دنیا میں ہیلتھ سسٹم انتہائی منظم ہے پاکستان کی طرح وہاں ہر گلی کوچے میں ڈاکٹرز (عطائی ڈاکٹرز مراد نہیں) آزادنہ پریکٹس نہیں کرتے وہاں ہاسپٹلز اور ڈسپنسریز کا جال بچھا ہوا ہے یا سپیشلسٹ کلینکس ہوتے ہیں جن کی اپائنٹ منٹ کئی دنوں یا ہفتوں پہلے بک کی جاتی ہیں۔ یہی منظم سسٹم اس افراتفری (کرونا وائرس) کی صورت حال میں ترقی یافتہ ممالک کے لیے باعث زحمت بن گیا ہے ۔ ایک دم سیکنڑوں ہزاروں افراد کی یلغار نے کرونا کو جدید ہیلتھ سسٹم کے لیے چیلنج بنا دیا ہے ۔ اور کرونا وائرس کے عام سنگٹمز اور شدید سنٹگمز لیے دونوں افراد جب لمیٹڈ جگہوں پر علاج کے لیے پہنچے تو ڈاکٹرز شدید کو فوراً ترجیحا بنیادوں پر ٹریٹ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اور عام سنگٹمز والا مریض یہ صورت حال اپنے سامنے پا کر مزید panic ہو گیا ۔ جس کے اثرات آپ کو جا بجا نظر آرہے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں پاکستان کی تو یہاں کا کمزور ہیلتھ سسٹم (شاید) ہمارے لیے باعث رحمت بننے والا ہے کیونکہ مریضوں کی ایک بڑی تعداد گلی محلے میں موجود ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کے “متھے جا وجے گی” کچھ سرکاری ہسپتال اور ڈسپنسریز دیکھ لیں گی، باقیوں کو عطائی ۔ پیر ۔ فقیر ۔ دم کیے گئے پانی سے نمٹا دیں گے ۔ میرے اب تک کے مشاہدے اور ریسرچ کے مطابق کرونا آپ پر حملہ آور ضرور ہوتا ہے اسے کتنا منہ لگانا ہے اسے کتنا خود پر طاری کرنا ہے یہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ بنیادی طور پر نزلہ زکام کھانسی سردرد بخار اور پیٹ خراب ہونا اس کے اثرات ہیں جو کوئی بھی نارمل فرد آرام سے جھیل سکے گا کسی بڑی دوائی کی ضرورت اس کیس میں نہیں۔ لیکن اگر آپ نے احتیاط نہ کی تو سیکنڈ فیز شدید اور پھر شدید تر ہو کر ہاسپٹلز کو “چوک” کر سکتا ہے۔ میرے اس تجزیئے کا حاصل یہ ہے کہ کرونا تو پھیلے گا مگر اس کے ساتھ پاکستان میں panic بھی پھیلے گا اگر آپ نے panic پر قابو پا لیا تو آپ جیت گئے ۔ ورنہ صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں