میں آپ کے حوالے کر دیں اور اگر اڑ جائیں تو شاید ایک روپیہ کم کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوں۔ سینئرز نے پشاور میں شاپنگ کے اصول کچھ اس طرح بیان کیےکہ ایک تو شاپنگ کرنے اکیلے نہ جایا جائے، دوسرے اپنا تعارف آرمی افسر کے طور پرنہ کروایا جائے اور تیسرے یہ کہ کسی پشتو بولنے والے افسر کو ضرور اپنے ہمراہ رکھا جائے۔ پہلے دو اصولوں پر عمل کرنا ہمارے لئے چنداں مشکل نہ تھا لیکن تیسرے اصول کے بارے میں ہم ہمیشہ مشکل کا شکار رہے کیونکہ ان دنوں ایم ایس برانچ کی مہربانی سے کوئی پشتو جاننے والا افسر ہماری یونٹ تو کیا پوری ڈیو آرٹلری میں موجود نہ تھا۔ لفٹین پارٹی کی اس مشترکہ مشکل کا حل نکانے کے لیے ہمارے ایک سینئر کو یہ بھاری پتھر چومنے کے لیے تیار کیا گیا۔ موصوف نے یونٹ کے کینٹین بوائے سے پشتو سیکھنے کی ابتدا کی جو کہ پشاور کے کسی نواحی علاقے کا رہنے والا تھا۔ پشتو سیکھنے کے لیے ایک ماہ کا ہدف مقرر کیا گیا۔ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد انہوں نے میس میں آ کر اعلان کیا کہ انہیں پشتو زبان میں مطلوبہ استعداد حاصل ہو چکی ہے۔ یہ بات سن کر ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔

ویک اینڈ پر موصوف کی منت سماجت کرکے اپنے ساتھ باڑہ بازار میں شاپنگ پر چلنے کے لیے رضامند کر لیا۔ ہمارا شاپنگ پر جانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ کچھ دن پہلے ہی گھر والوں کی جانب سے ایک عدد ٹی وی بھجوانے کی فرمائش موصول ہوئی تھی۔ بازار میں پہنچ کر ایک الیکٹرونکس کی دکان کے سامنے بریک لگائی۔ اس مرتبہ مول تول کے بارے میں ہم چنداں پریشان نہ تھے کیونکہ پشتو زبان کا ایک ماہر ہمارے ہمراہ تھا۔ دکاندار نے مختلف ماڈلز کے ٹی وی دکھانا شروع کیے۔ بھاؤ تاؤ کا مرحلہ آیا تو موصوف بولے ’’دا ٹی وی ہمیں پسند دے۔ دا کتنے کا دے۔ دا گارنٹی کتنے سال کا دے۔‘‘ ان کی اس حیرت انگیز پشتو پر ہم دکاندار کے سامنے تو خاموش رہے لیکن باہر نکل کر اتنا ہنسے کہ آنکھوں میں آنسو آگئے اور ہمیں دہرے ہو کر ایک ستون کا سہارا لینا پڑا۔ اس دن کے بعد سے ہمیں کسی کو اپنے ہمراہ شاپنگ پر لے جانے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ پشتو بولنے کا نادر نسخہ اب ہمارے اپنے ہاتھ لگ چکا تھا۔ اس نسخے کے مطابق اردو ہو یا انگریزی اسے پشتو میں ڈھالنے کے لئے ہم ہر فقرے کے شروع میں ’دا‘ اور آخر میں ’دے‘ لگا دیا کرتے تھے۔

شہنائی سے رائفل تک۔
ایک مرتبہ ہمیں فوج کی ایک مایہ ناز یونٹ کے ساتھ سیاچن میں عسکری خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا۔ جب مقررہ پوسٹ پر پہنچے تو پتہ چلا کہ اس پوسٹ پر موجود تمام افراد کا تعلق بینڈ پلاٹون سے تھا ۔ہمیں اس پوسٹ پر تین ماہ کا عرصہ گزارنا تھا۔بینڈ پلاٹون ہر انفنٹری بٹالین کا جزو ہوتی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس پلاٹون کا کام شعبہ موسیقی میں مہارت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ عموماً ان لوگوں کو کسی دوسری ڈیوٹی پر تعینات نہیں کیا جاتا۔ سیاچن آنے سے پہلے یہ سب لوگ ساز و آواز کی دنیا میں نہایت خیر و عافیت سے زندگی بسر کر رہے تھے مگر وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ سیاچن میں بینڈ پلاٹون کا کوئی کردار نہ دیکھتے ہوئے ارباب اختیار نے حکم صادر کیا کہ انہیں بھی دوسرے سپاہیوں کی طرح کسی پوسٹ پر بھجوایا جائے۔ چنانچہ اب یہ لوگ پوسٹ پر پہنچنے کے بعد راتوں کو ہاتھ میں رائفل پکڑ کر برف میں ڈیوٹی دیتے ہوئے اور اچھے دنوں کو یاد کرتے۔ پوسٹ حوالدار ہمیں ملتے ہی کہنے لگا ’’سر تمام زندگی شہنائی بجاتے ہوئے گزاری ہے اب رائفل چلانا پڑ گئی ہے۔ آپ ہی بتائیں یہ کہاں کا انصاف ہے۔‘‘ بینڈ پلاٹون کا دکھ بجا سہی لیکن بحیثیت پوسٹ کمانڈر ہماری سوچوں کا رُخ کسی اور جانب تھا۔

یہ سیاچن کی ایک اہم پوسٹ تھی جہاں پردشمن کے حملے کا خطرہ ہر لمحہ سر پر منڈلاتا رہتا تھا۔ ایسے میں دشمن کا مقابلہ فقط شہنائی بجا کر نہیں کیا جا سکتا تھا بلکہ اس کے لئے رائفل سے ٹھیک ٹھیک نشانہ لگانا بھی اشد ضروری تھا۔ہم نے سب کو اکٹھا کر کے ایک جذباتی تقریر کی اور وطن کی خاطر کٹ مرنے کا سبق دینے کے ساتھ ساتھ رائفل فائر کی پریکٹس بھی شروع کروادی۔ اب ہماری پوسٹ پر یہ معمول ہو گیا کہ دن میں سب لوگ باہر نکل کر فائرنگ کی مشق کرتے اور شام کے بعد تھکن اتارنے کے لئے محفل موسیقی کا اہتمام کیا جاتا۔ شروع کے دنوں میں فائر کی تکنیک سکھانے اور پوزیشن درست کرانے میں کافی وقت صرف ہوا، البتہ لگاتار محنت کے بعدبہتری آتی چلی گئی اور بینڈ پلاٹون کا فائر سیدھا ہونا شروع ہوگیا۔ ہم نے پریکٹس کا سلسلہ اسی زور و شور سے جاری رکھا اور آخر میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہر شخص سو میٹر کے فاصلے سے ٹین کے چھوٹے ڈبے کو بڑی آسانی کے ساتھ نشانہ بنا سکتا تھا۔ یوں ہماری بینڈ پلاٹون نے طاؤس و رباب کے ساتھ ساتھ شمشیر و سناں کے استعمال میں بھی یکساں مہارت حاصل کر لی۔ یہ ہماری عسکری زندگی کی وہ پر مسرت کامیابی ہے جس پر ہم آج بھی بے انتہا فخرمحسوس کرتے ہیں۔

تعارف۔
دو افسر کہیں ملتے ہیں تو تعارف کا سلسلہ نام ، رینک اوراپوائنٹمنٹ سے شروع ہو کر پی ایم اے لانگ کورس پر ختم ہوتا ہے۔ یوں سنیارٹی کاباقاعدہ تعین ہونے کے بعد معاملات آگے بڑھتے ہیں۔ سیاچن ایک ایسی جگہ ہے جہاں اجنبی افسروں سے ایک کثیر تعداد میں واسطہ پڑتا ہے۔ چونکہ وہاں وردی نہیں پہنی جاتی چنانچہ زبانی تعارف مزید ضروری ہو جاتا ہے۔ گوما سیاچن کا بیس کیمپ ہے۔ یہاں افسروں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اوپر جانے والے اور نیچے آنے والے، دونوں طرح کے افسر وں کو لازماً وہاں ٹھہرنا پڑتا ہے اور ان کا بیشتروقت میس میں ہی گزرتا ہے۔ سن 2001کا ذکر ہے ،ان دنوں ہم کیپٹن ہوا کرتے تھے ۔ ہم حال ہی میں بیس دن کی چھٹی گزار کر گوما پہنچے تھے اور کچھ دنوں کے لئے ہمیں وہیں قیام کرنا تھا۔ میس میں کئی نئے نئے چہرے نظر آ رہے تھے۔ تعارف کے باقاعدہ مراحل ابھی طے نہیں ہوئے تھے۔ ہم نے پچھلی کرسیوں پر بیٹھ کر چائے کا آرڈر دیا۔اتنی دیر میں لیفٹیننٹ انور تشریف لے آئے۔ لیفٹیننٹ انورپی ایم اے کے حساب سے ہم سے ایک سال سینئر تھے، جبکہ ایک دوسرے حساب سے ان کی سنیارٹی کوئی دس سال بنتی تھی کیونکہ وہ پی ایم میں ہی کوئی آٹھ نو سال لیٹ تشریف لائے تھے۔

ان سے بعد والے آٹھ کورسز کے افسر امتحان پاس کر کے کیپٹن بن چکے تھے لیکن سر جمیل ابھی تک اس خوشی سے کوسوں دور تھے کیونکہ ان کا لیفٹیننٹ ٹو کیپٹن پروموشن ایگزام ہی پاس نہیں تھا۔ موصوف بیسیوں مرتبہ یہ امتحان دے چکے تھے لیکن ہر بار ناکامی کا منہ دیکھ کر خوشی خوشی واپس آ جاتے تھے۔ اب تو یہ وقت آ گیا تھا کہ انہوں نے اسے ایک معمول سمجھ کر اس کی فکر کرنا ہی چھوڑ دی تھی۔ سر انور تھے تو لیفٹیننٹ لیکن چونکہ پی ایم اے سے ہمارے سینئر چلے آتے تھے‘ اس لئے ان کو حسب روایت سب کی جانب سے سینئر کا ہی پروٹوکول دیا جاتا تھا۔ موصوف آتے ہی سامنے والے صوفے پر براجمان ہوگئے اور میس ویٹر کوچائے لانے کا حکم صادر کیا۔ اسی اثنا میں دروازہ کھلا اور ایک اجنبی شخصیت نے میس میں قدم رنجہ فرمایا اور آکر صوفے پر لیفٹیننٹ انور کے ساتھ تشریف فرما ہوگئے۔ بے تکلفی کے اس مظاہرے پر سر انور کچھ دیر توبے چینی سے پہلو بدلتے رہے اور پھر نئے آنیوالے افسر سے یہ کہہ کر تعارف کا آغاز کیا “آئی ایم لیفٹیننٹ انور ۔دی سینئر موسٹ لیفٹیننٹ آف پاکستان آرمی”۔ دوسری طرف سے جواب ملا”آئی ایم کیپٹن سلیم۔ دی سینئر موسٹ کیپٹن آف پاکستان آرمی”۔بعد میں معلوم ہوا کہ کیپٹن سلیم کو بھی سر انور والا عارضہ لاحق تھا یعنی پچھلے کئی برسوں سے ان کا کیپٹن ٹو میجر پروموشن ایگزام پاس نہیں ہوتا تھا اوراسی انتظار میں وہ پاکستان آرمی کے سینئر موسٹ کیپٹن کے خود ساختہ عہدے پر فائز ہو چکے تھے۔

پوسٹ پر بجلی۔
سیاچن میں رہتے ہوئے انسان کے پاس سوچنے کا جتنا وقت ہوتا ہے اتنا شاید پوری زندگی میں دوبارہ نہیں مل پاتا۔ پوسٹ پر روشنی کے لئے پیٹرومیکس لیمپ استعمال کیا جاتا ہے۔ پیٹرومیکس کو چلانا اور اس کی دیکھ بھال ایک پوری سائنس کا درجہ رکھتی ہے۔ جس پوسٹ کا پیٹرومیکس خراب ہو جائے‘ زندگی اس کے باسیوں سے روٹھ جاتی ہے اور وہاں پر اندھیروں کا راج قائم ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب ہماری پوسٹ پر پیٹرومیکس خراب ہو گیا اور یہ صورتحال پورے دو ہفتے تک برداشت کرنا پڑی۔ اس دوران ہم نے سوچا کہ کوئی ایسا متبادل ذریعہ ہونا چاہئے جس کو استعمال کر کے بجلی بنائی جائے اور پوسٹ پر بلب روشن کیے جا سکیں ۔ ویسے تو پوسٹوں پر سولر پینل بھی فراہم کیے جاتے ہیں لیکن چونکہ سورج کم ہی چہرہ دکھاتا ہے اس لیے ان کی افادیت عملاً نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ کافی سوچ بچارکے بعدبھی کوئی طریقہ سمجھ میں نہ آیا۔ چھٹی پر گھر آئے تو اس بارے میں ایک کتاب خریدی جس میں بجلی بنانے کے مختلف طریقے درج تھے۔ ایک طریقے پر نگاہ ٹھہر گئی۔ اس کے مطابق اگر دو دھاتی پلیٹوں کو تھوڑے فاصلے پر رکھا جائے جن میں ایک کو ٹھنڈا اور دوسری کو گرم کیا جائے یہاں تک کہ ان میں درجہ حرارت کا فرق بہت زیادہ بڑھ جائے تو نتیجتاً بجلی بننا شروع ہو جائے گی۔ہماری دانست میں اس طریقے پر سیاچن میں عمل درآمدممکن تھا۔

اب کی بار ہم پوسٹ پر پہنچے تو ہم خود کو تھامس ایڈیسن کے برابر کی کوئی چیز سمجھ رہے تھے کیونکہ بجلی بنانے کا ایک تیربہدف نسخہ ہمارے ہاتھ لگ چکا تھا۔ہم نے پوسٹ پر پہنچتے ہی پوسٹ حوالدار کو بجلی کی پیداوار کے بارے میں وسیع و عریض سبز باغ دکھائے۔ ہمارے کہنے پر اس نے فوری طور پر دو عدد دھاتی پلیٹوں کا انتظام کیا۔ ایک پلیٹ کو برف میں دبایا گیا جبکہ دوسری کو چولہے پر رکھ دیا گیا۔ دونوں پلیٹوں سے ایک ایک تار باندھی گئی اور ان تاروں کو ایک بلب سے جوڑ دیا گیا۔اب چولہے کو جلا کر ہم اس انتظار میں بیٹھ گئے کہ بجلی اب آئی کہ آئی۔ کوئی دس منٹ گزرے ہوں گے کہ باہر سے سنتری اگلو کے اندر داخل ہوا۔تار اس کے پاؤں میں الجھی اور چولہے پر رکھی ہوئی پلیٹ جو کہ اب تک کافی گرم ہو چکی تھی اڑ کر قریب بیٹھے ہوئے سپاہی کے ماتھے پر جا لگی۔پوری پوسٹ پر ایک چیخ و پکار مچ گئی۔ فوراً چولہا بند کیا گیا اور متاثرہ سپاہی کی مرہم پٹی کی گئی۔اس تجربے کے بعد ہم نے دکھتے دل سے بجلی بنانے کے خیال کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا اور پوری طاقت سے پیٹرومیکس میں ہوا بھرنا شروع کر دی۔

ٹو آئی سی کی چارپائی۔
یونٹ نے جب بھی کینٹ سے باہر کسی طویل ایکسرسائز پر نکلنا ہوتو بہت پہلے سے بھرپور تیاریوں کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔تمام سازوسامان کی خوب دیکھ بھال کی جاتی ہے اور کمی بیشی پوری کر کے چیزوں کوقابل استعمال بنایا جاتا ہے۔سرکاری استعمال کی چیزوں کے ساتھ ساتھ ذاتی استعمال کی اشیا پر بھی بطور خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ فیلڈ میں پہنچ کر کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لوگوں کی تو خواہش ہوتی ہے کہ پورے کمرے کا سامان اٹھا کر ٹرک میں ڈال لیں لیکن جگہ کی کمی آڑے آتی ہے اور ہر کسی کو محدود سامان ساتھ لیجانے کی اجازت دی جاتی ہے۔یہ1997 کا ذکر ہے جب یونٹ کو اکتوبر کے مہینے میں ایک ایسی ہی طویل ایکسرسائز پر روانہ ہونا تھا۔ ایکسرسائز شروع ہونے میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا تھا اور تمام یونٹ زور و شور سے تیاریوں میں مشغول تھی۔انہی دنوں سی او نے یونٹ کا دربار منعقد کیا جس میں انہوں نے تمام یونٹ کے افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں ایکسرسائز کے بارے میں خصوصی ہدایات دیں۔ ان میں ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ تمام افسر اور جے سی او ز اپنے ذاتی سامان میں صرف اور صرف آرڈیننس پیٹرن کی فولڈنگ چارپائیاں لے کر جائیں گے اور لکڑی کی پرائیویٹ پیٹرن کی چارپائیاں ساتھ لے کر جانے کی ہرگز اجازت نہیں ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایکسر سائز سے ایک دن پہلے پورا سامان گاڑیوں میں لوڈ کر لیا گیا ۔ سی او نے انسپیکشن کی اور او کے کر دیا۔ اگلے دن علی الصبح پورے کانوائے نے ایکسرسائز کے لیے موو کرنا تھا۔پوری یونٹ تیار کھڑی تھی۔ روانگی سے پہلے سی او نے تمام گاڑیوں پر ایک حتمی نظر ڈالنا ضروری سمجھا۔ جیسے ہی پہلے ٹرک کے پاس پہنچے تو سب سے اوپر ایک نہائت خوشنما رنگین پایوں والی چارپائی بندھی ہوئی تھی اور خلق خدا کو دعوت نظارہ دے رہی تھی۔ سی او کا پارہ فوراً آسمان کو چھونے لگا۔ انہوں نے دھاڑتے ہوئے ایس ایم صاحب سے دریافت کیا کہ یہ چارپائی کس کی ہے۔کانپتی ہوئی باریک سی آواز میں جواب آیا’’سر! ٹو آئی سی صاحب کی۔‘‘ ہم فساد خلق کے ڈر سے اس افسانے کا یہیں پر اختتام کرتے ہیں اور اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کا اندازہ آپ پر ہی چھوڑتے ہیں۔ صرف سویلین قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتے چلیں کہ ٹو آئی سی یعنی سیکنڈ اِن کمانڈ یونٹ کے سی او یعنی کمانڈنگ آفیسر کے بعد سب سے سینئر موسٹ آفیسر ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
لنک قسط3۔
https://mukaalma.com/article/Ziashazad/4253

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply