• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • 1965 کی جنگ میں پاک فضائیہ کی مجموعی کارکردگی(دوسری،آخری قسط)۔۔۔عروج ندیم

1965 کی جنگ میں پاک فضائیہ کی مجموعی کارکردگی(دوسری،آخری قسط)۔۔۔عروج ندیم

مشہور و معروف ہفتہ وار امریکی جریدے “ٹا ئم” کے نامہ نگار  (Lucie carr) نے اس سترہ روزہ پاک بھارت جنگ پر  تبصرہ کرتے  ہوئے لکھا
“اس قوم کو بھلا کون شکست دے سکتا ہے جو موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا جانتی ہو۔‘‘
بالکل یہ بات پاک فضائیہ کے نوجوانوں پر صادق آتی ہے انہوں نے جس جواں  مردی اور  بہادری سے اپنے سے کئی گنا بڑی فضائیہ کو شکست فاش دی ہے اس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے۔
٦ ستمبر کی صبح بھارتی فضائیہ اپنے پلان کے مطابق لاہور پر حملہ آور ہوئی ،جس وقت یہ حملہ ہوا، اس وقت پاکستانی پائلٹس سیالکوٹ کی فضاؤں میں محوِ  پرواز تھے۔ جب انہیں اس حملے کی خبر ہوئی تو انہوں نے فوراً امرتسر واہگہ روڈ کا رخ کیا۔ وہ سڑک بھارتی ٹینکوں توپوں اور بکتر بند گاڑیوں سے بھری پڑی تھی۔ ہمارے شاہینوں نے ان پر راکٹ برسانا شروع کیے اور چند منٹوں میں پوری سڑک پر دیکھا  گیا کہ توپیں، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں جل رہی ہیں۔ یوں شاہینوں نے دشمن کا بھاری اسلحہ تباہ کرکے لاہور کا کامیابی سے دفاع کیا۔
اس وقت پی اے ایف کا بیڑہ 12 ایف-104  سٹار فائٹرز، 120 ایف-86 صیبر اور بیس کے قریب ایف-57 کینبرا بمباروں پر مشتمل تھا۔ جبکہ بھارتی فضائیہ نے 729 طیاروں کے ساتھ حملہ کیا تھا۔ طیاروں کی کمی کے باعث ایئر مارشل نور خان کے منصوبے کے تحت بھارتی جنگی اڈوں پر حملہ کرنا طے پایا۔ تاکہ دشمن کے زیادہ تر طیارے زمین پر ہی تباہ ہو جائیں۔ اس منصوبے کے مطابق بھارتی فضائیہ کے چار جنگی اڈوں ہلواڑہ، پٹھان کوٹ، آدم پور اور جامپور کو نشانہ بنانا مقصود تھا۔ ان حملوں میں پٹھان کوٹ پر حملہ سب سے زیادہ کامیاب رہا۔ ریاست پنجاب میں جموں کی سرحد کے نزدیک واقع پٹھان کوٹ ائیر بیس بھارتی فضائیہ کا بڑا جنگی اڈہ  تھا۔ مگر وہ پشاور سے دو سو میل کے فاصلے پر ہے۔ اس لیے ہمارے طیاروں کو فاضل ایندھن لینا پڑا اور گولا بارود کی مقدار خودبخود کم ہوگئی ۔ اب شاہینوں کو صرف گولیوں کے ذریعے پٹھان کوٹ پر کھڑے طیاروں کو تباہ کرنا تھا۔ سکواڈرن لیڈر غنی اکبر بھی اس حملے میں شریک تھے۔ جب وہ اپنا مشن پورا کرکے آنے لگے تو ان کی نظر ایک بھارتی طیارے پر پڑی۔ چونکہ انہیں صرف ایک ایک حملے کی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن انہوں نے دشمن کے طیارے کو تباہ کیے  بغیر واپس آنا گوارہ نہ  کیا، اور ایک اور حملہ کر کے دشمن کے طیارے کو تباہ کیا۔ یہاں ہمیں ہمارے شاہینوں کے جوش و جذبے کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ایندھن کی کمی اور آفیسرز کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے یہ خطرہ مول لیا اور کامیابی کے ساتھ اپنا مشن مکمل کیا۔
7 ستمبر کی صبح بھارتی فضائیہ نے سرگودھا ایئر بیس پر حملہ کیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سرگودھا پاک فضائیہ کا سب سے بڑا جنگی اڈہ تھا۔ گویا پاک فضائیہ کی 50 فیصد قوت اس وقت سرگودھا میں موجود تھی۔ وہ ہمارے طیاروں کو تباہ کر کے فضا میں اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے وقفے وقفے سے سرگودھا پر کئی حملے کیے، لیکن ہمارے شاہینوں نے ان کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور اپنی فضائی برتری ثابت کی اور نہ صرف اپنا کامیاب دفاع کیا بلکہ دشمن کے دلوں پر اپنی ہیبت کو طاری کردیا۔
١٩٦۵ کی جنگ میں ایم ایم عالَم کا انفرادی کردار
 یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم انکی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
١٩٦۵ کی جنگ میں پاکستان کی مسلح فوج کا کردار قابل تعریف ہے۔لیکن دشمن کو بڑے پیمانے پر نقصانات پہنچانے میں ایم ایم عالم کی شراکت نا قابلِ فراموش ہے۔
محمد محمود عالم 6جولائی ١٩٣۵ کو کلکتہ میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ١٩۵١ میں اپنی ابتدائی تعلیم ڈھاکہ میں مکمل کرنے کے بعد ١٩۵٢ میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور ١٩۵٣ میں کمیشن حاصل کیا۔ ١٩٦۵ کی جنگ کے وقت وہ پاک فضائیہ کے سکواڈرن ١١ کی کمان میں کام کر رہے تھے۔
 ٦ ستمبر کو جب پاک فضائیہ نے دشمن کے جنگی ہوائی اڈوں پر حملہ کیا تو عتاب میں آکر بدلے کی نیت  سے بھارتی فضائیہ نے 7 ستمبر کو سرگودھا ائیر بیس پر حملہ کیا۔ ١٩٦۵ کی جنگ میں سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے 6ستمبر کو دشمن کے دو جنگی طیارے تباہ کیے اور تین کو نقصان پہنچایا۔ اس بہادری کے اعتراف میں انہیں ستارہ جرات سے نوازا گیا۔ 7ستمبر کے دن حملے کی خبر ہوئی تو ایم ایم عالم اپنا ایف-٨٦ سرگودھا کی فضاؤں میں لے پہنچے۔ اسی دوران انہیں فضا میں دشمن کے دو ہنٹر طیارے نظر آئے۔ انہوں نے ایک ہنٹر پر میزائل دے مارا۔ اس میں موجود بھارتی پائلٹ طیارہ تباہ ہونے سے قبل باہر نکل آیا۔ چند لمحوں بعد ایم ایم عالم کو چار ہنٹر طیارے نظر آئے۔ اس کے بعد دریائے چناب کے تاریخی علاقے کی فضاؤں میں دوبدو مقابلہ ہوا۔ وہ چاروں ہنٹر ایک دوسرے کے پیچھے اڑے چلے جا رہے تھے۔ ایم ایم عالم نے اپنے طیارے کی چھ گنوں کے دہانے ان پر کھول دیے اور ایک منٹ سے بھی کم وقت میں چاروں کو مار گرایا۔ اس حیرت انگیز کارنامے کیلئے ایم  عالم کو ایک بار پھر ستارہ جرات سے نوازا گیا۔ ایم ایم عالم اپنے انٹرویو میں اس دن پیش آنے والے معرکے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ *” سورج نکلنے سے ایک گھنٹہ پہلے میں اپنے کاک پِٹ میں بیٹھا اور کچھ دیر کے لیے سو گیا۔ اس کے بعد کسی پائلٹ نے آکر ہمارے جہاز کے فیوز لاج کو کھٹکھٹایا اور میں نے جیسے ہی آنکھ کھولی تو اس وقت میری زبان سے بسم اللہ نکلی تو مجھے معلوم تھا کہ اس معرکے میں کچھ ہوگا “*
ایم ایم عالم نے اپنے ایف – 86 سے ٩ انڈین ہاکر ہنٹر طیاروں کو تباہ کرکے ناقابل فراموش تاریخ رقم کی۔ کیوں کہ ہاکر ہنٹر  ایف – 86 سے زیادہ طاقتور تھا۔ جب ریڈیو پاکستان نے اس خبر کا اعلان کیا تو پورے  پاکستان نے اللہ اکبر کے نعرے بلند کرنے شروع کر دیے۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ایم ایم عالم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ” ان کی ُاڑان کی مہارت ، باقاعدگی اور پیشہ ورانہ مہارت فضائیہ کی تاریخ میں بے مثال ہے”۔
1965 کی جنگ میں پاک فضائیہ سے متعلق جنگ کے نتائج
اس سترہ روزہ جنگ میں پاک فضائیہ کو مکمل فضائی برتری حاصل رہی۔ ہماری فضائیہ نے اُن بھارتی فضائی اڈوں پر جا کر بمباری کی جو پاک بھارت سرحد سے دور گہرائی میں واقع تھے۔
پٹھان کوٹ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے دس طیارے تباہ کیے اور متعدد کو نقصان پہنچایا۔ 1965ء کی 17 روزہ جنگ میں پاکستان نے مجموعی طور پر 35 طیاروں کو فضا اور 43 کو زمین پر تباہ کیا جبکہ 32 بھارتی طیاروں کو طیارہ شکن گنوں نے نشانہ بنایا۔ اس طرح مجموعی طور پر بھارت کے 110 طیارے تباہ ہوئے اور پاکستان کے صرف 19 طیارے اپنے ملک کے دفاع میں کام آئے۔
یہ اعداد و شمار ہماری پاک فضائیہ کی بے مثال کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پاکستانی پائلٹس کے ١٩٦۵ کی جنگ کے متعلق انکشاف
١٩٦۵ کی جنگ میں موجود ہمارے شاہین جو اس وقت ہمارے ملک کا دفاع کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے اور دیگر ساتھیوں کے جوش و جذبہ کے کچھ واقعات سنائے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
پاک فضائیہ کی آپریشنل بیس پر بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں پاکستانی شاہینوں کا کہنا تھا کہ “دشمن کافی الجھن میں لگ رہے تھے۔ ہم نے بھارتی فضائیہ کے 14 جنگی طیارے گرائے۔ وہ ہم پر گولیاں چلا رہے تھے لیکن ہم نے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا اور ان کو کافی نقصان پہنچایا۔”
ایئر کموڈور سجاد حیدر ١٩٦۵ کی جنگ میں اپنے سکواڈرن ١٩ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ”ہندوستانی ایئر مارشل کا کہنا ہے کہ واہگہ اور پٹھان کوٹ پر حملے تباہ کن تھے۔ انہیں مکمل طور پر مسمار کردیا گیا تھا۔ جب ہم نے ان پر حملہ کیا تب ہم نے ١١ ہندوستانی طیاروں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اور اب 2010 میں ہندوستانیوں نے تصدیق کی ہے کہ اسی پہلے حملے میں ١٣ جنگی طیارے تباہ ہوئے تھے۔”
سکواڈرن لیڈر غنی اکبر اپنے ایک انٹرویو میں پٹھان کوٹ پر حملے کا واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ “پٹھان کوٹ پر حملے سے پہلے ہماری بریفنگ ہوئی تھی کہ ہر پائلٹ دو  دو حملے کرے گا اور وہ اس لیے کیوں کہ ہمارے پاس اتنا پیٹرول نہیں تھا کہ ہم واپس پہنچ سکیں۔ جب میں نے دوسرے حملے میں ایک جہاز تباہ کیا تو اس وقت آگ کے شعلوں میں مجھے ایک جہاز نظر آیا جو ابھی تک تباہ نہیں ہوا تھا۔ عین اس وقت میں نے ارادہ کیا کہ مجھے تیسرا حملہ کرنا چاہیے اور ایسی ہمیں اجازت نہیں تھی۔ آفیسرز کے چیخنے چلانے کے باوجود اللہ کا نام لے کر میں نے یہ تہیہ کیا تھا کہ اگر میں پشاور نہ پہنچا تو میں سرگودھا لینڈ کرونگا لیکن یہ جہاز چھوڑنا نہیں ہے۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply