مٹی کی محبت میں۔۔۔۔۔علی عمر عمیر

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم دونوں ہونٹوں کو زور سے بھینچ کر “بو” کی اونچی آواز نکالا کرتے جو اپنی مخصوص ہیئت میں “بررررررروو” کی آواز بن جاتی تھی۔ یا پھر “پو” کی آواز، جو ہونٹ بھنچے ہونے کی صورت میں ” پرررررروو” بن کر نکلتی۔

ان دنوں ہمارے گاؤں سے شہر کے لیے ایک ہی بس ملتی تھی جو دن میں دو مرتبہ گزرتی، گاؤں پہنچنے سے پہلے اس کے ہارن کی آواز آ جاتی تھی، وہ ہارن نہیں سائرن ہوا کرتا تھا۔۔ یا اگر کبھی ہارن خراب ہوتا تو انجن کی آواز سے گزارا چل جاتا تھا۔ اردگرد کے گرائِیں ہارن یا انجن کی آواز سن کر اپنی اپنی بوریاں کندھوں کا بوجھ بنائے بھاگے چلے آتے۔

مائیاں اپنے سروں پر گٹھڑیاں رکھے تیز تیز چلتی آتِیں، ساتھ ساتھ آوازیں دیتی رہتِیں “اَوّے! رُکِیں کلینڈرا! میکوں گِھدی ونجِیں”(اوئے رکنا کلینڈر! مجھے لیتے جانا)۔ بچے رومالوں میں اپنی چیزیں بھر کر ان کی گٹھڑیاں بنائے کندھے پر لیے ایسے بھاگتے نظر آتے جیسے میمنے گھاس کی طرف بھاگتے ہیں، اچھل کود بھاگ دوڑ میں بیچارے ماں بکری سے آگے نکل جاتے ہیں پھر رک جاتے ہیں اور مُڑ مُڑ کر دیکھتے ہیں، ماں بکری نیڑے پہنچی نہیں کہ پھر سے اچھل بھاگ پڑتے ہیں۔

آج کے دور میں ویسی بس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ویسی بس سروس کا۔ پانچ کلومیٹر کے بعد والے گاؤں میں پندرہ منٹ کا سٹاپ، دس کلومیٹر کے بعد والے چوک ‘مہرپور’ میں اعلان کر دیا جاتا  “سواریاں لہہ ونجِن، گڈی دا انجن ٹھڈا تھیسی، ول ٹرسُوں” پھر کلینڈر بس کا ٹاپا کھولتا، انجن پر پانی پھینکتا، “سڑڑڑڑرڑرڑ” کی اونچی آواز آتی اور وہ جلدی سے ٹاپا بند کر دیتا، آدھے منٹ بعد پھر ٹاپا کھولتا، پرانی مشق دوہراتا، دسیوں مرتبہ کے اور بیسیوں منٹوں کے بعد انجن ٹھنڈا ہو گیا ہوتا۔

تب شہر کی طرف وہ بیس کلومیٹر کا سفر دو سے تین گھنٹے کے درمیان میں جا مکمل ہوتا۔ بچوں کو گود میں بٹھایا جاتا تھا، بزرگوں کو سیٹوں پر، عورتوں کو ٹاپے پر۔۔۔ بہت سی عورتیں بس کے فرنٹ والے حصے میں کھڑی رہا کرتی تھیں۔ جبکہ لڑکے بالے یا نوجوان چھتوں پر ہوا کرتے تھے۔

اُس وقت کی ایک اور بات بھی بڑی عجیب ہے، تب جوان لفظ کا مطلب بڑا مختلف تھا۔ چالیس سال کے بعد والے کو جوان کہا جاتا تھا۔ چالیس سال تک نوجوان نوجوان ہی رہتا تھا۔ پھر بال سفید ہونے شروع ہوتے، پھر اسے پنچائتوں میں بٹھانا شروع کیا جاتا، پھر اس کی رائے کو بلکہ خود اس کو اہمیت دی جاتی۔۔ ورنہ تو نوجوانوں کا اپنا الگ جہان ہوتا تھا۔ ان کی اپنی ٹولیاں ہوتی تھیں۔ نوجوانوں کی ٹولیاں۔

تب ان ٹولیوں میں لڑکیوں کے بارے میں باتیں نہیں کی جاتی تھیں کیوں کہ دس لڑکوں کی ٹولی کی خواہشیں دس لڑکیاں ہوتی تھیں جن میں سے ہر لڑکی انہی دس میں سے کسی ایک کی بہن وغیرہ ہوتی۔

ہم ان دنوں اپنی عمر کے خالہ زاد، ماموں زاد بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھیلا کرتے۔ ہمارے مقبول کھیلوں میں مٹی کے گھر بنانا اور انہیں سنوارنا شامل تھے۔ دو ہاتھوں کے درمیان مٹی کو سیدھا کر کے، دبا کر دیواریں بنائی جاتی تھیں، ان پر تیلیوں سے چھتیں گھڑی جاتِیں، کبھی ان تیلیوں کے نیچے شاپر رکھ کر ان چھتوں کو واٹر پروف بنا دیا جاتا۔

تب ہمارا کھیل ہی نہیں،ہم خود ہی سراپا مٹی ہوا کرتے، تب ہمیں مٹی سے عار محسوس نہیں ہوا کرتی تھی، ہم مٹی کھایا بھی کرتے، پہنا، اوڑھا بھی کرتے، مٹی کو بستر بھی کیا کرتے۔ ہم نے بچپن ماں کی گود سے زیادہ مٹی کے ٹھنڈے اور شفیق لمس کے حصار میں گزارا۔۔

مٹی نے ہمیں تخلیقات سکھائیں، گارے سے ہم گدھے، گھوڑے، بھینسیں اور گائیں بنایا کرتے تھے۔۔ ہم مٹی پہ لکیریں کھینچ کھینچ کر لکھنا سیکھے ہیں، انگلیوں کی پوروں سے سیکھی گئی خطاطی نے ہمارے پین، پینسل آباد کیے ہیں۔ مٹی کی ڈھیریوں نے ہمارے اذہان میں ذوق کی قلمیں گاڑھیں۔ ہم نے مٹی کو لباس کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم مٹی کی خوشبوؤں میں پلے، مٹی کی حرمت سے آشنا بچے۔۔ جنہیں بچپن میں سکھایا جاتا تھا کہ زمین پر زور سے پاؤں نہ مارو، زمین ماں ہے، زمین زندہ ہے، زمین کو تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ آج ہم کنکریٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔

Facebook Comments

علی عمر عمیر
اردو شاعر، نثر نگار، تجزیہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply