• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مذہب، سائنس، اور موجود جدید دنیا میں مسلمانوں کی ناکامی کی وجوہات/منصور ندیم

مذہب، سائنس، اور موجود جدید دنیا میں مسلمانوں کی ناکامی کی وجوہات/منصور ندیم

مذہب و سائنس کے تقابل ہمارے آج کل کے مشاغل میں شامل ہے، پچھلی ایک صدیوں میں اسلامک اسکالرز کی ایک کھیپ ایسی نکلی جو ہر سائنسی ترقی کو قرآن سے ثابت کرنے پر تل گئی، جس کا نتیجہ اکثر ان کی پیش کردہ مذہبی تعبیرات کے خلاف نکلتا رہا، قریب عشرے میں یہ پریکٹس اس نکتے پر منتج کی گئی کہ مذہب اور سائنس دو علیحیدہ پیرا ڈائم ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور مبحث یہ بھی رہا کہ ایک فکری حلقہ مسلمان سائنسدانوں کے کارنامے یا دنیا میں ہر علوم کی بنیاد کو مسلمان سائنسدانوں سے ربط کرتا ہے( جو سچ بھی ہے)، مگر اس کے بعد اس کے بعد کچھ کہنے کے لئے نہیں رہتا، ماسوائے وہ یہ کہے کہ خلافت آ جائے تو ہم دوبارہ کامیاب ہوجاییں گے یا شاید اسلام کی نشاتہ ثلاثہ کا انتظار یا پھر کسی مھدی و مسیحا کا انتظار ہمیں دوبارہ ترقی کی جانب لے چلے گا۔ اس کے مخالف ایک اور طبقہ آپ کو یہ بتائے گا کہ مسلمانوں نے ہر عہد میں سائنسی علماء کو تذلیل کیا اور انہیں مار دیا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ایسے تمام علماء جنہوں نے سائنسی علوم میں کام کیا تمام ایسے ہی ذلیل نہیں ہوئے، ہاں ایسا بھی ضرور ہوا ہے، مگر اس کی وجوہات ترقی یا سائنس سے نفرت نہیں بلکہ ایسے تمام علماء اس وقت دربار سے متصل ہوتے تھے ان کو وظائف ملتے تھے اور عمومی طور پر ان کا محلاتی سازشوں یا کسی سلطان کے ساتھ اچھا ربط ہوتا تھا تختہ الٹنے کے بعد عموما وہ انہی کے سیاسی حمایتی سمجھے جاتے تھے جس کا وہ شکار ہوتے تھے یا پھر محلاتی سازشوں میں اپنی امراء کے اختلافات کی وجہ سے ایسی تکلیف دہ صورتحال میں پھنس جاتے تھے۔ ہم سائنس، ٹیکنالوجی، طب یا کسی بھی شعبے کے تعلمی اداروں کے علاوہ مذہبی تعلیمی اداروں یعنی مذہبی مدارس سے بھی کوئی قابل قدر خدمات نہیں۔ لگاسکتے، اور نہ ہی ان دونوں سے کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ اس کو مزید سمجھنے کے لئے مجھے ہر معاملے کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے۔
مشہور عرب مورخ اور مصنف ابن خلدون نے کہا تھا کہ
“سائنس صرف امیر معاشروں میں پروان چڑھتی ہے”۔
یہ کتنی بڑی سچائی ہے، کہ تاریخ نے بارہا ہمیں دکھایا ہے کہ کسی بھی سماج میں سائنس یا علمی ترقی صرف اسی وقت پروان چڑھی جب کوئی سلطنت یا کوئی قوم طاقتور بنی، اور معاشی طور پر اتنی مستحکم ہوئی تب ہی ان کی معاشی طاقت کی وجہ سے فراہم کردہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے ان کے ہاں علمی یا سائنسی کام ہو سکے، ساتویں صدی عیسوی میں اسلام جزیرہ نما عرب کے صحرا سے نمودار ہوا، جس نے قدیم مصری، فارسی، رومی، اور قریبی مشرقی سلطنتوں کو فتح کیا۔ بارہویں صدی میں یہ ایک شاندار تہذیب اور ایک عظیم سائنسی، فلسفیانہ اور فنی ثقافت کا مرکز بن گیا۔ اس کی زبان عربی تھی، لیکن اس نے اپنی ثقافت کو یونان، روم، یہودیت، عیسائیت، کے ورثے میں جذب بھی کیا اور شامل کیا۔
طب قرون وسطیٰ کی اسلامی ثقافت کا مرکزی حصہ تھی۔ مسلمانوں نے اسلامی طب یونانی اور رومی طبیبوں اور اسکالرز کے پیچھے چھوڑے گئے ورثے پر استوار کی تھی، اسلامی اسکالرز نے یونانی سے عربی میں اپنی بڑی تصانیف کا ترجمہ کیا اور پھر ان تحریروں کی بنیاد پر طبی علوم کی نئی تخلیق کی۔ یونانی روایت کو زیادہ قابل رسائی، قابل فہم اور قابل تعلیم بنانے کے لیے، اسلامی اسکالرز نے انسائیکلوپیڈیا اور خلاصے لکھ کر وسیع اور بعض اوقات متضاد یونانی، رومن طبی علم کو مزید منظم کیا۔ یونانی طب کے بارے میں سیکھا، بشمول ہپوکریٹس اور جالنیوس کے کام کو لیا، یورپ نے بھی اپنی ترقی کی ابتداء میں ان کے ابتدائی جدید اسکالرز نے قرون وسطیٰ سے اپنے طبی کاموں کی بنیاد کے طور پر اسلامی روایات اور تراجم کو اپنایا۔ مثال کے طور پر کینن آف میڈیسن (ایک انسائیکلوپیڈیا آف میڈیسن جو کہ پانچ کتابوں میں ہے، جس میں اس وقت کے تمام طبی علم کا واضح اور منظم خلاصہ پیش کیا گیا ہے) ابن سینا (مغرب میں ایویسینا) کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور پھر اسے مخطوطہ کو پھیلایا گیا اور چھاپا گیا۔ یورپ بھر میں صرف پندرہویں اور سولہویں صدی کے دوران “کینن آف میڈیسن” 35 سے زیادہ مرتبہ شائع ہوا۔ یہ قرون وسطی کی سب سے بااثر طبی کتاب ہے۔ ابن سینا کے علاوہ دوسرے عرب اسلامی معالجین جنہوں نے طبی علم میں اپنا حصہ ڈالا اور مغرب میں طبی سوچ کو متاثر کیا، ان میں الرازی (رازس)، ابن نفیس اور الزراوی تھے۔
بعض مورخین سائنس آٹھویں سے سولہویں صدی کے عرصے کو “اسلامی سنہری دور” کہتے ہیں۔ جب کہ یورپ کا باقی حصہ اس وقت تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور تعلیم جمود کا شکار تھی، اس دور میں مسلم دنیا میں سائنسی سرگرمیاں غیر معمولی تھیں۔ کچھ اسکالرز ان علمی کاموں کو “عرب سائنس” کی اصطلاح کہتے ہیں، کیونکہ زیادہ تر دستاویزات عربی میں لکھی گئی تھیں، جو اس خطے کی زبان تھی۔ تاہم تمام سائنسدان عرب نہیں تھے اور تمام مسلمان بھی نہیں تھے۔ اس وقت علم کے اہم مراکز بغداد، دمشق، قاہرہ اور بعد میں قرطبہ، سپین تھے۔ ان شہروں میں علمی ادارے اور اسکول تیار ہوئے اور ان کا عملہ اعلیٰ درجے کے اسکالرز پر مشتمل تھا جو معلومات اکٹھا کرنے اور نئے مکاتب فکر کی ترقی کے لیے وقف تھے۔ انہوں نے قدیم علوم کو شوق سے نہ صرف پڑھا، بلکہ ہضم کیا، جانچا اور سوال کی میزان پر پرکھنا، وہاں تعلیمی ہسپتال، لائبریریاں اور رصد گاہیں بھی تھیں۔ ان اداروں کی ایک خصوصیت پولی میتھس ( حکیم یا حکیموں ) کا ظہور تھا، یعنی ایسے علماء جنہوں نے مختلف شعبوں کی ایک بڑی تعداد میں کام کیا۔ الرازی، ابن سینا اور ابن النفیس کثیر الثانی تھے۔ انہوں نے وسیع اور متنوع شعبوں پر لکھا جس میں فزیالوجی، میڈیسن، آپتھلمولوجی، ایمبریالوجی، سائیکالوجی، فلسفہ، قانون اور الہیات شامل تھے۔ اسلامی تہذیب کے سب سے اہم سائنسدان پولی میتھس رہے ہیں اور علوم کی ترسیل میں ان کا کردار مرکزی تھا۔ ایسے حکیم اکثر شاعر اور ادیب تھے، طب کے ساتھ ساتھ فلکیات اور ریاضی میں بھی ماہر تھے۔ یہ کثیر الصلاحیت لوگ، اسلامی سائنس کی مرکزی شخصیات نے علوم کی وحدت کی وضاحت اور شناخت کی۔ انہوں نے اپنی بصیرت کے ذریعے سائنسی ترقی کی درجہ بندی کی، اور اپنی ریسرچ میں بھی کمال حاصل کیا۔
آٹھویں عیسوی صدی سے سولہویں صدی تک دنیا کی اس وقت کی ترقی میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات حیران کن تھیں۔ لیکن سولہویں صدی کے بعد اسلامک دنیا سیاسی اور معاشی زوال کا باعث بنی، جس کی وجہ سے بہت سے اسلامی ممالک میں غربت پھیل گئی۔ صلیبی جنگیں، منگول حملے، قدرتی آفات، بین الاقوامی تجارت کے نقصان، سلطنت عثمانیہ کا مغربی مفادات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، اور یورپی سامراج کا عروج، اسلامی یا عرب دنیا سے علوم کی ترقی کے زوال کا دور بن گیا۔ اس میں ایک سب سے اہم بات اس سارے اسلامک دنیا کی ترقی کا ایک بڑا حصہ تخصیص کے ساتھ عرب مسلمان سائنس دانوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اسے اب آپ کچھ بھی کہیں لیکن نشاتہ ثانیہ کے اس اسلامی سنہری دور کو عرب فکری سطح پر عجمیوں کے ساتھ بانٹنے کے لیے بہرحال تیار نہیں ہیں۔ ان مسلم سائنس دانوں کی دریافتیں اور کارنامے واقعی حیران کر دینے والے ہیں، اور حیرت کی بات ہے کہ تاریخ کے اس دور میں عرب سائنس کیوں پروان چڑھی۔ عربوں کے نزدیک اسلامی عقیدے کے مثبت اثرات جو سیکھنے اور علم کو پروان چڑھاتے ہیں، اور اس کو آزادانہ تحقیقات اور عقلی سائنسی سوچ کے کلچر کو پروان چڑھانے میں بہت معاون ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ آج کی جدید دنیا کے واقعات کو دیکھتے ہوئے، یہ سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے کہ علم اور عقل اسلامی طرز زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن اسلامی عقیدہ اس دنیا اور الٰہیات کو سمجھنے کے لیے دونوں کو بہت اہم سمجھتا ہے۔ لیکن یہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہے جب ہم خصوصا بر صغیر مذہبی اذہان کے لیے بات کرتے ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں آج کے تینوں بڑے مکتبہ فکر دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سمیت دوسرے مکاتب فکر بھی عقائد کو عصری علوم یا سائنس کے متقابل ہی کھڑا کرتے ہیں اور اس کی مثال تینوں مکاتب فکر کے اکابرین کی ڈیڈھ سو سالہ تعلیمات یہی سمجھاتی ہیں، اور ماضی سے آج تک کی ان کی زندگیوں کے اقوال اور افعال سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
ہمارے موجود برصغیری مذہبی اذہان کے مقابل عرب دنیا نے جب اسلامی سنہری ادوار میں ان برصغیری مذہبی اذہان کی طرح رجعت پسندی و تعصب سے بہت آگے نکل کر دوسری اقوام کے علم کو قبول کیا، اور اسے آگے بڑھایا، جیسے ہندو عددی نظام سے دنیا میں صفر اور اعشاریہ کا تعارف کروایا، چین، ہندوستان، مصر اور یونان کے قدیم علماء کے کام کا ترجمہ اور سمجھنا، تعلیمی اداروں کا قیام جن میں مساجد، مدارس، تدریسی ہسپتال، اور ہاؤس آف وزڈم، خاص طور پر بغداد میں ہاؤس آف وزڈم جو یونانی سائنسی کاموں کے عربی میں ترجمے کا مرکز بنایا، سائنس، طب اور فلسفے کے لیے خلفاء کی مضبوط حمایت۔ بغداد کے خلیفہ المامون نے، جس نے بغداد میں ایوانِ حکمت کی بنیاد رکھی، نے بازنطینی شہنشاہ کو خط لکھ کر بازنطین میں ذخیرہ شدہ اور خزانہ شدہ پرانے سائنسی نسخوں کا انتخاب حاصل کرنے کی اجازت طلب کی۔ جب شہنشاہ نے رضامندی ظاہر کی تو المامون نے متعدد علماء کو بھیجا جنہوں نے ان کتابوں میں سے کتابیں منتخب کیں، جو انہیں ملیں اور انہیں مامون کے پاس واپس لایا، جس نے انہیں کتابوں کا ترجمہ کرنے کا حکم دیا۔ گیلن اور ہپوکریٹس کے طبی کاموں کا پہلا عربی ترجمہ بغداد کے معمار دوسرے عباسی خلیفہ المنصور کے سرکاری مترجم نے کیا تھا۔ ان سے طب میں دلچسپی پیدا ہوئی، اس وقت اسلامی معاشرے میں اہل علم کے ساتھ عزت و احترام کا برتاؤ کیا جاتا تھا، پوری اسلامی دنیا میں معاشرے کی تمام سطحوں پر عربی زبان کا عالمی استعمال ممکن ہوا، اسلامی دنیا کے اپنے عروج پر وسیع پیمانے پر مختلف ثقافتوں کے لوگوں کے درمیان خیالات کے تبادلے اور انضمام کی حوصلہ افزائی کی۔ اپنے عروج پر، اسلامی دنیا مغرب میں اسپین سے مشرق میں چین اور ہندوستان، جنوب کی طرف افریقہ اور شمال کی طرف مشرقی یورپ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس ضمن میں برٹرینڈ رسل، (برطانوی فلسفی، ریاضی دان، مورخ، اور سماجی نقاد) جیسے مؤرخین کا روایتی نقطہ نظر یہ ہے کہ “اسلامی سائنس، اگرچہ بہت سے تکنیکی طریقوں سے قابل تعریف ہے، مگر اس میں جدت کے لیے درکار فکری توانائی کی کمی تھی، تاہم دیگر مورخین اس کے برعکس نظریہ رکھتے ہیں کہ قرون وسطی کے دوران ایک مسلم سائنسی انقلاب برپا ہوا تھا ۔
یہاں تک تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ قرون وسطی کے دوران ایک مسلم سائنسی انقلاب آیا۔ اس عرصے کے دوران، مسلمان سائنسدانوں نے پرواز کے اصول دریافت کیے، نظریۂ نظر کی وضاحت کی، مثلثیات کی ابتدا کی، مقداری کیمسٹری کا آغاز کیا، اور کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھانا شروع کیا، اور ساتھ ہی طب میں بے شمار دریافتیں کیںجن میں زیادہ تر عرب طبیب رہے اور اسپین نے فلکیات، زراعت، نباتیات، طب اور سرجری کے شعبوں میں نمایاں شراکت کی۔ اپنی تہذیب کے سنہری دور میں مسلمانوں کی کامیابیاں اور اسپین کے راستے یورپ تک ان کی ترسیل مغربی یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی ذمہ دار تھی۔ عرب مورخ فلپ کے ہیٹی نے اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربز میں بھی لکھا ہے:
“مسلم اسپین نے قرون وسطیٰ کے یورپ کی تاریخ میں ایک روشن باب لکھا۔”
لیکن ہہ آخری قریب 400 سالہ ادوار مکمل طور پر مسلمانوں میں زوال کا دور رہا ہے، قریب دنوں میں مشرق وسطی کے کچھ ملکوں میں پیٹرول نکلنے کے بعد وہاں پر معاشی ترقی کے بعد سعودی عرب اور امارات جیسی ریاستوں نے بہرحال کچھ ایسے فیصلے کیے ہیں جن کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں معاشی طور پر ہی نہیں بلکہ یہ ممالک موجود دنیا کی سائنسی اور علمی ترقی میں بھی چمکیں گے اور وہاں اس میں دلچسپی بڑھ رہی ہے، اس کے مقابل برصغیر خصوصا پاکستان کے علماء کا علمی میدان بہت دلچسپ ہے، اب چاہے وہ علوم کی جامعات کے پرویز ہود بھائی ہوں، بلا شبہ فزکس کے میدان میں انہوں نے جامع تھیسز بین الاقوامی دنیا میں اپنے آپ کو منوایا لیکن اس کے باوجود ان کا سارا ارتکاز مذہبی مباحث پر نظر آتا ہے، مدارس سے نکلنے والے مذہبی علماء کی کھیپ تو بیماریوں کا علاج وظائف اور ٹوٹکوں سے بہترین کر سکتے ہیں، عربی زبان سے ہمارے ہاں صرف نصابی مدارس کی کتب کے تراجم کے علاوہ کسی بھی قسم کی اور موجود عربی میں لکھے جانے والے فنون کا ترجمہ بالکل نہیں ہوتا، مدارس کے فضلاء جنہیں عوامی رسائی حاصل ہوتی ہے، ان کے رحجان تقوی اور ایمانیات کا ناپ تول ہوتا ہے، ہمارے ہاں مفتی تقی عثمانی جیسے لوگوں کو بھی علم کا بے کراں سمندر مانا جاتا ہے، حالانکہ مخصوص مذہبی ڈومین میں بھی ان کی علمی حیثیت کسی بھی بین الاقوامی فورم پر کچھ بھی نہیں ہے نہ ہی ان کا کوئی علمی میدان میں کوئی ایسا کارنامہ ہے جس سے مانا جائے ما سوائے کہ آپ ان کا تقوی ناپ سکتے ہیں، جو شاید ان کے معتقدین کی نظر میں میزان میں ہم جیسے عاصیوں سے بہتر ہوگا۔ باقی احمد رضا بریلوی سے لے کر دیوبندی علماء کی علمی کتابوں میں بھی سائنسی رد انتہائی مضحکہ خیز حوالوں سے موجود ہیں، اشرف علی تھانوی کی خواتین کی تعلیم پر علمی آراء کے علاوہ بالمجموع مسلکی مناظرے، مجادلے کے بعد کا علمی سفر استنجا کے طریقوں، بیوی سے مباشرت کے طریقوں، چھپکلی مارنے کا ثواب، کدو کے فضائل تک ہی موجود ہے، کچھ نئے اقسام کی ایک اور مذہبی مخلوق تخلیق ہوئی ہے، جو الحاد سے لے کر موجود دنیا کی سوشل سائنسز کے مضامین پر عجیب و غریب مناقشے کرتے ہیں، ان میں سے کچھ اور بھی سمجھدار ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی دکانیں کھولی ہوئی ہیں، یہ سب لوگ اصلا ایک عام مسلمان کو مذہب سے بدزن کر دیتے ہیں اور ان کے الحاد کے سفر میں نادانستہ طور پر معاون ہوتے ہیں، کچھ اصلاح کار توبہ و نصائح بیچتے ہیں، اور کچھ مذہبی ٹائم مینجمنٹ کورسز کی دیہاڑیاں لگانے والے ہیں۔ بہرحال آج کی دنیا میں سائنسی علمی حتی کہ مذہبی طور پر بھی اپنے آپ کو منوانے کا میدان تبھی میسر آئے گا جب آپ معاشی طور پر بہتر حالت میں ہوں گے۔ اس ملک میں نہ ہی یونیورسٹیز اس قابل ہیں نہ ہی مدارس اس قابل ہیں کہ وہ کوئی قابل ذکر انسان پیدا کرسکیں، جو علم کے میدان میں دنیا کو یہ دکھا سکیں کہ ہم بھی جدید علوم اور فنون میں دنیا کی کسی طور رہنمائی کر سکتے ہیں۔
نوٹ :
1- میں نے مضمون میں ایک اصطلاح “پولی میتھس” استعمال کی ہے، کبھی مسلمانوں میں پولی میتھس شخصیات پیدا ہوتی تھی، جو ایک ہی شخص مختلف علوم پر اس عہد میں اتھارٹی کی حیثیت رکھتا تھا، قریب صدیوں میں مسلمانوں نے ایسے پولی میتھس پیدا نہیں کیے لیکن مغرب نے قریب صدیوں میں ایسی بیسیوں پولی میتھس شخصیات پیدا کی ہیں۔
2 ۔ یہ پوسٹ میں نے ہمہ جہت پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر لکھی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنی اس کوشش میں کس درجے کامیاب رہا میں نے یہاں بہت سارے مختلف سوالوں کو ایک ہی جگہ جمع کر کے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
3 – اصولا یہ پوسٹ دونوں طبقات جو مذہب پر عامیانہ تنقید کرتے ہیں اور وہ مزہبی اذہان جو اپنی حالات کے ادراک سے بے خبر اپنے اکابرین کی مالا جبتے ہیں، دونوں کے لیے ہی لکھی ہے۔ پاکستان میں کم ازکم دونوں ہی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔
4- مضمون کے لئے امریکی نیشنل یونیورسٹی کی لائبریری کی ویب سائٹ سے مدد لی گئی ہے۔
تحریر: منصور ندیم
مورخہ 9 دسمبر سنہء 2023.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply