• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ کا کردار(قسط 1)۔۔۔عروج ندیم

1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ کا کردار(قسط 1)۔۔۔عروج ندیم

شاہین تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ
 تو قوّت بازو سے اسے اور ہوا دے
پاک فضائیہ (Pakistan Air Force) پاکستان کی فضائی حدود کی محافظ پروفیشنل فورس ہے ۔پاک فضائیہ نے اپنے کم ترین وسائل کے باوجود مختصر وقت میں جو کامیابیاں سمیٹی ہیں بہت کم کسی ادارے کے حصے میں آتی ہیں جس کی دلیل اس ادارے کا جنگی تاریخی ریکارڈ ہے یہی وجہ ہے کہ پاک فضائیہ کے پائلٹوں کا شمار دنیا کے بہترین پائلٹس میں ہوتا ہے۔
بانی پاکستان محمّد علی جناح رح  نے پاکستان کی سالمیت کے پیش نظر رسالپور میں اس ادارے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوۓ کہا
ایک طاقتور ہوائی فوج کے بغیر ایک ملک کسی بھی جارح کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، جتنی جلد ہو سکے پاکستان کو اپنی فضائیہ بنا لینی چاہیے یہ لازماً ایک بہترین ہوائی فوج ہو جو کسی دوسرے سے پیچھے نہ ہو۔( 13اپریل 1948 خطاب  پاک فضائیہ رسالپور اکیڈمی)
پاک فضائیہ کی تاریخ
 1933ء میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے برصغیر کا پہلا ایئر فورس اسٹیشن کراچی  شہر کے ڈرگ روڈ کے قریب قائم کیا۔ جسے اب “شاہراہِ فیصل ایئر فورس بیس” کہا جاتا ہے۔
 1934 ء میں بھارتی فضائیہ کے اس بیس کو شمال تک بڑھایا گیا۔ اور  کوہِ ہندوکش پہاڑوں اور صوبۂ سرحد میں پہلی فضائی کارروائیاں شروع کی گئیں۔
دوسری جنگ عظیم کے وقت، یورپ کے جاسوسی طیارے، ڈرگ روڈ سمیت ساحلی فضائی اڈوں کی تار سے کام کرتے ہوئے بحیرہ عرب، بحر ہند اور خلیج بنگال میں گشت کرتے تھے۔
 پھر ہندوستان میں نوخیز فضائیہ کے لئے بڑا امتحان آیا۔ جس میں برطانیہ کی زیرِ قیادت اراضی اور بحری افواج کو فضائی مدد فراہم کرنا شامل تھا جس سے برصغیر میں جاپانی فوج کی توسیع کرنے کی کوشش کی جاسکتی۔
 جب جنگ اپنے اختتام کو پہنچی تو اس وقت ‘آئی اے ایف’ تقریباً ایک دہائی پرانی تھی۔ جس کے اندر زیادہ تر برطانوی اہلکار تھے جبکہ کچھ ہندوستانی شہری بھی شامل تھے، جن میں مٹھی بھر مسلمان پائلٹ، انجینئر اور زمینی عملے بھی تھا۔ جاپانی یلغار کی شکست میں اس ‘آئی اے ایف’ کی شاندار شراکت کی بہت تعریف کی گئی اور نوآبادیاتی دور کے ایک اشارے میں اس کے نام میں “شاہی” کا اضافہ کیا گیا جس سے یہ ‘آر آئی اے ایف’ بن گیا۔
  دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانیہ، جنوبی ایشیائی لوگوں کی آزادی کے مطالبے کے خلاف مزاحمت کیلئے بہت کمزور پڑگیا تھا۔ پاکستان اور بھارت، دو خودمختار ریاستوں کے طور پر 14 اور 15 اگست 1947 ء کو وجود میں آئیں۔ وسائل کی تقسیم میں فوجی اثاثوں کا ایک بڑا حصہ بھارت کی طرف چلا گیا اور برصغیر کی نومولود مسلم ریاست کے خلاف بھارتی دشمنی کے باعث پاکستان کی فوج، بحریہ اور فضائیہ نے کم اور چھوٹے ہتھیار و دیگر ساز و سامان سے انکار کردیا جو کہ برصغیر چھوڑ جانے والی برطانوی حکومت نے پاکستان کیلئے مختص کیے تھے۔
  شاہی پاک فضائیہ پاکستان کے وجود میں آنے کے فورا بعد عمل میں آگئی۔ پاک فضائیہ کے پاس اس وقت 2332 کا عملہ اور اس کے علاوہ 24 ہاکر ٹیمپسٹ (Hawker Tempest) لڑاکا جہاز، 16 ہاکر ٹائیفون (Hawker Typhoon) لڑاکا جہاز، 2 ہیلیفیکس (Halifax) بمبار جہاز، 2 اسٹر (Auster) جہاز، 12 ہارورڈ (Harvard) مشقی جہاز اور 10 ٹائگر موتھ (Tiger Moth) عام جہاز۔ اس کے علاوہ اس کے پاس 8 ڈکوٹا (Dakota) جہاز بھی تھے جو بھارت کے خلاف 1948 کی جنگ میں فوجیوں کو میدان جنگ لے جانے کے ليے بھی استعمال ہوئے۔ اس کے 7 ہوائی اڈے بھی تھے جو پاکستان کے تمام صوبوں میں موجود تھے۔ شاہی پاک فضائیہ کا نام صرف پاک فضائیہ 23 مارچ 1956 کو رکھ لیا گیا۔
پاکستانی اور ہندوستانی فضائیہ کی جنگی استطاعت
تقسیم ہند کے وقت جس طرح دوسرے اثاثوں سے پاکستان کو محروم رکھا گیا، اسی طرح ہماری فضائیہ کو بھی اس کے حصّے کی افرادی قوّت اور طیارے نہیں دئیے گئے لیکن اس کے باوجود آج ہماری فضائیہ ہماری فضاؤں کی حفاظت کیلئے پوری طرح چوکس ہے۔ اس نے وسائل کی کمی کا مقابلہ اچھی تربیت سے کیا ہے۔آج ہم نہ صرف چھوٹے جہاز خود بنا رہے ہیں بلکہ دوست ملک چین کی مدد سے جے ایف 17 تھنڈر کی پیداوار بھی شروع ہوچکی ہے ۔
تقسیم ہند کے وقت پاکستانی اور ہندوستانی فضائیہ کے حالات
ائیرفورس کا نام اس وقت رائل ائیرفورس آف پاکستان تھا جس کی زبوں حالی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی کل افرادی قوّت 2232 افراد پر مشتمل تھی۔یہ مُٹھی بھر جوان اور افسر آج کی مضبوط پاک فضائیہ کے اصل معمار ہیں جنہوں نے نہ صرف پاک فضائیہ کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا بلکہ آج کے پائلٹس کوجدید ترین ایف سولہ اور جے ایف 17 تھنڈر طیارے اڑانے کیلئے مضبوط بنیاد بھی فراہم کی۔یہی لوگ قوم کے اصلی ہیروز ہیں جنہوں نے سرفراز رفیقی‘یونس‘ ایم ایم عالم‘ علاؤ الدین‘ راشد منہاس اور منیر جیسے بہادر پائلٹس کی کھیپ تیار کی۔ قیام پاکستان کے وقت ہماری فضائیہ کے پاس مختلف اقسام کے صرف 122 جہاز تھے جن میں 32 ڈکوٹاز‘ 35 ٹیمپیئس‘ 29 ہاورڈز‘ 16 ٹائیگرموتھ‘ 3 آسٹرفائیو اور سیون آسر چھ شامل تھے جنہیں کوہاٹ‘ چکلالہ اور رسالپور کے سٹیشن ہیڈ کوارٹرز میں تقسیم کیا گیا تھا۔اس وقت ہماری فضائیہ کے پاس صرف ایک فلائٹ سکواڈرن تھا۔
1965 کے وقت پاکستان اور ہندوستانی فضائیہ کی جنگی صلاحیت
1965 کی جنگ کے  وقت پاک فضائیہ کے پاس 148 ائیرکرافٹ تھے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کے پاس 532 فائٹر جیٹ تھے۔
پاکستانی اور ہندوستانی فضائیہ کی موجودہ جنگی اہلیت
بھارتی فضائیہ کو اپنے لڑاکا طیاروں کے لحاظ سے دنیا کی چوتھی بڑی فضائیہ مانا جاتا ہے۔ امریکی فضائیہ کے پاس 5 ہزار سے زائد، روس کے پاس 2244، چین کے پاس 2656 طیارے ہیں، جبکہ بھارت کے پاس 1600 کے لگ بھگ طیارے موجود ہیں۔
ڈان نیوز کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستانی اور ہندوستانی فضائیہ کی جنگی اہلیت مندرجہ ذیل ہیں
اس وقت بھارتی فضائیہ کے پاس 473 لڑاکا طیارے اور 135 اٹیک ایئر کرافٹ جبکہ نگرانی کے لیے مختلف نوعیت کے 13 طیارے ہیں۔ فضا میں ایندھن کی فراہمی کے لیے 6 فیول ٹینکر، 251 ٹرانسپورٹرز، 429 ہیلی کاپٹرز اور 429 تربیتی طیارے ہیں۔ اس پوری فضائیہ کو سنبھالنے کے لیے بھارتی فضائیہ نے بڑی افرادی قوت کو بھرتی کیا ہے۔ بھارت کی 7 ایئر کمانڈز اور 60 ایئر بیس آپریشن ہیں۔ اس کے علاوہ بھارتی بحریہ نے اپنے ایئر کرافٹ کیریئر کے لیے بھی الگ سے فارمیشن قائم کیے ہوئے ہیں۔
بی بی سی نیوز کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستانی اور ہندوستانی فضائیہ کی جنگی اہلیت مندرجہ ذیل ہیں
انڈیا کے پاس 2185 فضائی طیارے ہیں اور اس کے مقابلے میں پاکستان کے پاس 1281 طیارے ہیں۔
ان میں سے پاکستان کے پاس 320 اور انڈیا کہ پاس 590 لڑاکا طیارے ہیں جبکہ 804 انڈین اور 410 پاکستانی طیارے بمبار ہیں۔
انڈیا کے پاس 708 اور پاکستان کے پاس نقل و حمل کے 296 فضائی طیارے ہیں۔
پاکستان فضائیہ نے اپنے سے  5 گنا بڑی فضائیہ کا غرور ہمیشہ خاک میں ملایا ہے یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک کی فضائیہ کی اکیڈمیوں میں ہمارے پائلٹوں کی پرفارمنس ڈسکس کی جاتی اور اس سے سبق اخذ کئے جاتے ہیں
١٩٦۵ کی جنگ کا پس منظر
 دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ سے کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازعہ کا مسئلہ رہا ہے۔ ١٩٦۵ کی جنگ بھارت مقبوضہ کشمیر میں پاک فوج کے “آپریشن جبرالٹر” کے بعد پیش آئی۔
قائداعظم کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہا کرتے تھے اس کی ایک وجہ تھی  کہ کشمیر سے ہمارے سارے دریا نکلتے ہیں جو بھارت ڈیم بنا کر ان کے راستے بند کرنا چاہ رہا تھا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد بھی پاکستانی کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور جب بھارت کے اوپر دباؤ بڑھ گیا تو اس نےcease fire کا مطالبہ کیا۔ اس وقت پاکستانیوں کے پاس کشمیر کو حاصل کرنے کا اچھا موقع تھا لیکن ہماری اس وقت کی حکومت نے cease fire پر حامی بھرلی اور یوں کشمیر کو حاصل کرنے کا موقع ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ پاکستان کے قائم ہونے کے بعد امریکہ نے پاکستان کے آگے دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن پاکستان نے اس وقت سمجھداری سے کام لیتے ہوئے چین سے دوستی کرنا بہتر سمجھی۔ جب ١٩٦٢ میں چین اور انڈیا کی جنگ ہوئی تب بھی پاکستان کو کشمیر حاصل کرنے کا موقع ملا لیکن پاکستان نے وہ موقع بھی گواہ دیا۔ ١٩٦٣ میں پاکستان کے وزیرخارجہ بھٹو اور بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ کے درمیان کشمیر کے لےُ مذاکرات ہوئے اور بھارت کی طرف سے کشمیر کو متنازعہ قرار دیا گیا۔ پاکستانی حکومت کو  غیرملکی آفیسرز کی طرف سے یہ یقین دلا دیا گیا کہ ہندوستان اس جنگ کو کشمیر تک محدود رکھے گا اور بین الاقوامی سرحد پار نہیں کرے گا۔ فوج نے اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کشمیر میں آپریشنز جاری رکھے۔ جب ہندوستان کے اوپر دباؤ بڑھ گیا تو بھارتی فوج نے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
تین ستمبر کو پاکستانی فوج نے ایک فوجی ڈاکیہ جو کشمیر سیکٹر سے سیالکوٹ سیکٹر ڈاک لے کر جا رہا تھا اسے پکڑا اور اس ڈاک میں بھارت کے لاہور اور سیالکوٹ پر حملے کا مکمل پلان لکھا ہوا تھا۔ لیکن ہماری حکومت نے اسے دشمن کی چال سمجھی اور نظرانداز کردیا۔ حکومت کی طرف سے لاہور میں کچھ کام شروع کردیا گیا لیکن سیالکوٹ میں اس حوالے سے کچھ تیاری نہ ہوئی۔
جاری  ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply