گوگی گارڈن۔ایک پریم کتھا(4)۔۔۔۔ڈاکٹر کاشف رضا

اسٹوڈنٹس ویک کا تیسرا دن تھا۔ طیبہ پچھلے سال اسٹوڈنٹ ویک پر  نہیں آئی تھی۔ اس بار وہ اپنے حنان کی خاطر آئی تھی۔ وہ اپنی دوست انعم کے ساتھ پیچھے والی نشستوں پر بیٹھ کر حنان کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ ابھی ساڑھے سات بجے تھے۔ طیبہ آج بالکل ایک نرم ونازک گڑیا کی طرح لگ رہی تھی۔ اس کے آنے سے اسمبلی ہال مہک اٹھا تھا۔ طیبہ اتنا چمک رہی تھی کہ انتظامیہ سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ لائٹس آف کردی جائیں ۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی مصنوعی روشنی کی ضرورت بھی نہ تھی !

طیبہ نے نقاب کیا ہوا تھا۔ اس کی صرف گول سیاہ آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ پورا اسمبلی ہال اس کی آنکھوں کے نشے میں ڈوبا ہوا تھا۔ سبھی لوگ اپنی  گردنیں پیچھے موڑ موڑ کر انہی آنکھوں کا دیدار کر رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے باتوں میں ان آنکھوں کا تذکرہ کر رہے تھے۔ طیبہ کی آنکھوں نے پورے اسمبلی ہال کو سحر زدہ کر دیا تھا۔ فائنل ائیر سمیت فرسٹ ایئر تک سبھی فریفتہ نظر آرہے تھے۔ طیبہ کے ساتھ بیٹھی انعم کو حسد محسوس ہو رہا تھا۔

8 بجنے والے تھے ۔ طیبہ بار بار اپنے موبائل پہ ٹائم دیکھ رہی تھی ۔ اسے اپنے شہزادے کا انتظار تھا۔ حنان ابھی تک نہیں آیا تھا۔ طیبہ کی نظریں اسمبلی ہال کے اگلے دروازے پر ٹکی ہوئی تھیں۔

آخر وہ حسین لمحہ آ ہی گیا۔ حنان سامنے سے نمودار ہوا۔ اسمبلی ہال میں ہر طرف نور کی گھٹا چھا گئی۔ حنان کی آمد سے سماں سا بندھ گیا۔ طیبہ مسکرا اٹھی۔ اس کا شہزادہ آن پہنچا تھا۔ مگر یہ دیکھ کر طیبہ کو شدید دھچکا لگا کہ حنان نے آج پھندنوں والی ٹوپی نہیں پہنی تھی۔ اسے مایوسی ہوئی۔

حنان ایک معصوم فرشتے کی طرح چلتے ہوئے آ رہا تھا۔ اس نے طیبہ کو آنکھوں ہی آنکھوں میں سلام کیا۔ اور جاکر بوائز سائیڈ پے اس کے برابر والی لائن میں بیٹھ کیا۔ طیبہ کا چہرہ کھِل اٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو چکی تھی۔انتظامیہ نے مصنوعی روشنیاں مدہم کر دی تھیں !

طیبہ کا دل کر رہا تھا کہ وہ فوراً اٹھ کر حنان کے ساتھ جا بیٹھے۔ لیکن حنان ایک شرمیلا فرشتہ تھا۔ طیبہ اور حنان ایک دوسرے کو ٹیکسٹ کرنے لگے۔ حنان اس کی آنکھوں کی تعریف کر رہا تھا۔ طیبہ اس کے بالوں اور درمیان سے نکالی گئی مانگ کی تعریف کر رہی تھی۔ دونوں کن انکھیوں سےایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

مہمان شعرا کلام پڑھنے لگے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ سب حنان اور طیبہ کو دیکھ کر شعر بنا کر کہہ رہے ہوں۔ طیبہ کو شاعری سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ وہ تو بس اپنے حنان کا دیدار کرنے آئی تھی۔ حب بھی کوئی اچھا شعر ادا ہوتا، حنان کھڑا ہوکر داد دیتا تھا اور بیٹھتے ہوئے طیبہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیتا تھا۔ طیبہ کو ایسے لگتا تھا جیسے حنان شعر پر نہیں بلکہ اس کی سیاہ گول موتیوں جیسی آنکھوں کی داد دے رہا ہے۔

10 بجے کے قریب حنان نے طیبہ کو اپنی نورانی آنکھوں سے اشارہ کیا۔ وہ دونوں اسمبلی ہال سے باہر آگئے۔ باہر Grand Studio والے وکِی بھائی تصاویر بنا رہے تھے۔ حنان اور طیبہ بھی تصویر بنانے کے لیے رک گئے۔ پہلے طیبہ نے تصویریں بنوائیں۔ پھر حنان تصویریں بنوانے کے لیے سیدھا ہوا۔ اس نے ایک تصویر بنائی۔ پھر اس نے دوسری تصویر بننے سے پہلے وکِِی بھائی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ اس نے اپنی جیب سے کچھ نکالا اور اسے گلے میں لٹکا لیا۔ طیبہ نے غور سے دیکھا۔ حنان گلے میں Organizer کارڈ پہنے کھڑا تھا۔ یہ دیکھ کر طیبہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اسے  اپنے حنان پر فخر محسوس ہو رہا تھا۔

حنان نے یہ کارڈ اپنے جاننے والے فائنل ائیر کے سینئرز سے مستعار لیا تھا۔ اب وہ سینہ چوڑا کر کے، سرخ نتھنوں کے ساتھ تصویریں بنوا رہا تھا۔ طیبہ خوشی برداشت نہ کر سکی اور بے ہوشی سے بچنے کے لیے نیچے بیٹھ گئی۔ طیبہ بار بار حنان کے گلے میں لٹکے کارڈ کو دیکھ رہی تھی۔وہ خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔

اس کا دل کر رہاتھا وہ بھی یہی کارڈ پہن کے تصویر بنوائے۔ حنان نے اس کی یہ خواہش پہچان لی۔ اس نے فوراً کارڈ طیبہ کے گلے میں ڈال دیا۔ کارڈ پہنتے ہی طیبہ کا قد خود بخود 4 انچ بڑھ گیا۔ اس نے خوشی خوشی تصویریں بنوائیں۔ اس کا دل کر رہا تھا حنان کے ساتھ تصویریں بنوائے مگر حنان شرعی اصولوں کا پابند تھا۔ اس نے باقی 4 گرل فرینڈز کے ساتھ بھی کبھی تصویر نہیں بنوائی تھا۔ ایسا نیک سیرت تھا وہ !

وہ دونوں نشر پوائنٹ گئے، وہا ں سے Milo جوس لیا اور چلنے لگے۔ اچانک طیبہ کو کچھ یاد آیا:

“حنان ! آج آپ نے وہ پھندنوں والی ٹوپی نہیں پہنی؟”

حنان مسکرانے لگا۔ اس نے اپنی بائیں جیب میں ہاتھ ڈالا، پھندنوں والی ٹوپی نکالی اور سر پے سجا  لی۔ طیبہ جھوم اٹھی تھی۔ وہ دونوں باہر جانے کے لیے گیٹ نمبر 4 کی   طرف بڑھنے لگے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر کاشف رضا
کاشف رضا نشتر میڈیکل یونیورسٹی سے ابھرتے ہوئے نوجوان لکھاری ہیں۔ وہ اپنی شستہ زبان،عام فہم موضوعات اور انوکھے جملوں سے تحریر میں بے پایاں اثر رکھتے ہیں۔ان کی تحریریں خصوصاً نئی نسل میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply