اہل غزہ کی مظلومیت دنیا بھر کے انسانوں کو آواز دے رہی ہے کہ اگر انسانیت کے دعویٰ میں سچے ہو تو ہماری مدد کرو۔ یہ مظلومیت ظالموں کو بے نقاب کر رہی ہے کہ تم جن انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہو، تم اس میں جھوٹے ہو، یہ دراصل تمہارے مفادات کے نعرے ہیں۔ تم جس بین الاقوامی قانون کی بات کرتے ہو، ذرا دیکھو غزہ جل رہا ہے، سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ اسرائیلی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ پورے پورے خاندان اجڑ چکے ہیں اور یتیم بچوں سے بستیاں بھر رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان ہسپتالوں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے، جہاں یہ مقہور لوگ پناہ گزین ہوتے ہیں۔ مگر دنیا کا کوئی ادارہ ان کی آواز سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ نام نہاد مہذب دنیا کی آنکھوں کا تارا بنا اسرائیل کسی بین الاقوامی قاعدہ قانون کا پابند نہیں رہا۔ حد تو یہ ہے کہ قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ اسرائیلی قید سے رہا ہو کر فلسطین پہنچے ہیں، ان کی روئیدادوں نے اسرائیل کا سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔
فلسطینی قیدیوں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ کچھ گارڈز نے ہتھکڑی لگے قیدیوں پر پیشاب کیا۔ ایک رہا ہونے والے قیدی محمد نزل نے بتایا کہ وہ اپنے کتوں کے ساتھ اندر آئے، انھوں نے کتوں کو ہم پر حملہ آور ہونے دیا اور پھر ہمیں مارنا شروع کر دیا۔ جس کتے نے مجھ پر حملہ کیا، اس نے بہت تیز دھاروں والی تھوتھنی (مُزل) پہنی ہوئی تھی۔ اس کی تھوتھنی اور پنجوں نے میرے پورے جسم پر نشان چھوڑ دیئے۔ یہ انسانیت سوز مظالم سامنے آنے کے بعد بھی کوئی اسرائیل کی مذمت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر اس کام کا عشر عشیر بھی روس، چین یا ایران میں ہوا ہوتا تو بین الاقوامی پابندیوں کا پھندہ لٹک رہا ہوتا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور اس طرح کے دیگر بندوبست صرف مغرب مخالفوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہیں۔
اپنی جنگ مظلوم کو خود ہی لڑنی ہے، کوئی مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ طاقت ہی وہ زبان ہے، جو ظالم کی سمجھ میں آتی ہے۔ جب تک دشمن کو تکلیف نہ پہنچے، اسے آپ کی تکلیف سمجھ میں نہیں آتی۔ اہل فلسطین نے مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں، جس میں اہل فلسطین غزہ میں اسرائیلی کیمپ کے بالکل قریب سے ویڈیوز بنا رہے ہیں اور اس کے بعد انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اہل فلسطین کے ایک دن کی کارروائیاں ملاحظہ ہوں، آج صبح سے، ہمارے جنگجو غزہ میں دراندازی کے تمام محاذوں پر قابض افواج کے ساتھ پرتشدد جھڑپوں میں مصروف ہیں۔ ہم نے صرف خان یونس اور بیت لاہیا کے لڑائی والے علاقوں میں 23 فوجی گاڑیوں کی کل یا جزوی تباہی کو شمار کیا اور القسام کے سنائپرز نے 6 فوجیوں کو ہلاک اور زخمی کیا۔
ہم نے ایک گھر کو دھماکے سے اڑا دیا، جس میں ایک خصوصی فورس کو بیرل بم سے اڑایا گیا تھا اور ہم نے ایک اور فورس کو بھی نشانہ بنایا، جس میں اینٹی پرسنل بم نصب کئے ہوئے تھے۔ ہم نے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹمز اور مارٹر گولوں سے فوجی مراکز پر بمباری کی اور مختلف اہداف اور مختلف حدود کے ساتھ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں شدید میزائل بیراجوں (لہر) کے ذریعے دشمن کو قوی نقصان پہنچایا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ اسرائیل کے لیے ایک خوفناک صورت اختیار کرچکی ہے۔ اب اسرائیلی قیادت تک اس کی گرمی پہنچ رہی ہے۔ کسی قوم کی آزادی کے لیے یہ بنیادی بات ہے کہ قابض قوت خوفزدہ ہو جائے۔ آپ نے دیکھا کہ پانچ دن جنگ اس لیے رکی رہی، کیونکہ اسرائیل پر پریشر کا ایک بٹن اہل فلسطین کے ہاتھ میں تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوٹیریس نے پہلی بار اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کے نفاذ کی درخواست کی ہے، جس میں انہیں “کسی بھی معاملے کو سلامتی کونسل کی توجہ دلانے کی اجازت دی گئی ہے، جس سے ان کی رائے میں بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ اختیار اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو ملنا بہت مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک امکان موجود ہے کہ اسرائیل کو کہیں مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے امریکہ اسرائیل کو امکانی خطرے سے بھی بچانا چاہتا ہے۔ دنیا کے آزاد انسان دیکھ رہے ہیں اور دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار مغرب اور امریکہ اس قدر بے نقاب ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں اہلسنت مسالک نے کنونشن سنٹر میں اہل فلسطین سے یکجہتی کے لیے ایک پروگرام کیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی صاحب نے کہا: آج حماس کے جانبازوں نے ہمیں موقع فراہم کیا ہے آزادی کا، حریت کا، اگر سارا عالم اسلام اکٹھا ہو کر انکا ساتھ دے اور دفاعی پالیسی بنائے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ امریکہ، برطانیہ اور تمام طاقتیں ہمارا کچھ نہیں کرسکتیں۔ خدائی امریکہ کے پاس ہرگز نہیں ہے، خدائی اللہ کے پاس ہے۔ ہم پیٹ پر پتھر باندھیں گے۔ بموں کا سامنا کریں گے، گولیاں برداشت کریں گے۔ مسلمان ممالک کیلئے مسجد اقصیٰ کو آزاد کروانے کیلیے تاریخ میں اس سے بہتر وقت نہیں ہوسکتا، جب ہم ہمت اور حوصلے سے کام لیکر درست فیصلہ کریں، اگر آج درست فیصلہ نہ کیا تو صدیوں تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے قومی کانفرنس کنونشن سنٹر اسلام آباد میں امت مسلمہ کو جہاد کیلئے تیار رہنے کا حکم دے دیا۔ بڑی مدت کے بعد پاکستان میں اہلسنت کی مقتدرہ قیادت کی طرف سے اہل فلسطین کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں