جزیرے کا ماضی ۔ ایسٹر آئی لینڈ (5) ۔۔وہاراامباکر

آج ہمیں ایسٹر آئی لینڈ درختوں سے خالی اور حیران کن تعمیرات سے بھرا نظر آتا ہے۔ یہ کیسا ہوا کرتا تھا۔ اس کی کہانی کیا ہے۔ جزیرے کے ماضی کا کیسے معلوم کیا جائے؟ اس کے کئی طریقے ہیں۔ نباتات کی تاریخ جاننے کے لئے ایک طریقہ پولن کا تجزیہ (palynology) کا ہے۔ دلدل یا تالاب میں جمع تلچھٹ میں سوراخ کر کے اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اگر اس کو ہلایا نہیں گیا تو نیچے قدیم وقت کا ڈیپازٹ ہو گا اور بالائی تہوں میں وقت میں اس کی تبدیلی کا معلوم ہوتا جائے گا۔ ہر تہہ کی اپنی تاریخ کو ریڈیوکاربن ڈیٹنگ سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ یہ بہت ہی احتیاط اور بڑی محنت سے کیا جانے والا کام ہے۔ ایک کالم میں سے دسیوں ہزار زرِ گل کے دانوں کو مائیکروسکوپ کے نیچے رکھ کر تجزیہ کرنا، گننا، پودے کی نوع کی شناخت کرنا۔ ایسٹر آئی لینڈ کو جاننے کے لئے یہ کام سویڈن کے پیلینولوجسٹ اولوف سیلنگ نے کیا۔ رانو راراکو اور رانو کو کے گڑہوں سے 1955 میں جمع کردہ سیمپل پر۔ نامعلوم پام کے درخت کے پولن وافر مقدار میں مل گئے۔ ایسا درخت اب یہاں پر نہیں ہے۔

اس کے بعد 1977 اور 1983 میں کئی جگہوں سے مٹی اکٹھی کی گئی اور اس بار ایک غار کے مہم جو کچھ میوے ڈھونڈنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ اس درخت کی شناخت ہو گئی۔ یہ چلی وائن پام تھا۔ یہ درخت 65 فٹ اونچا ہوتا ہے اور اس کا تنا تین فٹ قطر کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہونے والے تجزیوں میں لاوا کے بہاوٗ میں اس درخت کی چند لاکھ سال پرانی باقیات بھی مل گئیں۔ اس کی جڑوں کے بنڈل مل گئے۔ ان سب سے پتا لگتا تھا کہ یہاں پر پام کے تنے کا قطر سات فٹ تک بھی تھا۔ یہ دنیا کا سب سے اونچا پام تھا۔ چلی کے باسی اس پام کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ایسٹ آئی لینڈ والے بھی یقیناً ایسا کرتے ہوں گے۔ اس کے تنے سے میٹھا رس نکلتا ہے جس سے مشروب بنایا جاتا ہے۔ اس کو ابال کر شہد اور چینی جیسا مادہ۔ اس کا میوہ بہت ہی لذیذ خوراک ہے۔ اس کے پتوں سے گھروں کے چھت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٹوکریاں، چٹایاں اور کشتی کے بادبان بنتے ہیں۔ اس کے تنے سے موائی کی ٹرانسپورٹ کی جاتی ہو گی۔ کشتیاں بنائی جاتی ہوں گی۔

فلینلے اور سارا کنگ نے سیڈیمنٹ کور کے تجزیے میں درختوں کی پانچ مزید انواع دریافت کیں جو اب ناپید ہیں۔ حالیہ برسوں میں فرانسیسی آرکیولوجسٹ کیتھرین اورلیاک نے یہاں کے تندور اور کچرے کے ڈھیروں میں سے جلی لکڑی کے تیس ہزار ذرات چھان کر اکٹھے کئے ہیں۔ ان کا آج کے 2300 پودوں سے موازنہ کیا گیا جو بحرالکاہل کے جزائر پر ہیں۔ اس سے 16 مزید انواع کا معلوم ہو گیا۔ ویسے درخت جو مشرقی پولیشیا میں عام ملتے ہیں، وہ اس جزیرے پر بھی تھے۔ ایسٹر آئی لینڈ درختوں کی متنوع انواع کا جنگل ہوا کرتا تھا۔

غائب ہونے والے درختوں کی اکیس انواع یہاں رہنے والوں کے لئے اہمیت رکھتی ہوں گی۔ سو فٹ اونچے الفیٹونیا ززیفوائیڈ اور پچاس فٹ اونچ ے الوکارپس راروٹنگنسس دوسرے جزائر میں کشتیاں بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور کشتی رانی کے لئے بہترین ہیں۔ رسی بنانے کے لئے ہوہو درخت کی چھال۔ شہتوت کی چھال جس سے لباس بنائے جا سکیں۔ سڈرکس اوڈراٹا جس کا لچکدار تنا ہارپون بنانے کے لئے بہگترین تھا۔ سزیگیم جس پر کھانے کے لئے سیب جیسا پھل اگتا تھا۔ تعمیر سے لے کر ایندھن تک مختلف طرح کی لکڑی۔ اس کے باقیات تجزیے میں ملتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زووآرکیولوجسٹ ڈیوڈ سٹیڈمین نے اناکینا کے ساحل میں کچرے سے جمع شدہ 6433 ہڈیوں کا تجزیہ کیا۔ پرندے اور فقاریہ جانوروں کا یہ تجزیہ بہت ہی زیادہ محنت طلب تھا۔ روبن کو فاختہ سے اور چوہے سے جدا کرنا اور انواع کی ڈائری بنانا آسان نہیں تھا لیکن اس سب سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ جزیرہ صرف ایک نہیں، چھ مختلف اقسام کے پرندوں کا گھر تھا۔ دو مرغ کی طرح کے، دو طوطے اور ایک الو اور ایک بگلے کی طرح کا۔ سمندری پرندوں کی پچیس الگ انواع تھیں۔ یہ شاید پورے بحراکاہل میں سب سے زیادہ تھیں۔ کسی شکاری پرندے کا نہ ہونا اور تنہائی کی وجہ سے ان کے بڑھنے کے لئے بہترین جگہ تھی۔ جب تک کہ انسان نہیں پہنچے تھے۔ چند ہڈیاں اود بلاوٗ کی بھی ملیں۔

ان سے یہاں رہنے والوں کے طرزِ زندگی اور خوراک کا پتا لگتا ہے۔ سب سے زیادہ ہڈیاں ڈولفن کی تھیں۔ ان کا وزن ستر کلوگرام سے زیادہ ہوتا تھا۔ تمام پولینیشیا میں اتنی بڑی تعداد میں یہ ہڈیاں کہیں نہیں ملیں۔ ڈولفن گہرے پانی میں ہوتی ہے۔ اس کو دور جا کر پکڑنا پڑتا ہو گا۔ بڑے درخت گرا کر بڑے کشتیاں اور ہارپون کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا تھا۔

مچھلیوں کی ہڈیاں بھی ملیں لیکن باقی جزائر کی نسبت ان کا تناسب کم تھا جس کی وجہ یہاں کے ساحل کی ساخت تھی۔ سمندری پرندوں اور زمینی پرندوں کی بہت سی ملیں۔ شاید پرندوں کا قورمہ بنا کر کھایا جاتا رہا ہو۔ اور چوہوں کا بھی جو یہاں بڑی تعداد میں تھے اور انسانوں کے ساتھ پہنچے تھے۔ یہ واحد پولینیشین جزیرہ ہے جہاں کی آرکیولوجیکل سائٹ میں چوہوں کی ہڈیاں مچھلیوں سے زیادہ تھیں۔ (اگر چوہے کھانے کے تصور سے گھن آتی ہے تو یاد رہے کہ جنگ کے دوران کے راشن کے وقت چوہے دنیا بھر میں کھائے جاتے رہے ہیں)۔

کبھی کبھار کی غذا کے لئے بڑے سمندری کچھوے اور اس جزیرے کی بڑی چھپکلیاں۔ غائب ہونے والے جنگلوں کی لکڑی پر پکائے گئے غائب ہو جانے والے جاندروں کی باقیات اس جزیرے کا ماضی آشکار کرتی ہیں۔

جب ہم غذا کو وقت کے حساب سے دیکھتے ہیں تو تاریخ مزید واضح ہوتی ہے۔ شروع میں غذا ڈولفن اور بڑی ٹیونا مچھلیوں پر مشتمل تھی جو بعد میں غذا سے غائب ہو گئیں۔ بڑی مچھلیوں کے جگہ قریبی مچھلیاں آ گئیں۔ خشکی کے پرندے خوراک سے ختم ہو گئے، جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ پرندے ہی ختم ہو گئے۔ اس کی وجہ شکار کی زیادتی، جنگل کا ختم ہو جانا اور چوہے تھے۔ بحرالکاہل میں کسی بھی جزیرے پر ہونے والے یہ سب سے بڑی ٹریجڈی تھی۔ نیوزی لینڈ یا ہوائی میں کئی اقسام کے پرندے ختم ہوئے لیکن تمام نہیں۔ سوائے ایسٹر آئی لینڈ کے، کوئی بھی اور جزیرہ ایسا نہیں جہاں سے پرندوں کا مکمل صفایا ہو گیا ہو۔ سمندری پرندوں کی اقسام اب ایسٹر آئی لینڈ پر بریڈنگ نہیں کرتیں۔ یہاں سے کچھ دور چھوٹی پتھریلی چٹانوں پر ایسا کرتی ہیں۔ پائی جانے والی پندرہ اقسام مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں۔ مچھلیوں کا اور شیل فش کا سائز بھی وقت کے ساتھ کچرے کے ڈھیروں میں کم ہوتا گیا کیونکہ بڑی مچھلیاں پہلے کھا لی گئیں۔

بڑے درخت ختم ہونے کی کئی وجوہات تھیں۔ درختوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ مُردوں کو جلایا جاتا تھا۔ انسانی ہڈیوں کی راکھ اس بارے میں بتاتی ہے۔ باغوں اور فصلوں کے لئے جنگل کو کاٹا گیا۔ شروع میں اونچے درختوں سے بڑی کشتیاں بنائی گئیں۔ ساتھ آنے والے چوہوں نے ان کے بیجوں پر تباہی مچائی۔ ملنے والے ہر میوے پر چوہوں کے دانتوں کے نشان ہیں جس کے بعد اس میں سے پودا نہیں نکل سکتا۔ انسانوں کی آمد یہاں پر 900 میں ہوئی۔ اس سے کچھ عرصہ بعد جنگل ختم ہونا شروع ہوا۔ 1722 میں جگ روگیوین یہاں پہنچے، اس وقت کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ یہ کب ہوا؟ اس کے لئے پانچ الگ طرح کے شواہد ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔ زیادہ تر پام کے میوے پندرہوں صدی سے پہلے کے ہیں (یہ کاربن ڈیٹنگ سے پتا لگتا ہے) جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پام اس وقت تک نایاب یا ختم ہو چکا تھا۔ پوئکے میں اس جزیرے کی سب سے بنجر زمین ہے۔ یہاں شاید جنگل سب سے پہلے صاف ہوا ہو۔ یہاں پر درخت کی لکڑی کے کوئی آثار 1440 کے بعد کے نہیں۔ زراعت اس کے بعد بھی ہوتی رہی۔ تنور کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جلانے کے لئے لکڑی کی جگہ گھاس اور بوٹیوں نے لے لی تھی۔ اشرافیہ کے گھر اس کے بعد بھی لکڑی سے بنتے رہے لیکن عام لوگوں کے لئے لکڑی موجود نہیں رہی تھی۔ پولن کی کور کا تجزیہ بتاتا ہے کہ پام، گلِ داوٗدی کے درخت، ٹورومیرو اور کئی جھاڑیوں کی جگہ گھاس اور بوٹیاں لیتی گئیں۔ کلڑی اور رسی کے استعمال کا تجزیہ بھی ہمیں ایسے شواہد دیتا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کا عروج 1400 میں آیا۔ یہ جنگل کاٹنے کا دور تھا اور 1600 تک صفایا ہو چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply