کیاالحاد یا تشکیک ابنارمل رویوں کا نام ہے؟۔۔عبدالستار

تحقیق و جستجو کی دنیا ایمان و یقین کی دنیا سے بالکل ہی مختلف ہو تی ہے اور کثیر الجہتی کا یہ جہان ایک جہان دیدہ اور صاحب ِ بصیرت طالب کو بہت زیادہ بے چین و بے قرار کیے رکھتا ہے ۔اس قسم کی فکر رکھنے والے لوگ Belief system سے بہت آگے نکل جاتے ہیں اور مسلسل نئے سے نئے جہان کو کھوجنے کی ایک ایسی علت اور عادت کا شکار ہو جاتے ہیں جسے ہم “جاننے کا نشہ “کہہ سکتے ہیں۔جیسا کہ نطشے نے ایک بہت ہی پُر مغز بات کہی تھی جو اس سارے بیانیہ کو تقویت بخشتی ہے “Belief means not wishing to know what is true ” تاریخ انسانی ایسے نابغہ روزگار لوگوں اور سوچنے ، سمجھنے کے مختلف رویوں سے بھری پڑی ہے ۔انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں الگ ڈھنگ سے سوچنے والے ان غیر روایتی قسم کے اہل دانش کو مختلف ناموں سے جانا اور پکارا گیا ۔ان لوگوں کی ذہنی فکر میں روایات کے خلاف باغی پن کا عنصر غالب آجاتا ہے اور اپنے حصہ کی حاصل شدہ دانائی اور سچ کا اظہار ببانگ دہل کرتے ہیں ۔

کائنات کیا ہے ؟

اس کائنات میں انسان کی حقیقت کیا ہے ؟

کیا انسان اپنے فیصلے آزادانہ طو ر پر خود کر سکتا ہے یا اس کو کسی طرح راہنمائی کی ضرورت مسلسل رہتی ہے ؟

ان گنجلک قسم کے سوالات کو کھوجنے اور پرکھنے کی جدوجہد میں مختلف طبقہ ہائے فکر وجود میں آئے ،اسی فکری تسلسل میں کچھ فکر ی دھارے آسمانی نقطہ نظر سے جڑ گئے اور کچھ زمینی نقطہ نظر سے ۔آسمانی نقطہ نظر کے دائرہ کار میں مذاہب عالم آتے ہیں ان میں خاص طور پر چار بڑے مذاہب جو کہ وحی ،جنت دوزخ ،حیات بعد الموت ،پیغمبروں اور آسمانی کتابوں پر یقین رکھتے ہیں جبکہ زمینی نقطہ نظر کے دائرہ کار میں وہ لوگ آتے ہیں جن کا ان سب باتوں پر یقین نہیں ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آج انسانی دانش اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا لائحہ عمل دانش مندی کے ساتھ خود تشکیل دے سکتے ہیں، اور یہ اپنی فکر کی جڑیں زمین پر تلاش کرتے ہیں نہ کہ آسمان پر ۔میری نظر میں مائیکروسکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد نے انسانی فکر میں ایک طرح کا انقلاب برپا کیا ہے اور اسی انقلاب کی بدولت آج کاا نسان میٹا فزکس کے دور سے نکل کر فزکس کے دور میں داخل ہوچکا ہے ۔مختلف قسم کے سچ جوکہ مذہبی یا تقدس کے لحاف میں ملفوف تھے وہ اب ننگے ہونا شروع ہوگئے ہیں،اور آج کی دنیا کئی سو سال والے سچ کی بنیاد پر نہیں کھڑی، بلکہ آج کے سائنسی حقائق کی بنیاد پر کھڑی ہے ۔وہ فلاسفرزجو وحی ،الہیات اور الہام پر یقین رکھتے تھے ،انہوں نے ایک طرح سے مذہبی سوچ کو فروغ دیا جبکہ دوسرے مکتبہ فکر کے فلسفیوں نے سائنس کی بنیاد پر Rational thinking کو فروغ دیا ۔مذہبی فکر میں کچھ ایسے اذہان پیدا ہوئے جنہوں نے مذہبی فکر پر بھی سوالات اٹھائے ان غیر روایتی لوگوں میں صوفی ،سنت اور سادھو شامل ہیں اور اسی طرح بالکل مختلف قسم کی سوچ ہمہ اوست ،ہمہ از اوست ،عشری اور معتزلہ فکر کی صورت میں سامنے آئی جبکہ دوسری طرف دہریت ،تشکیکیت،اگناسٹک اور گناسٹک فکر کی صورت میں سامنے آئی ۔انسانی فکر کو قید نہیں کیا جاسکتا بلکہ کائنات کی خوبصورتی ہی تنوع میں ہے ،مذہبی ہونایا غیر مذہبی ہونا یہ کوئی بُرا عمل نہیں ہے ،قباحت والی بات یہ ہے کہ ہم اپنے نظریات کی بنیاد پر ایک دوسرے پر طعن و تشنیع نہ کریں، بلکہ ایک مکالمہ کی فضاء کو پروان چڑھائیں ،تاکہ ہمیں ایک دوسرے کے خیالات کو جاننے کا موقع ملے ،اور انسانی رشتوں کے درمیان قائم ہونے والی نظریاتی اناؤں کی دیوار کو مسمار کیا جاسکے ۔

تاریخ گواہ ہے کہ انہی نظریاتی اناؤں کی بھول بھلیوں کی وجہ سے ہمیں اپنے بہت اعلیٰ  اذہان سے محروم ہونا پڑا، اور کچھ کو تو بڑی بے رحمانہ اور ظالمانہ سزائیں بھی دی گئیں ۔جب تک اس کائنات کا وجود ہے انسانی فکر کی یہ مختلف رنگوں کی قوس قزاح یونہی سوچ کے تسلسل کو آگے بڑھاتی رہے گی ۔ہمیں ایک دوسرے کے سچ کا احترام کرنا چاہیے اور ہمیں یہ حق بالکل بھی نہیں پہنچتا کہ ہم اپنے سچ کو دوسروں کے سچ پر مقدم جانیں ۔ہمیں اپنے سچ کو شائستگی کے ساتھ پیش کرنا چاہیے ،ناکہ دوسروں پر تھوپنا چاہیے ۔بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے سچ کو خود ہی کھوجنا اور تراشنا چاہیے، اور مختلف النوع علوم کی آج کی دنیا میں انسانی فکر کو ہر وہ سہولت حاصل ہے جس کی بدولت آج کا انسان بڑی آسانی سے اپنی سوچ اور تخیل کے دائرہ کا ر کو وسعت دے سکتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“Human minds are like parachutes, they work only when they are open”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply