بچوں کا جنسی استحصال اور اس کا سدِباب۔۔راجہ محمد احسان

بچوں کے جنسی استحصال کی ہر معاشرہ مذمت کرتا ہے۔ ہر کوئی بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف بولنے کے لئے تیار ہے اور بچوں کے خلاف اس غیر انسانی سلوک کو روکنے کے لئے سخت ترین سزاؤں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس مجرمانہ فعل کے خلاف اتنی نفرت کے باوجود ، اب بھی لاکھوں بچے جنسی زیادتی کے اس گھناؤنے جرم کا شکار ہو رہے ہیں، جس سے ان کی پوری زندگی متاثر ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ والدین کی جانب سے بچوں کے تحفظ کے لئے کوئی خاص انتظامات و اقدامات نہیں کیے گئے ،اور اگر کچھ حفاظتی تدابیر اختیار کی بھی گئی  ہیں، تو وہ ناکافی ہیں اور ایسے واقعات میں کمی لانے میں ناکام ہیں۔ یقیناً قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بچوں کی حفاظت کے ذمہ داروں ( والدین، تعلیمی اداروں کے اساتذہ، پارک انتظامیہ اور پڑوسی وغیرہ) کی طرف سے دکھائی جانے والی لاپرواہی قابلِ مذمت ہے۔

اس جرم سے نپٹنے کے لئے سب سے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ جرم کرنے والے لوگ کون ہو سکتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاشرے میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک “اچھے لوگ” اور دوسرے ” بُرے لوگ” ،اور یہی سب سے بڑی غلطی ہے کیونکہ اچھے اور بُرے کے بیچ بھی بہت سے کردار اور رویے موجود ہوتے ہیں، جیسے کالے اور سفید کے درمیان بہت سے رنگ ہیں، بالکل اسی طرح ہر شخص پورے کا پورا اچھا نہیں ہوتا ،اور کوئی شخص پورے کا پورا بُرا نہیں ہوتا ،ایک اچھا استاد ضروری نہیں کہ اچھا باپ یا اچھا شوہر بھی ہو ،اور ایک نالائق طالبِ علم ضروری نہیں کہ نافرمان بیٹا بھی ہو۔ ہر انسان کے مختلف روپ ہیں ،اور ہر روپ میں اس کا ایک الگ رویہ بھی ہو سکتا ہے، ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی شخص کے ایک اچھے رویے یا کردار کی وجہ سے اس کے ہر روپ کو اچھا تصور کر لیتے ہیں اور اس وقت  صورتحال اور بھی گھمبیر رُخ اختیار کر لیتی ہے جب کسی شخص کے کسی روپ یا کردار میں تقدس و احترام بھی شامل ہو جائے، مثلاً استاد چاہے وہ دینی تعلیم کا ہو یا دنیاوی تعلیم کا یا کوئی پیر و مرشد یا وہ خونی رشتے جنھیں ہمارے معاشرے میں ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے جیسے چچا، ماموں، بڑا بھائی بہن ، دادا دادی وغیرہ، ان کا بچوں کی طرف جنسی میلان اس تقدس کی چادر میں چھپ جاتا ہے۔ اور بچوں کے جنسی استحصال میں زیادہ تر یہی لوگ ملوث ہوتے ہیں جو یا تو قریبی رشتے دار ہوتے ہیں یا وہ لوگ جن سے بچوں کا تعلق ہوتا ہے یا جنہیں بچے کسی نا کسی حوالے سے جانتے ہیں ، ان کا بچوں کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے یا کم از کم ایسا شخص جس کو بچے پر کچھ نہ کچھ اختیار ہوتا ہے یا جنہیں قابلِ اعتماد سمجھا جا سکتا ہے اور عام طور پر وہ مشکوک تصور نہیں کیے جاتے ۔جیسے استاد ، ہمسائے، رشتہ دار یا وہ دکاندار جس کے پاس بچے اکثر جاتے ہیں یا پھر ان کے اپنے ہم عمروں میں ان کے دوست وغیرہ۔

جو بچے جنسی استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں ان کے لیے اگلا مرحلہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ والدین کو کیسے بتائیں کہ ان کے ساتھ کسی قریبی رشتے دار نے یا کسی معزز شخصیت نے کیا کر دیا۔ اگر کبھی وہ اشاروں کنایوں میں بتانے کی کوشیش بھی کریں تو ان کی بات کو سنا  اَن سنا کر دیا جاتا ہے یا جھٹلا دیا جاتا ہے یا اس کی کوئی تاویل پیش کر دی جاتی ہے کہ وہ تو تم سے بہت پیار کرتا ہے اس لئے تمھیں بوسہ دے دیا ،وغیرہ وغیرہ اور اگر کوئی بچہ پوری بات صاف صاف لفظوں میں بتا بھی دے تو بدنامی کے ڈر سے اس واقعہ پر پردہ ڈال کر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے ۔ زیادہ تر بچے ایسی بات بتانے میں ناکام ہی رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بار بار جسمانی زیادتی کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو بچے جنسی زیادتی کا شکار ہو کر اس واقعہ کو بتانے میں ناکام رہتے ہیں وہ مختلف نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور اگر مجرم ان کا کوئی قریبی رشتے دار ہو تو ان کے دل سے رشتوں کا احترام ختم ہو جاتا ہے اور عموماً وہ بدتمیز اور چڑچڑے ہو جاتے ہیں یا پڑھائی میں عدم دلچسپی ظاہر کرنے لگتے ہیں یا سکول جانے سے گھبرانا یا کسی خاص شخص سے اجتناب کرنا یا خود سے بیزار ہونا وغیرہ ، والدین ان کے رویے کی اس تبدیلی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، بلکہ ڈانٹ ڈپٹ کر کے ان کو سدھارنے کی کوشیش کرتے ہیں جس سے وہ مزید نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں حالانکہ اس وقت انہیں خاص توجہ اور محبت کی ضرورت تھی اور انہی میں سے کچھ بچے بڑے ہو کر خود اس جرم کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں جو ان کے ساتھ بچپن میں ہوا تھا۔بچوں کے اچانک بدلتے رویے سے والدین کو چوکنا اور ہوشیار ہو جانا چاہیے اور اس بدلاؤ کی وجوہات کو کھوجنا بہت ضروری ہے۔

اس گھناؤنے جرم کی روک تھام کے لیے بالغوں کی تربیت کی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کو پُر اعتماد بنائیں کہ وہ اپنا ہر مسئلہ اپنے والدین کو آسانی سے بتا سکیں اور بچوں کی تربیت کی ضرورت بھی ہے کہ وہ بڑوں کے ساتھ ایک محفوظ فاصلہ اور حد کو ہر حال میں قائم رکھیں اور اگر کوئی اس حد سے تجاوز کرنے کی کوشش کرے تو انہیں کیا کرنا ہے اور کیسے فوری مدد کے لئے کسی کو بلانا ہے۔خاص طور پر انہیں اس تربیت کی ضرورت ہے کہ ان کے جسم کے وہ کون کون سے حصے ہیں جہاں کسی کو بھی ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی وہاں ہاتھ لگانے کی کوشش کرے تو انہیں کیسے ردِعمل کرنا ہے۔ ضروری نہیں کہ بچوں کو جسمانی تعلق سے ہی ورغلایا جائے بلکہ انہیں فحش گفتگو اور فحش تصاویر یا فلمیں دکھا کر بھی ورغلایا جا سکتا ہے اور ایسے جرائم کا شکار نہ صرف لڑکے ہوتے ہیں بلکہ لڑکیوں کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ بچوں کو بڑوں کی محفل سے دور رکھا جائے اور خاص طور پر جب وہ اکیلے ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہو گا اور دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ ایسے واقعات کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور معاملے کو رفع دفع کرانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں جس سےمجرم اپنے حتمی انجام تک نہیں پہنچ پاتا اور مزید کئی  بچے ایسے شخص سے خطرے میں چلے جاتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادروں کو اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے ، ایسے نفسیاتی مجرموں کے جیل میں جانے سے بہت سے بچے خودبخود محفوظ ہو جائیں گے، مزید یہ کہ ہر شخص کو  اپنے ارد گرد نظر رکھنا ہو گی اور اگر کوئی شخص بچوں کے ساتھ ایسی حرکت کرتا ہوا پایا جائے جو اسے نہیں کرنی چاہیے تو اس پر کڑی نگرانی کرنا ہو گی اور اپنے بچوں کو ایسے شخص سے دور رہنے کی تلقین کرنا ہو گی ، ایسی ہی احتیاطی تدابیر سے شیطانی مجرموں کی سرگرمیوں اور ان کی جرم کرنے کی اہلیت کو محدود کیا جا سکتا ہے ۔

Facebook Comments

راجہ محمد احسان
ہم ساده لوح زنده دل جذباتی سے انسان ہیں پیار کرتے ہیں آدمیت اور خدا کی خدائی سے،چھیڑتے ہیں نہ چھوڑتے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply