قرآن وسنت اور وحدتِ امت ـ۔قاری حنیف ڈار/قسط1

قرآن و سنت تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے یہ کسی خاص و مخصوص و فرقے کی ملکیت نہیں ہے ، اس میں کسی شیعہ اور سنی بریلوی اور دیوبندی ، سلفی و حنفی کی کوئی تقسیم نہیں ہے، یہ ایک ایسا تالاب ہے جس سے ہر مسلمان نے آبِ حیات پینا ہے ، رفاہ عامہ کی چیز وقف للہ ہوتی ہے کسی خاص کے نام رجسٹرڈ نہیں ہوتی ،اسی طرح دین پر کسی گروپ کا قبضہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا ، سنت کی تعبیر میں فرق ہو سکتا ہے ،مگر نیتوں پر حملے اور جنت میں اپنی ڈیفنس ہاؤسنگ اسکیمیں اور بحریہ ٹاؤنز نہیں بنا سکتے۔

بچے بارہ بھی ہوں تو ماں اور باپ سب کے مشترکہ ہوتے ہیں ، کسی ایک بچے کو رجسٹرڈ کر کے نہیں دیے جا سکتے ، بچوں کو والدین کے بعض معاملات پر تحفظات بھی ہو سکتے ہیں اور والدین کو بھی ہر بچے سے کچھ نہ کچھ مسئلے ہو سکتے ہیں مگر اس کا مطلب بارہ بچوں کا بارہ فرقوں میں تبدیل ہو جانا نہیں ہوتا ، بچہ نیک ہو یا بد ، گورا ہو یا کالا ،امیر ہو یا غریب ، والدین کی خدمت کم کرے یا زیادہ یا بالکل نہ کرے مگر اس کے شناختی کارڈ سے اس کے باپ کا نام مٹایا نہیں جا سکتا۔
کچھ لوگوں نے حدیث کو فرقے میں تبدیل کر کے خود اس کے مالک و محافظ ہونے کا خود ساختہ دعوی کر رکھا ہے ، جس کی منظوری نہ قرآن سے لی گئی ہے نہ سنت سے ،نہ اللہ سے اور نہ رسول سے ۔

جو ترتیب اللہ نے خاندان کی بنائی ہے اس کو الٹا نہیں جا سکتا، باپ ، ماں اور اولاد ، قرآن ، سنت اور مسلمان ، اللہ ، رسول اور ان پر ایمان لانے والے ،بس یہی ایک تقسیم قرآن مانتا ھے ، حدیث کے نام پر منکر قرآن بننا کوئی ضروری نہیں اور حدیث کے ضعف و قوت ،صحت و سقم پر بات چلے تو پلٹ کر ملحدین سے بھی سخت حملہ قرآن پر کرنے کا کوئی ثواب قرآن و سنت میں نہیں پایا جاتا ، قرآن نے نبئ کریم ﷺ کو رسول ﷺ ، آپ کے قول کو حدیث اور آپ ﷺ کے عمل کو سنت بنایا ہے ، خود نبی ﷺ کا ایمان وعقیدہ بھی قرآن ہی دیتا ہے ،ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان ولکن جعلناہ نورا، ووجدک ضآلاً فھدی ، قرآن کی مخالفت خود رسول ﷺ کو بھی روا نہیں کجا یہ کہ کسی فرقے کو اس کی اجازت دے دی جائے کہ وہ قرآن پر حملہ آور ہو۔اس کے ماننے والوں پر یوں طنز کرے گویا وہ قرآن پر چل کر گناہ کبیرہ کر رہے ہیں، قرآن بھرا پڑا ہے اس واضح حکم کے ساتھ کہ ” قل انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یومٍ عظیم ،( وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاء نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ-( یونس -15) میں قرآن بدلنے نہیں عمل کرنے آیا ہوں ، اس کی مخالفت کروں تو خود مجھے عظیم عذاب کا سامنا کرنے کا خدشہ ہے ، پھر کسی کو اجازت کیسے دی جا سکتی ہے کہ اپنے فرقے کا سہانا سا نام رکھ کر قرآن کی مخالفت پر کمربستہ ہو جائے اور کہے کہ وہ قرآن لاؤ جو ہمارے مسلک کی حدیث کے سامنے ہتھیار ڈال دیا کرے ۔

ان کی مسلمانی اس وقت کہاں ہوتی ہے جب وہ حدیث کی صحت پر اٹھے سوال کا جواب اس اعتراض کے ساتھ دیتے ہیں کہ ” قرآن کو اللہ کا کلام ثابت کر کے دکھاؤ ”
جنابِ عالی قرآن پر ایمان ، ایمان بالغیب ہے ، حدیث پر ایمان، ایمان بالغیب نہیں ہے ، اسی وجہ سے قرآن کے پہلے قال قال قال قال ، حدثنا ، ثنا ، اخبرنا کی کوئی لائن نہیں ، جس نے ماننا ہے الم سے مانے اور من الجنۃ والناس تک مانے ایک حرف پر بھی شک کرے گا ، سیدھا اسلام سے باہر ہو گا ، البتہ حدیثوں کے ایک ایک حرف پر شک ہو گا کہ یہ راوی کے الفاظ ہیں یا رسول اللہ ﷺ کے ؟
حدیث میں قولِ رسول کہاں ختم ہوا ہے اور راوی کی رائے کہاں سے شروع ہوئی ہے ، پھر جملے کے جملے آگے پیچھے ہوتے ہیں ، اس لیے احادیث کو روایت بالمعنی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے قول کو ہر راوی نے اپنے الفاظ دیے ہیں اور جیسا سمجھا ہے ویسے الفاظ دیے ہیں ۔
چناچہ حدیث قرآن کا فیصلہ نہیں کرے گی،اس کا فیصلہ نہ صرف ہو چکا ہے بلکہ وہ خود قولِ فیصل ہے ، وہ خود میزان ہے وہ خود کھوٹے اور کھرے میں فرق کرنے والا فرقان ہے ، قرآن ہی حدیث کا فیصلہ کرے گا ، جو اس سے ٹکرائے گی رد کر دی جائے گی ، اس کسوٹی پر رگڑ کر کھوٹی قرار دی جائے گی ، کوئی راوی قرآن پر لادا نہیں جا سکتا ،چاہے وہ ہوا میں اڑتا ہو یا پانی پر چلتا ہو ، تاویل قرآن کے حق میں کی جائے گی کیونکہ دین کی اصل وہ ہے ، کوئی تاویل قرآن کے خلاف اور حدیث کو اس پر فوقیت دینے کے لیے نہیں کی جائے،
قرآن و سنت تمام مسلمانوں کی مشترکہ وراثت ہے، اور قرآن تمام انسانیت کی طرف اللہ کا پیغام اور دعوت کا منہج و نصاب ہے۔

نماز دین کا ستون ھے ، اور امت کی وحدت کا مظہر ہے ، اعمال میں یہی وہ عمل ہے جو سب سے پہلے زیرِ بحث آئے گا جبکہ جنایات میں قتل کے فیصلے سب سے پہلے کیے جائیں گے ، نبئ کریم ﷺ سے تسلسل اور تواتر سے ثابت ہونے والا یہ عمل پوری امت سے پوری امت کو منتقل ہوا ہے ، جس طرح پورا قرآن پوری امت سے پوری امت کو منتقل ہوا ہے ، نبئ کریم ﷺ دن میں پانچ بار پبلک میں اس عمل کو ادا فرمایا کرتے تھے اورصحابہؓ کو حکم تھا کہ وہ نبی کریم ﷺ کو ہی دیکھ کر نماز سیکھیں ،چاہے کوئی نووارد مدینے میں آ کر مسلمان ہوتا وہ بھی پہلا عمل جو نبئ کریم ﷺ سے دیکھتا وہ نماز ہی ہوتا اور آپ کو دیکھ کر وہ جو پہلا عمل کرتا وہ نماز ہی ہوتا ،صحابہؓ سارے اس بات کے مکلف تھے کہ وہ نبئ کریم ﷺ کو دیکھ کر نماز پڑھیں نہ کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ۔

ہزاروں نہیں لاکھوں آنکھوں نے نبئ کریم ﷺ کو یہ عمل کرتے دیکھا اور سالہا سال دیکھا ، اس کو عمل سے یاد کیا اور اپنی اولاد اور آنے والی نسل کو عمل سے ہی سکھایا،فقہاءِ کرام اور محدثین عظام کے دور کی ہر نماز رسول اللہ ﷺ ہی کی نماز ہے اور یوں پوری امت ہی کی نماز ہے کسی خاص فرقے کی نماز نہیں ، اس کا مسلکی یا فقہی اختلاف سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ نماز اجہتاد کا موضوع ہی نہیں ہے اور نہ فقیہہ کو اس سے کوئی لینا دینا یہ کسی فقیہہ تک بھی اسی ذریعے سے پہنچی ہے جس ذریعے سے عام امتی کو پہنچی ہے، اماموں نے بھی نماز امت سے سیکھی ہے نہ کہ امت نے نماز اماموں سے لی ہے۔

نماز سے متعلق جتنی بھی روایات آئی ہیں وہ نبئ کریم ﷺ کی ہی نماز کی مختلف شکلیں ہیں جو امت کو تواتر سے منتقل ہوئی ہیں ، ان میں سے کوئی بھی اعلی و ادنی نہیں ، ان میں سے کوئی بھی ناسخ و منسوخ نہیں ، کوئی بھی راجح اور مرجوح نہیں ،یہ شاملات کی طرح نبئ کریم ﷺ کی ہی ہے ،اس کی پلاٹنگ کر کے مختلف اماموں کے نام بانٹ دینا کسی صورت بھی محمود نہیں بلکہ ایک متفق چیز کو متنازع بنانے والی بات ہے ، آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جب کوئی جگہ سرکار کی ہو تو اس کا حوالہ بس اتنا ہوتا ہے کہ یہ سرکاری زمین ہے ، اور بحث ختم ہو جاتی ہے ، بحث اور مقدمے وہاں سے شروع ہوتے ہیں جب وہ جگہ افراد کے نام منتقل ہوتی ہے پھر آپس میں مقدمے بازیاں ہوتی ہیں اور دعوے پیش کیے جاتے ہیں ،،صحابہؓ اور تابعین کے دور تک کتنی نسلوں میں یہ نماز غیر متنازعہ طور پر جاری و ساری رہی اور نماز میں مختلف صورتیں اختیار کرنے کے باوجود صحابہ ایک ہی مسجد میں ایک ہی امام کے پیچھے نماز ادا فرماتے رہے اور کسی نزاع کا شکار نہ ہوئے ۔

فقہاء نے جب مرورِ زمانہ کے ساتھ مختلف امور کو مدون کرنا شروع کیا تو نماز کو بھی اپنا موضوع بنا لیا ،یوں نماز کی رجسٹریشن اور کلاسیفیکیشن شروع ہوئی ، پھر اپنی اپنی نماز کو قوی اور دوسرے کی نماز کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے میدان سجنے لگے ، نماز سے محبت امام کی محبت کے تابع ہو گئی ، مجھے میری نماز اس لیے پسند یے کہ یہ میرے امام کی نماز” نمازِ حنفی ” ہے اور دوسرے کی نماز اس درجہ مبغوض ہوئی کہ اس کو دیکھ کر میری تیوریاں چڑھ جاتی ہیں یہاں تک کہ دوسرے طریقے کو مسجد سے نکال کر ہی سکھ کا سانس لیا ،آج مسلمانوں میں سب سے زیادہ تنازع کا سبب بننے والی چیز ہی نماز ہے جبکہ یہی نماز تواتر میں سب سے زیادہ ثابت بھی ہے ، نبی کریم ﷺ کی ادا کردہ نماز کے کسی طریقے سے بھی نفرت کرنا ، اس کا تمسخر اڑانا ، اس کی توہین کرنا ، اس پر لطیفے بنانا ، اللہ پاک کے غضب کو بھڑکانے والی بات ہے جس کی وجہ سے خود ایمان پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے ، منافقین کی انہی حرکات کی وجہ سے اللہ پاک نے ان کو کافر قرار دیا تھا ،، قل أباللہ و آیاتہ و رسولہ کنتم تستہزءون ،، کہہ دیجئے کہ کیا اللہ ، اس کی آیات اور اس کا رسول ﷺ ھی تمہیں ٹھٹھے اور مذاق کے لیے دستیاب ہوئے ہیں ؟

نماز کے فرائض یا ارکان متفق علیہ ہیں ، نیت ہے ، تکبیر تحریمہ ہے ، قیام ہے ،قرات ہے ،رکوع ہے ،سجدے ہیں قومہ اور قعدہ ہے ،تکبیرات، انتقال ہیں اور التحیات ہے ، چند ایسی چیزیں جو نبئ کریم ﷺ نے اس کے علاوہ کیں وہ آپ خود ہی جانتے تھے کہ کیوں کیں ، مگر ان میں سے کوئی بھی منسوخ نہیں آپ آخر تک وہ کرتے رہے ،اس کو منسوخ کہنے والوں کی دلیل قوی نہیں ، آپ نے جو حرکت بھی کی آخر تک کی ، رفع یدین آخر تک چلتا رہا ، آمین بالجحر بھی چلتی رہی ،کبھی دھیمی ہوتی تو کبھی زیادہ بلند ہو جاتی ، آپ ﷺ کے وصال تک ہر نماز میں کچھ نہ کچھ نئے لوگ شامل ہوتے ،وفود کے وفود مسلمان ہوتے اور نماز میں کھڑے ہو جاتے اللہ کے رسول ﷺ ان کو نماز سکھانے کے لیے بعض چیزوں کو ان کی تعلیم کے لیے کرتے ،اور صحابہؓ یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ نبئ کریم ﷺ نے آج آمین زیادہ بلند کیوں کی ہے ،کیونکہ آج کے وفد کو یہ سکھانا مقصود ہے کہ ولا الضالین کے بعد آمین کہنا ہے ، اور یہ اس لیے نہیں کہنا کہ صحابہؓ سے سنا ہے ، بلکہ اس آمین کو اسی طرح محمد رسول ﷺ سے سن کر کہنا ہے جس طرح ابوبکر صدیقؓ نے سن کر آمین کہنا سیکھا ہے، آپ ﷺ نے اس پر اکتفاء نہیں فرمایا کہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کو سن کر یا دیکھ کر آنے والا نماز سیکھ کر چلا جائے اور قبیلے میں جا کر کہے کہ میں نے ابوبکرؓ کو بلند آواز سے آمین کرتے سنا ہے یا رفع یدین کرتے دیکھا ہے –

اگر کوئی بہرہ ہے تو وہ رفع یدین سے سمجھ جاتا تھا کہ اللہ اکبر کہہ دیا گیا ہے اور اگر کوئی اندھا تھا تو اس نے تکبیر کی آواز کو سن کر اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کی اور ارکان میں تکبیر کے ساتھ منتقل ہوتا رہا، ہر حرکت کا کوئی سبب ہوتا ہے مگر پھر وہ سبب اس حرکت کی علت نہیں رہتا بلکہ اللہ اور رسول ﷺ کا حکم اس کی علت بن جاتا ہے ، کوئی کسی سبب یا حکمت کے عدم سے اس فعل کو اب منسوخ نہیں کر سکتا ،، مثلاً حضرت ہاجرہ علیہا السلام کا صفہ مروہ اسماعیل کی حفاظت اور مدد کے اضطرار کے لیے بھاگ دوڑ تھا یعنی سعی تھا ، مگر وہ حج و عمرے کا رکن ہے تو اس کی علت اور سبب ہاجرہ علیہا السلام والا نہیں ہے بلکہ اللہ کا حکم اس کی علت ہے ، اور اگر علت ختم ہو جانے کے باوجود اللہ پاک مجرد حضرت ہاجرہ کی ادا سے محبت کی خاطر اس دوڑ کو قیامت تک حج کا رکن بنا دیتا ہے تو محمد رسول اللہﷺ نے جس علت یا سبب کی وجہ سے بھی نماز میں کوئی حرکت کی اللہ پاک قیامت تک کے لیے محفوظ بنا دیا اور اب محمد رسول اللہ ﷺ کی ادا کے طور پر امت کے مختلف لوگوں کے ذریعے زندہ رہے گی ، کچھ لوگ ایک ادا کو زندہ رکھے ہوئے ہیں تو کچھ دوسری ادا کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ،مگر سارے طریقے محبت کا تقاضہ کرتے ہیں نہ کہ مسلکی تعصب میں الجھ کر نفرت کا محور بن جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنہوں نے بھی ٹریفک سگنل کا اجراء کیا تھا ، اس کا سبب یہ تھا کہ ایکسیڈنٹ سے بچا جائے ، نیز ہر طرف کی گاڑیوں کو برابر وقت دیا جائے اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو ،یہ حکمت تھی ٹریفک سگنلز کے پیچھے ، مگر ریڈ اشارے پر رکنا اور گرین اشارے پر چلنا ہمارے لیے حکمت کے تابع نہیں بلکہ حکومت کے قانون کے تابع ہے ، ہمارا رکنے اور چلنے کی علت حکومت کا قانون ہے نہ کہ اس قانون کی حکمت ہے ،مثلاً میں رات تین بجے دیکھتا ہوں کہ میرے والا اشارہ تو سرخ ہے ،مگر میرے سوا دور دور تک کوئی گاڑی نہیں لہذا اس قانون کی حکمت یعنی ایکسیڈنٹ سے بچاؤ اور تمام گاڑیوں کو برابر کا موقع دینا دونوں موجود نہیں ہیں ، میں سرخ سگنل نکل بھی جاؤں تو بھی نہ تو کسی کی حق تلفی ہو گی اور نہ ایکسیڈنٹ ہو گا ، چنانچہ میں سرخ سگنل جمپ کر جاتا ہوں ، اور دور کوئی موٹر سائیکل پہ چھپ کر دیکھنے والا ٹریفک وارڈن مجھے روک لیتا ہے تو وہ لازم میرا چالان کرے گا ، میری اس بحث سے اسے کوئی مطلب نہیں کہ اس قانون کی حکمت کیا تھی، حکمت کی تلاش اس وارڈن کا اختیار نہیں ہے بلکہ اس کو اختیار قانون نے الاٹ کیا جس کی بنیاد پر وہ میرا محاسبہ کر رہا ہے-

Facebook Comments

قاری حنیف ڈار
قاری محمد حنیف ڈار امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply