ائیرپورٹ سکیورٹی اہلکاروں کی غنڈہ گردی۔۔ذیشان نور خلجی

ابھی ابھی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ایک نہتے مسافر پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ پہلے ایک سکیورٹی اہلکار مضروب لڑکے کو دھکا دے کر نیچے گراتا ہے۔ اور وہاں موجود باقی اہلکار جب دیکھتے ہیں کہ آسان شکار ہے اور قابو بھی آ چکا ہے تو بھاگتے ہوئے آتے ہیں۔ پہلے تھپڑوں مکوں اور ٹھڈوں کی بارش کی جاتی ہے اس کے بعد اس کو باقاعدہ فرش پہ گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے جایا جاتا ہے۔

کیا وہ کوئی ایسا مجرم تھا کہ جس کو اگر مزاحمت کر کے روکا نہ جاتا تو عوام کے لئے نقصان دہ ہوتا؟ اگر وہ کوئی ایسا مجرم ہی تھا تو بھی اس کی مزاحمت کا یہ طریقہ تو قطعاً نہ بنتا تھا کہ یوں سر عام اس کی ٹھکائی کی جاتی۔ کیوں کہ مقابل جارحیت تو دور کی بات، اپنا دفاع بھی نہیں کر پا رہا تھا۔

پھر منظر بدلتا ہے اور ایک اہلکار ویڈیو بنانے والے کے پاس آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ آپ ویڈیو نہ بنائیں، یہ آپ کا کام نہیں۔ البتہ شہریوں کی یوں تذلیل اور سر عام مار کٹائی ہمارا کام ہے۔

اس ساری ویڈیو سے مجھے تو یہی لگا کہ یہ ضرور کوئی القاعدہ کا ایجنٹ ہو گا جس نے پھر سے نائن الیون کا واقعہ رونما کرنے کے لئے کوئی طیارہ اغواء کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ اور ہمارے بہادر جوانوں نے، جو کہ ائیر پورٹ پہ سکیورٹی کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ مسافروں کے سامان کی چیکنگ میں بھی مصروف ہوتے ہیں اور بلیک میلنگ سے اچھی خاصی کمائی بھی کر رہے ہوتے ہیں، اپنا قیمتی وقت نکال کے یہ فریضہ انجام دیا ہوگا۔
لیکن ویڈیو ابھی باقی تھی اور میری ساری خوش فہمیاں ہوا ہو گئیں، جب دکھایا گیا کہ وہ کوئی دہشت گرد نہیں بلکہ ایک مسافر تھا اور باقاعدہ اپنی فیملی کے ساتھ ائیر پورٹ پہ موجود تھا ۔ اب اس کی ماں اور بہن دہائیاں دے رہی تھیں کہ میرے بچے کو مت مارو اللہ کا واسطہ ہے اسے چھوڑ دو۔ اور پھر ایک ہیروئن  سکرین پہ جلوہ افروز ہوتی ہے کیوں کہ ہیروز تو پہلے ہی آ چکے ہیں اب بس ہیروئن کی ہی کمی رہ گئی تھی۔ وہ بدتمیز خاتون اہلکار آتی ہے اور پہلے اس بزرگ خاتون کو تھپڑوں سے نوازتی ہے، پھر ان کو اور ان کی بیٹی کو بالوں سے پکڑ کے لے جاتی ہے جیسے یہ انسان نہ ہوں کوئی ڈھور ڈنگر ہوں۔

واضح رہے یہ وہی جاہل عورت ہے جسے اپنی ڈیوٹی کے دوران سب سے زیادہ شکایت رہتی ہے کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور اسے ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب کہ خود اس کا اپنا رویہ ایک عورت کے لئے درندہ نما ہو جاتا ہے۔

پہلے میرا یہی خیال تھا کہ یہ کوئی دہشت گرد ہے پھر اندازہ ہوا کہ نہیں یہ ایک عام مسافر ہے جس نے کوئی بے قاعدگی کی ہے اور زد میں آ گیا ہے۔ کیوں کہ وہاں موجود باقی مسافروں کو تو تنگ نہیں کیا گیا ،الٹا ائیر پورٹ انتظامیہ نے تو ان کی تفریح کا سامان مہیا کیا ہے۔ لیکن جب یہ دکھایا گیا کہ ان بے قصور خواتین پر بھی ایسے ہی تشدد کیا گیا تو اندازہ ہوا کہ وہ لڑکا بھی یقیناً بے قصور تھا ،بس وقت کی نازک گھڑیوں میں یہ ساری فیملی سکیورٹی اہلکاروں کے عتاب کا نشانہ بن گئی۔ اس سے پہلے بھی ایک ویڈیو نظر سے گزری تھی جس میں ائیر پورٹ کے عملہ نے کسی کو مارا پیٹا تھا۔ لیکن یہ صرف ائیرپورٹ انتظامیہ کی بات نہیں بلکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ آپ کسی بھی محکمہ میں چلے جائیں ،پہلے تو وہاں کوئی آپ کی بات سننے کا ہی روادار نہ ہوگا۔ پھر احتجاج کی صورت میں آپ کو لاتوں اور گھونسوں سے تختۂ مشق بنایا جائے گا۔

قارئین ! سوچتا ہوں کہ ان اہلکاروں کی ایسی پھرتیاں اس وقت کہاں چلی جاتی ہیں جب ان کے مقابل واقعی کوئی دہشت گرد یا مجرم آتا ہے۔ پولیس کو دوڑیں لگاتا تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ گو اور بھی بہت سے اداروں کو دیکھ رکھا ہے لیکن یہاں لکھنے کی اجازت نہیں۔ دہشت گرد تو دور کی بات، جب کوئی عام صاحب ثروت یا بااثر آدمی ان کی مٹی پلید کرتا ہے تو یہ سرکاری اہلکار بھیگی بلی بن جاتے ہیں اور انصاف کے لئے ہم عوام کے پاس رنڈی رونا لے آتے ہیں۔

دو سال پہلے کا واقعہ ہے مجھے حجاج اکرام کے استقبال کے لئے اسی علامہ اقبال ائیر پورٹ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں انٹرنس پہ معمول کی چیکنگ کے دوران اہلکار نے ڈیش بورڈ کھولنے کا کہا۔ میں نے کھول کے دکھا دیا ،اس نے بھی سرسری سی نظر ڈال کے نگاہیں پھیر لیں۔ میں نے ونڈو گلاس چڑھا دیا اور آگے بڑھ گیا۔ کہ پیچھے سے اس نے آواز لگائی اور آگے موجود دوسرے اہلکاروں نے پھاٹک نیچے گرا دیا۔ قریب آ کر اس نے گاڑی سائیڈ پہ لگانے کا کہا۔ میں نے ونڈو نیچے کر کے وجہ پوچھی۔ اس نے کہا کہ آپ کی گاڑی میں اسلحہ ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنی حفاظت کے لئے رکھا ہے اور میرے پاس باقاعدہ اس کا اجازت نامہ ہے۔ وہ کہنے لگا ٹھیک ہے آپ یہ پسٹل لے کے ہمارے آفس میں جمع کروا دیں، واپسی پہ لے جائیے گا۔ میں پسٹل لے کے باہر نکلا وہاں ڈیوٹی پہ موجود کوئی ڈیڑھ درجن  اہلکاروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ کہ میں ہاتھوں میں پسٹل نہیں بلکہ توپ لئے ہوئے اُترا ہوں اور ابھی کہ ابھی ان پہ چلانے لگا ہوں اور یہ منتظر ہیں کہ جیسے ہی میں اسے چلاؤں یہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

قارئین ! میں یہاں کسی واقعے کی مذمت کرنے نہیں آیا اور نہ ہی حکومت کو توجہ دلانے کا کوئی ارادہ رکھتا ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر اب بھی ارباب اختیار نے ایسے واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا تو وہ دن دور نہیں جب ایسے سکیورٹی ادارے خود کسی عوامی بلوے کا شکار ہوتے نظر آئیں گے۔ اور پھر اس کے بعد آنے والے دنوں میں  انتظامیہ اور حکومت بھی ایسے ہی کسی پُرتشدد ہجوم کی نذر ہو جائے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply