ووٹ ۔مرزا مدثر نواز

محمد سہیل کھیڑا اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہے جس نے تعلیم حاصل کرنے کا شوق پورا کرنے کے لیے کافی جدوجہد کی اور قربانیاں دیں۔ تعلقات بنانے اور محفل سجانے کا ماہر‘ زیادتی کلام میں خوشحال‘ انتہائی رقیق القلب اور درد دل رکھنے جیسی خوبیوں سے مالا مال ہے۔ سیاسی وابستگی کے لحاظ سے موصوف کی ہمدردیاں پی پی پی کے ساتھ ہیں۔ وجہ پوچھی جائے تو جواب ملتا ہے کہ ہمارا خاندان اور باپ دادا اسی جماعت کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے لہٰذا میں بھی اسی پارٹی کا حامی ہوں اور رہوں گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس پارٹی کا دامن تو بد عنوانی سے داغدار ہے‘ یہ صرف نعروں کی حد تک محدود ہے‘ اس کے دور حکومت میں کوئی میگا پراجیکٹ یا ترقی نظر نہیں آتی‘ شریک چیئرمین کی شہرت اچھی نہیں ہے‘ موجودہ چیئرمین میں ایسی کون سی خوبی یا صلاحیتیں ہیں جن کے بل بوتے پر وہ چیئرمین بن گیااور پارٹی کے بزرگ اور تجربہ کار سیاستدان اس کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں‘ چیئرمین نے خود کہا کہ ہاں ہم خاندانی سیاست کرتے ہیں‘ جمہوری پارٹیاں کیا خاندانی یا شخصی تسلط کے زیر سایہ کام کرتی ہیں‘ جمہوری پارٹیوں میں کیا نئے سربراہ کا انتخاب ولی عہد طرز پر ہوتا ہے‘ آپ ایک تعلیم یافتہ شخص ہیں لہٰذا اس پارٹی کو ووٹ دیتے وقت کون سے وژن یا مشن سے متاثر ہوئے‘ کیا تعلیم معاملات کو اپنے ذہن سے پرکھنا سکھاتی ہے یا پھر اندھی تقلید‘ بہت سارے کام ہیں جو آپ کے آباؤ اجداد کرتے تھے لیکن آپ نہیں کرتے؟ جواب ملتا ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں میں اس سے اتفاق کرتا ہوں ساری باتیں درست ہیں لیکن میری وابستگی اور ووٹ تِیر کا ہی ہے بس میں اور کچھ نہیں جانتا۔

خواجہ سرفراز احمد بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے جو وراثتی معاشی حالات کو شکست دینے میں مصروف عمل ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی بغض و عناد سے مبراء ہونا‘دل میں کوئی قدورت نہ رکھنا اور کسی سے ناراض نہ ہونا ہے۔ سیاسی بحث و مباحثہ میں گھنٹوں شرکت کرنے کے باوجود کبھی سر درد کی شکایت نہیں کرتا‘ اہم ترین کام چھوڑ دے گا لیکن اپنی پارٹی کی حمایت میں سیاسی بحث کا حصہ ضرور بنے گا۔ سیاسی وابستگی کے لحاظ سے خواجہ کی ہمدردیاں پی ایم ایل (ن) کے ساتھ ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس پارٹی پر بھی خاندانی قبضہ ہو چکا ہے اور شخصی غلامی واضح  ہے‘ ایک محترمہ کس حیثیت سے پارٹی کو کنٹرول کر رہی ہے‘ پارٹی سر براہ کا طریقہ انتخاب آمرانہ ہے‘ میگا پراجیکٹ صرف آئندہ ووٹوں کے حصول کو مد نظر رکھ کر شروع کیے جاتے ہیں‘ تعلیم‘ صحت اور روزگار سر فہرست ترجیحات میں شامل نہیں ‘ سابق وزیر اعظم سینٹ‘ قومی اسمبلی اور حتیٰ کہ وفاقی وزراء تک کو دیدار کا شرف نہیں بخشتے تھے اور ان کا انداز حکمرانی آمریت کا دوسرا رخ ہے

عہدے سے دست برداری کے بعد جس کو خیال آئے کہ ایسا نظام انصاف لے کر آئیں گے جو تین ماہ میں انصاف مہیا کرے‘ کیا ایسے بیان عوام کو بے وقوف بنانے اور سمجھنے کے مترادف نہیں ہیں‘ شخصی غلامی اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم اپنے آپ کو اس منصب پر قبول کرنے کو تیار نہیں اور بشمول کابینہ ایک ایسے شخص کے سامنے آداب بجا لاتا ہے جو پارٹی کا صدر بھی نہیں‘ کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں‘

جن لوگوں نے دور آمریت میں ماریں کھائیں لیکن وفادار رہے وہ اب اسی خاندان کے کسی محترم یا محترمہ کے آگے سر جھکائیں گے‘ تم پارٹی کی بجائے اس خاندان کے گن کیوں گاتے ہو‘ کیا تم ان کے غلام ہو‘ تمہارا مستقبل اور حالات اس یا کسی اور خاندان کی بے جا حمایت کرنے سے نہیں بدل سکتے وہ صرف تمہاری اپنی محنت سے ہی بدلیں گے‘ اتنا عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود انہوں نے عوام کو مثالی نظام پولیس‘ نظام انصاف اور نہ ہی نظام تعلیم دیااس کے باوجود آپ ان کے حمایتی اور ان کے لیے ووٹ کیوں مانگتے ہو؟ جواب ملتا ہے کہ آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن ووٹ شیر کا ہی ہے اور میاں کی کیا بات ہے ‘ میاں دے نعرے وجن دے‘ میں اس پارٹی کی حمایت تعصب کی وجہ سے کرتا ہوں میاں بھی کشمیری ہے اور میرا تعلق بھی کشمیر سے ہے۔

میرا ایک بہت ہی پیارا اور بچپن کا دوست جو کہ سکول ٹیچر ہے سیاستدانوں کا سخت مخالف اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا حامی ہے۔ اس کی نظر میں مملکت خداداد پاکستان کے تمام مسائل کا حل اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے اور تمام سیاست دان نالائق ہیں‘ غیر سیاسی عناصر کی ستر سالہ غلطیاں قابل معافی جبکہ سیاسی عناصر کی کوتاہیاں قابل گرفت ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ اور قائد اعظم ؒ نے ایک ایسے ملک کے حصول کے لیے کوشش کی تھی جسے جمہوری بنیادوں پر استوار کیا جا سکے اور جس کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف جمہوریت ہو‘ آمریت سے ملک آگے نہیں بلکہ پیچھے جاتے ہیں‘ آمریت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا دوسرا نام ہے‘ آئین کی رو سے ہر ادارے کا اپنا کردار ہے اور اسے دوسرے اداروں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے‘

ہر ادارے کو سویلین حکومت کے ماتحت رہ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہییں‘ فوج کا کام ملک کا دفاع اور سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ ایوان اقتدار میں بیٹھ کر لطف اندوز ہونااور اپنے ہی عوام پر ٹینک چڑھانا‘ ملکی نظم و نسق کی ذمہ داری صرف اور صرف سویلین اور عوام کی منتخب کر دہ حکومت پر عائد ہوتی ہے‘ یہ آمریت کی ہی برکتیں ہیں جن کی بدولت ہم نے کم و بیش ستر ہزار لوگوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھایا‘ آئین کی رو سے قانون کی نظر میں سب برابر ہیں لہٰذا کسی کو کسی ادارے کا حصہ ہونے یا ماضی میں رہنے کی بدولت احتساب سے بالاتر نہیں سمجھنا چاہیے۔ لیکن وہ غیر سیاسی عناصر کے بارے میں کچھ بھی غلط نہیں سننا چاہتا شاید اس کی وجہ عزیز و اقارب کا اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہونا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان تمام مشاہدات کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر یہ خیال ذہن میں ابھرتا ہے کہ تعلیم تو وسیع الذہنی اور ذہن کے بند دریچوں کو کھولنے کا ذریعہ ہوتی ہے‘ غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے کا درس دیتی ہے‘ ظلم کے خلاف جہاد اور مظلوموں کے شانہ بشانہ کھڑا ہو نے اور ان کی داد رسی کرنے کی ترغیب دیتی ہے‘ خاندانی رسوم و رواج کے شکنجے میں جھکڑے عوام کو آزادی کا پیغام دیتی ہے اور ان رسوم و رواج سے بغاوت سکھاتی ہے‘ طرز کہن پر اڑنے سے منع اور آئین نوع سے نہ ڈرنا کا کہتی ہے‘ عصبیت اور انا کے چھپے اور نہ نظر آنے والے بتوں کو پاش پاش کر کے رکھ دیتی ہے‘ خاندانی اور شخصی غلامی سے نجات دلاتی ہے‘ اپنے حقوق کی خاطر جان دینے کی طرف مائل کرتی ہے‘ صرف ایک معبود برحق کا ہونے اور اس کا ڈر دل میں بٹھاتی ہے‘ غیر جانبدارانہ سوچ کے پھلنے پھولنے کا ذریعہ بنتی ہے‘ رکنے پر کوہ گراں اور چلنے پر جاں سے گزر جانے کا کہتی ہے‘ باپ دادا کے باطل عقائد سے بیزاری پیدا کرتی ہے لیکن کیا عملی زندگی اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے؟

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply