اخلاقی نفسیات (54) ۔ اخلاقیات/وہاراامباکر

اخلاقیات کا مطلب کیا ہے؟ یہ آسان سوال نہیں۔ اور اس پوری سیریز میں اس پر بات نہیں ہوئی، کیونکہ پسِ منظر کے بغیر کسی بھی جواب کی تک نہیں بنتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈرک ہائم نے کہا تھا، “کوئی بھی چیز اخلاقی ہے اگر وہ متحد کرنے کا ذریعہ ہو۔ کوئی بھی چیز جو انسان کے اعمال کو اس کی انا یا خودغرضی کے علاوہ ریگولیٹ کرے”۔
ڈرک ہائیم کی تعریف سماجی فیکٹ کی بنیاد پر تھی۔ ایسی اشیا جو کسی فرد کے ذہن کے باہر موجود ہیں اور فرد کی انا کو روکتی ہیں۔ اس میں مذہب، خاندان، قوانین اور معنی کے مشترک نیٹورک آتے ہیں۔
لیکن اخلاقیات ذہن کے “اندر” بھی ہیں۔ اس میں اخلاقی جذبات ہیں۔ اندرونی ترجمان ہے۔ اخلاقی فاونڈیشن ہیں۔ گروپ کا سوئچ ہے۔اور دیگر نفسیاتی مکینزم ہیں۔
ان الگ ٹکڑوں کو جوڑ کر اخلاقی نظام کی جو تعریف بنتی ہے، وہ کچھ یوں ہے۔
“اخلاقی نظام اقدار، نیکیوں، رسوم، رواج، شناخت، اداروں، ٹیکنالوجی اور نفسیاتی مکینزم ہیں جو ملکر ہمارے خودغرض مفاد کو دباتے ہیں اور باہمی تعاون کے ساتھ چلنے والے معاشرے ممکن کرتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تعریف کے دو پہلو ہیں۔ پہلا، ایک functionlist تعریف ہے۔ یہ تعریف اس بارے میں ہے کہ اخلاقیات کیا “کرتی” ہے۔ نہ کہ یہ کہ اخلاقیات کو کیا کرنا چاہیے۔ کیونکہ کوئی بھی ایسی تعریف اسے ڈیفی نیشن دینے والے کے فہم تک محدود کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک اخلاقی گروپ درست ہو اور باقی نہیں۔ جو کہ ہمیں دوسرے نکتے کی طرف لاتا ہے۔
فلسفی عام طور پر اس بارے میں تفریق کرتے ہیں کہ تعریف میں descriptive کیا ہے (جو صرف اس کو بیان کرے کہ لوگ کسی اخلاقی سمجھتے ہیں) اور normative کیا ہے (جو کہ اس کو بیان کرے کہ کیا شے واقعی میں درست ہے، خواہ دوسرے جو بھی سمجھیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اخلاقیات میں ہونے والی لڑائی دوسری تعریف کی ہے۔
لیکن فلسفی کبھی بھی تنازعے میں چھلانگ لگانے سے نہیں گھبراتے۔ Normative ethics کے شعبے کا تعلق ہے ہی اسی چیز سے کہ کونسی چیز واقعی میں درست ہے اور کونسی غلط۔ کونسا اخلاقی اصول دوسرے سے برتر ہے۔ اور یہاں پر ہمیں سے مفید خیالات ملتے ہیں۔
کسی فرد کے لئے اپنی زندگی میں کیا اخلاقیات ہونی چاہیئں؟ یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ لیکن جب قانون یا پبلک پالیسی بنانی ہے تو ایک جمہوری معاشرے میں مجموعی طور پر لوگوں کی زیادہ سے زیادہ well-being ایک اچھا اصول ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply