نَو غُربَتیے

بیڈ روم میں کھڑے مرد اور عورت بحث کررہے ہیں۔ وہ بیڈ روم ہل اسٹیشن کی ڈھلوان سڑک پر واقع ہے۔ نجانے کیوں۔

ٹھنڈے پہاڑی درخت ہمہ تن گوش ہیں۔۔۔ بیڈ روم میں ہلکے جامنی رنگ کا صوفہ سیٹ ہے۔سامنے ایک کافی ٹیبل ہے، نیچے قالین کا پارچہ ہے۔ صوفے کے دائیں بائیں دو قد آور لیمپ  رکھے گئے ہیں۔ ساتھ ہی کتابوں کا شیلف۔ فرنیچر کے اوپر ایک قیمتی پینٹنگ معلق ہے، یا شاید بادلوں کے سہارے ٹنگی ہے ۔مرد اور عورت کی تکرار جاری ہے۔دُور ایک بچہ چمکتی ہوئی سائیکل پر نمودار ہوتا ہے ۔ وہ اونچائی سے نیچے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ مرد، ننھے سائیکل سوار کو دیکھ کر خاموش ہو جاتا ہے اور صوفے کو دھکیل کر راستہ بناتا ہے۔ بچہ بیڈ روم سے بہ آسانی گزر جاتا ہے ۔۔۔چند لمحوں بعدسائیکل رُکتی ہے اور بچہ پلٹ کر الوداع کہتا ہے۔ مسکرانے پراُس کاٹوٹا ہوا دانت دکھائی دیتاہے۔ مرد بھی مسکراتا ہے اور پھر سفید بادلوں کوگزرتا دیکھ کراُن میں کھو جاتاہے۔ اچانک اُس کی سماعتوں سے عورت کی چیخ ٹکراتی ہے:
’’ سامنے دیکھو!‘‘۔

ہاسٹل کے مرکزی ہال میں نوجوان طالب علم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ایک دوسرے کو اُلٹے سیدھے ناموں سے پکار رہے ہیں۔ پکوڑا ناک اور ہاتھی کان کا مذاق اُڑا یا جارہا ہے۔ کوئی مارنے بھاگتا ہے، کوئی جان بچاتا ہے۔ تھک ہار کرکچھ لڑکے کھڑکیوں پر جُھول رہے ہیں۔ باہر کی تازہ ہوا نوجوان سینوں کو ترو تازہ کر رہی ہے۔ دُور ایک نگران مرکزی دروازے کی دہلیز پر کھڑا خاموشی سے یہ منظر دیکھ رہا ہے۔اُس کے ہاتھ میں رجسٹر ہے۔۔۔ وہ جوانوں کے سر گِن رہا ہے۔۔۔ اور اُن کی ٹانگیں بھی ۔۔۔ چلبلی ٹانگیں۔ اعداد و شمار پورے ہونے پردربان قلم کو کاغذ پر چلانے کی کوشش کر تا ہے۔۔۔ روشنائی ختم ہوچکی ہے ۔

وہ بوڑھا ہر روزشہر کے مرکزی اسکوائر میں جا کر جنگلی کبوتروں کو باجرہ کھلاتا ہے۔ اپنے وقتوں میں وہ مشّاق کبوتر باز رہا ہوگا۔ وہ پرندوں کو اردو کے حروف تہجی یاد کرواتا ہے۔ جنگلی پرندے گردن پھلا کر حروف کی گردان کرتے ہیں۔ سیّاحوں کے بچے جلد ہی اِس منفرد کلاس روم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہ بوڑھے شخص کی حرکتوں پر قہقہہ لگاتے ہیں۔ بوڑھا بچوں کا امتحان لیتا ہے:

’’کبوتر راستہ کیسے یاد رکھتے ہیں؟‘‘

معصوم آنکھوں کی پُتلیاں پھیل جاتیں  اور لب سکڑ جاتے ۔ بوڑھا مسکرا دیتا ہے۔ اُس کی آنکھوں کے گرد ’بانگ کے پاؤں ‘ بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی ڈانگری میں ہاتھ ڈال کر یہ تھیوری پیش کرتا ہے کہ ’’کبوتر سینکڑوں میل سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اِس دوران وہ چھوٹی چھوٹی نشانیاں قائم کرتے جاتے ہیں ‘‘۔

پھر کبوتر بازاشارے سے بچوں کو پاس بلاتا ہے اور زمین پر دوزانوں بیٹھ جاتاہے۔ننھے تماش بین بوڑھے پر جھک کر ایک دائرہ بنا لیتے ہیں۔ جادو گرکچھ پڑھنا شروع کرتا ہے اور شہادت کی انگلی کو آہستہ آہستہ فرش پر پھیرتا ہے ۔ اچانک ٹھنڈی ہوا چلنے لگتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے زمین پر ایک پیچیدہ نقشہ اُبھرتا ہے،وسیع میدان میں چھوٹے چھوٹے پہاڑ اوردرخت۔۔۔درمیان میں ایک شفاف نہر اور پانی کے اوپر اُڑتے ہوئے کابلی کبوتروں کی ٹولیاں۔۔۔بچے سہم کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ دھیان بٹانے کی غرض سے بوڑھا اُنھیں ایک اور واقعہ  سناتاہے ۔۔

’’یقین نہیں آتا، ہے ناں؟ اسی اسکوائر میں مَیں نے ایک نوجوان صحافی کو ’ دو ۔ صفر‘ سے شکست دی تھی۔ وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ قریب ڈیڑھ سو سال قبل دنیا کی بڑی خبر رساں ایجنسیاں اسٹاک ایکسچینج اور سیاسی خبروں کی تیز ترین ترسیل کے لیے کبوتروں کا سہارالیا کرتی تھیں۔ اِس مقصد سے اُنہوں نے کبوتروں کی درجنوں ٹکڑیاں پالی ہوئی تھیں ۔ یہ وہ پرندے تھے جو1850کی دہائی میں جرمنی اور بیلجئم کے درمیان خبر رسانی کا کام انجام دیتے تھے۔

“نوجوان صحافی کو دوسری شکست تب ہوئی جب میں نے اِس بات کا انکشاف کیا کہ 1896 میں نیوزی لینڈ اور گریٹ بیرئیر جزیرے کے مابین کبوتروں کی ڈاک سروس قائم کی گئی تھی اور اِس مقصد سے 10آنے والے ’کبوتر ٹکٹ‘ جاری کیے گئے تھے۔‘‘ واقع سنانے کے بعدبوڑھا خاموش ہوجاتا ہے ۔ آنکھیں کھول کر دیکھتا ہے۔ وہاں ایک بھی بچہ موجود نہیں ہوتا۔ چاروں طرف کبوتر ہی کبوتر ہیں۔

سورج مکھی بچی مخملی کیس کھول کرسونے کے سکے نکالتی ہے اور باغبان کے گیلے ہاتھوں پررکھ دیتی ہے۔ کہیں سے ایک تتلی اُڑتی ہوئی آتی ہے اور من پسند پودے پر بیٹھ جاتی ہے۔ بچی تتلی کے پیچھے جاتی ہے۔ مالی ، پھلواڑی میں موجود سب سے خوبصورت آرکڈکو اُٹھا کر میز پر سجا دیتا ہے۔ تتلی اُڑتی ہوئی آتی ہے اورنیلے پھول کو اُٹھا کرلے جاتی ہے۔

موسیقی سننے کی غرض سے ریڈیو کی ٹیونگ کی جارہی ہے لیکن سُروں کے بجائے سنسنی خیز خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ ’’پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ چکی ہے ۔وردی پوش اہلکار ہل اسٹیشن کی مرکزی گزر گاہ کو سیل کرچکے  ہیں”۔ ریڈیو بند ہو جاتاہے۔

ہل اسٹیشن پر ایک کھوجی شواہد جمع کر رہا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کے رضا کارایمبولینس میں واپس بیٹھ رہے ہیں۔ پیلی اینٹوں والی سڑک سے نیچے کچھ فاصلے پرایک ٹوٹی ہوئی سائیکل پڑی ہے۔ ایک فوٹوگرافر مختلف زاویوں سے جائے وقوعہ کی تصویریں کھینچ رہا ہے۔اوپر واپس آکروہ ملزمان کی ایک اور تصویر بناتاہے۔ گاڑی سے ٹیک لگائے مرد اور عورت بے جان کھڑے ہیں۔ تفتیش پر مامور افسر سامنے کھڑا ہے اور دونوں کا بیان ریکارڈ کررہاہے۔ عورت کہتی ہے کہ حادثہ دونوں کی غفلت سے ہوا اسی لیے وہ اپنا مقدمہ نہیں لڑیں گے۔  مرد کہتا ہے کہ اُس کی بیوی بے قصور ہے، حادثہ اُس کی اپنی غفلت سے ہوا ۔۔۔ وہ اپنی بیوی کا مقدمہ لڑے گا اورخود سزا بھگتنے کو تیارہے۔۔۔

ملٹری ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ بارودی سرنگیں پھٹنے سے بیشتر سپاہیوں کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ جوانوں کی اکثریت اٹھارہ سے بیس سال کے درمیان ہے۔ جنرل وارڈ کے بستر وں پر کراہتے ہوئے بیشتر سپاہی معذور ہو چکے ہیں۔ مزید زخمیوں کو وارڈ میں منتقل کیا جارہا ہے۔ دروازے پر وارڈن کھڑا ہے۔ وہ  زخمیوں کی تعداد گِن کر رجسٹر میں درج کر رہا ہے۔ سفید کاغذ سُرخ روشنائی سے نم ہوجاتا ہے ۔

شہر کے مرکزی اسکوائر میں غیر معمولی خاموشی ہے۔ فرش صاف ستھرا ہے۔ باجرہ بیچنے والے دکان داروں کا لائسنس منسوخ ہو چکا ہے ۔ دُور ایک بوڑھا اخبار میں لپٹا ہوا برگر کھا نے میں مصروف ہے ۔ قریب ہی ایک بھوکا کوّا منڈلا رہا ہے۔ بوڑھا شخص ایک تختی اُٹھا کر سامنے رکھ دیتا ہے: ’’ہم گدا گر نہیں ۔۔۔ گردش میں ہیں۔‘‘ کوّا نزدیک آجاتا ہے ۔کھچڑی بالوں والا شخص کوّے کو پچکارتا ہے اور  ایک نوالہ اُچھال دیتا ہے۔اگلے لمحے کاسے میں ایک سکہ آکر گِرتا ہے۔ بوڑھا دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتا ہے۔ کوّا نرم روٹی کا ٹکڑا  چونج میں دبا کر اُڑ جاتاہے۔ بوڑھا مسکراتا ہے ۔ اُس کی آنکھوں کے گرد ’’بانگ کے پاؤں‘‘ بن جاتے ہیں۔

سگنل پر کھلونے بیچنے والی بچی نرسری میں قدم رکھتی ہے۔ باغبان  پودوں کی تراش خراش کر رہا ہے۔ بچی پھولوں کی خوشبو سونگھتی ہے اور اُنھیں چھو کر دیکھتی ہے۔ مالی زور سے چیختا ہے۔بچی چونک جاتی ہے۔ نرسری کی سبزجالیوں پربیٹھا ہوا پرندہ اُڑ جاتاہے۔ بچی مَنی پلانٹ کی قیمت پوچھتی ہے اوراپنی میلی کچیلی جیب سے چند نوٹ نکال کر میز پر رکھ دیتی ہے۔ پودے بیچنے والا نوٹ سیدھے کر تا ہے ۔ بچی کی آنکھوں میں التجا ہے۔ مالی ایک مرجھایا ہوا مَنی پلانٹ بچی کو تھما دیتا ہے۔ بچی بیل کوسمیٹ کرخوشی خوشی باہر نکل جاتی ہے۔

فوارے پر بیٹھا خوف زدہ کبوتر، پھڑپھڑاتا ہوا اُڑ جاتا ہے۔ مالی میلے نوٹوں کو گِن رہا ہے۔ باہر سڑک پر ایک بچہ پیلی سائیکل پر ڈگمگا رہا ہے ۔ ایک ڈرائیور فون پر بیوی سے بحث کر رہا ہے۔ تیز رفتار گاڑی اور سست رفتار سائیکل آمنے سامنے ہیں۔ ٹریفک سگنل کی تمام بتیاں بند ہو جاتی ہیں۔ جنگ میں معذور ہونے والے فوجیوں کا کاررواں گزررہاہے۔ سڑک کے دونوں طرف جوشیلے عوام موجود ہیں۔ وہ فوجیوں پر پھول پتیاں نچھاور کر رہے ہیں۔ بگل اور ڈرم کا شورہے۔ پر چم میں لپٹے ہوئے فوجی ٹرکوں کا قافلہ آہستہ آہستہ آگے بڑ رہا ہے۔ اپاہج جوان سر ہلاکر عوا م کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ ملٹری بینڈ کی آواز پر بوڑھا فقیر کھانا چھوڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔ منظر دھندلا دکھائی دینے پر جیب سے ٹوٹی  ہوئی  عینک نکالتاہے۔کوّوں کا جھنڈ کھانے پر جھپٹ پڑتا ہے۔ فقیرچلاتا ہوا اُن کے پیچھے دوڑتا ہے ۔ بچے کی سائیکل فٹ پاتھ پر جاگری ہے۔ سڑک پرکالے ربڑ کے نشان دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔

ایک بھوکا پرندہ نرسر ی کے آہنی ستون پر آبیٹھتا ہے۔ اُس کی نگاہیں کسی کا پیچھا کر رہی ہیں۔ شاید وہ گملوں میں رینگنے والے کسی کیچوے یا ٹڈے کی تاک میں ہے۔ ایک سیاہ فام بچی مالی سے منی پلانٹ کا ننھا پودا خریدنا چاہتی ہے۔ باغبان قیمت بتاتا ہے۔ بچی  مٹھی کھول کر دکھاتی ہے۔ ہتھیلی پر ایک اُداس سکہ  دھرا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

شہرکے مرکزی اسکوائر میں نصب فوارہ بند ہو چکا ہے۔ فوارے کے گرد، پانی کی جل ترنگ، سیاحوں کے قدموں اور کبوتروں کی آوازوں کا ایک بھنور ہے جومستقل گردش کر رہاہے۔ پانی ، سیاح اور کبوتر کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ جگہ جگہ’ دکان برائے فروخت ‘کے بورڈ آویزاں ہیں۔ چند تربیت یافتہ عقاب ، اپنے مالکوں کے بازؤوں پر چوکنا بیٹھے ہیں۔ اُن کی سُرخ آنکھوں میں اسکوائر کا نیا عکس بن رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply