• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ٹی ایس ایلیٹ تین مجوسیوں ( دانایان ِ مشرق) کا سفر The Journey of the Magiکا منظوم اردو ترجمہ ۔۔۔ستیہ پال آنند

ٹی ایس ایلیٹ تین مجوسیوں ( دانایان ِ مشرق) کا سفر The Journey of the Magiکا منظوم اردو ترجمہ ۔۔۔ستیہ پال آنند

1 ـ” Journey of the Magi ” T.S. ELIOT

“A cold coking we had of it,2
Just the worst time of the year
For a journey, and such a long journey:
The ways deep and the weather sharp,

5 The very dead of winter.”
And the camels galled, sore-footed, refractory,
Lying down in the melting snow.
The summer palaces on slopes, the terraces
And the silken girls bringing sherbet.

ہماری مسافت تو ٹھنڈے پسینے کی اک داستاں تھی
(سفر کے لیے) خاص کر اتنے لمبے سفر کے لیے
بہت ہی بُرا وقت تھا یہ برس کا
پریشان کُن راستے ، سخت دشوار موسم
زمستاں کے یخ بستہ، ویران دن تھے!
دریدہ قدم اونٹ، تکلیف میں، رُکتے، مڑتے
پگھلتی ہوئی برف پر ماندگی میں پڑے تھے۔
ڈھلانوں پہ [امرا ء کے ] گرمیوں کے محل ، ان کے چھجے
10 Then the camel men cursing and grumbling
And running away, and wanting their liquor and women
And the night-fires going out, and the lack of shelters,
And the cities hostile and the towns unfriendly
15 And the villages dirty and charging high prices:
A hard time we had of it.
At the end, we preferred to travel all night,
Sleeping in snatches,
With the voices singing in our ears, saying
20 That this was all folly.

Then at dawn, we came down to a temperate valley,
Wet, below the snow line, smelling of vegetation;
With a running stream and water-mill beating the darkness,
And three trees on the low sky,
25 And an old white horse galloped away in the meadow.
Then we came to a tavern with vine-leaves over the lintel
Six hands at an open door dicing for pieces of silver,
And feet kicking the empty wineskins,
But there was no information, and so we continued

۱۰ [حسیں ] ریشمی لڑکیاں
[مالکوں کے لیے] ٹھنڈے مشروب لاتی ہوئیں۔
ہمیں بھی یہ سب دیکھ کر بے کلی تھی
سبھی سارباں گالیاں بکتے اور بڑبڑاتے
ہمیں اس جگہ چھوڑ کر عورتوں کے،
یا اکل و شرب کے لیے بھاگ جاتے ہوئے
اور بجھتے ہوئے آگ کے سب الاؤ ۔۔۔۔نہیں تھی کہیں
کوئی جائے اماں بھی

سبھی شہر، قصبے غنیموں ، حریفوں کے ہر سو
سبھی بستیاں، گاؤ ں حد درجہ مہنگے، غلیظ اور گندے
کڑا وقت تھا وہ ہمارے لیے تو
مگر آخرش ہم نے ٹھانی کہ شب بھرقدم زن رہیں گے
ٹھہر کر کہیں پر، گھڑی دو گھڑی سو بھی لیں گے
صدائیں مگر کان میں گونجتی تھیں
کہ یہ سب حماقت ہے۔

ہوا یہ کہ پھر صبح کاذب میں ہم
ایک آسودہ وادی میں اترے
جو نیچی تھی برفیلی حد سے
معطر تھی پودوں کی خوشبو سے
لبا لب تھی بہتی ہوئی آبجو
اور پانی سے چلتی ہوئی ایک چکّی
اندھیرے کو جیسے بھگاتی ہوئی سی
وہیں تین اشجار تھے آسماں کی تلہٹی میں
۔۔۔ اور سبزہ زاروں میں دوڑتا پھر رہا تھا

30 And arrived at evening, not a moment too soon
Finding the place; it was (you may say) satisfactory.

All this was a long time ago, I remember,
And I would do it again, but set down
This set down

۲۵ قدیم اوراجلا سپید اسپ ِ تازی۔
سرائے تھی اک
جس کی چوکھٹ پہ پتوں سے سر سبز
اک بیل لہرا رہی تھی
کھلے در کے اندر تھے
چاندی کے سِکّوں سے پانسے کی بازی
لگاتے ہوئے چھ  جوا ری
شرابوں سے خالی ہوئی چرمی مشکوں
کو پاؤں سے ٹھُڈّے لگاتے ہوئے، پر
کسی نے ہمیں کچھ بتایا نہیں،
تو ہم آگے چلے

۳۰ شام تک ہم پہنچ ہی گئے؛
ایک لمحے کی تاخیر بھی
[ناروا تھی]
وہاں اس جگہ ، جو [یقیناً] وہی تھی
[جہاں ہم کو جانا تھا آخر] ۔

بہت وقت گزرا ہے ’[اب کیا کہوں میں؟]
مجھے یاد ہے سب
[اگر فرض ہو تو
یقینا ً میں پھر بھی
سفر اس طرح کا
سر انجام دوں گا
لکھوں گا [ میں پھر بھی]
کہ جو میں نے اب لکھ لیا ہے

35 This: we were led all that way for
Birth or Death? There was a Birth, certainly,
We had evidence and no doubt. I had seen birth and death,
But had thought that they were different; this Birth was
Hard and bitter agony for us, like Death, our death

.۳۵ اسی واسطے تھا سفر جس پہ
[بھیجا گیا تھا ہمیں]
موت کے ثانیے یا ولادت کے لمحے [کی عینی شہادت کی خاطر]؟
یقینا ًولادت ہی تھی وہ
[بلا شک]ہماری شہادت ِ اولیٰ یہی ہے
۔ ولادت بھی اور موت بھی میری دیکھی ہوئی ہیں
مگر میں سمجھتا تھا،
دونوں بہت مختلف ہیں:
عمل اس ولادت کا میرے لیے تو
بہت تلخ تھا، درد زا تھا ۔
۔ قضا کی طرح تھا، ہماری قضا کی طرح
40 We returned to our places, these Kingdoms,
But no longer at ease here in the old dispensation,
With an alien people clutching their gods,
I should be glad of another death.(1927)

۴۰ پلٹ آئے تب ہم خود اپنے گھروں کو
، کہ یہ ملک اب امن کی کیفیت میں
نہیں تھے
۔ پرانے وثیقوں میں
الجھے ہوئے تھے
خود اپنے خداؤں کو ہاتھوں میں جکڑے ہوئے تھے
دساور کے یہ غیر ملکی ، بدیسی
خوشی سے کسی دوسری موت کی راہ دیکھوں گا اب میں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1. The poem re-creates the recollections of one the wise men, or Magi, who followed the star to Bethlehem bearing gifts for the newly born Jesus [Matthew 2.1-12].۱
2. The first five lines are adapted from the sermon preached at Christmas, 1622 AD.by Bishop Lancelot Andrews.
3. The image here prefigures the three crosses of the Crucifixion (Luke 23.32), as line 27 suggests the Roman soldiers casting lots for Jesus’ robe (John 19.23-24) as well as the pieces of silver paid to Judas for betraying him (Matthew 26. 14-15).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مترجم کی جانب سے
یہ نظم 1927 عیسوی میں لکھی گئی لیکن پہلی بار یہ 1930عیسوی میں شامل اشاعت ہوئی۔ حکایت ہے کہ عیسیٰؑ کی ولادت کی شہادت اولیٰ کے لیے مشرق یعنی ایران یا اس کے گرد و نواح سے تین مجوسی Magi. plural for Magus) فلسطین کی سر زمیں کی طرف عازم سفر ہوئے۔اس طویل سفر کے خاتمے اور شہادت اولیٰ کے بعد مدتیں گزر جانے پر ان تین میں سے ایک مجوسی کو اس نظم میں اپنے سفر کی داستان کو بزبانِ خود پیش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔عیسیٰ کی ولادت اُس دنیا کے لیے موت کا پیغام تھی جس میں طلسم، نجوم، بت پرستی اور اوہام کی شہنشاہیت تھی۔اس نظم کا راوی کہتا ہے کہ اس دنیا (جسے وہ پہچانتا تھا) کی موت کے بعد اب وہ اپنی موت کے انتظار میں ہے۔

راقم الحروف کے لیے اس نظم کا ترجمہ ایک چیلنج تھا۔ اس امر کے باوجود کہ مغربی ممالک کی جامعات میں خود آگاہ عیسائی طلبہ کو ایلیٹ کی نظمیں پڑھاتے ہوئے کچھ امور taken for granted سمجھ کر زیر بحث نہیں لائے جاتے ، جب کہ اپنے ممالک میں ہر نکتے کو سمجھانا پڑتا ہے۔ ایلیٹ کو تدریسی ڈسپلن سے گذارتے ہوئے یہ مشکل بھی پیش آتی ہے، کہ انگریزی الفاظ کے معانی ، ایک سے زائد تشریحات کے علاوہ ، گذشتہ صدیوں میں حشو و زوائد کے ساتھ تبدیل ہو چکے ہیں۔ایلیٹ انہیں عصر پرینہ میں رکھ کر اور مذہبی عقائد کے سیاق و سباق میں استعمال کرتا ہے۔ یہ نظم چونکہ ایلیٹ کی عیسائی مذہب میں شمولیت اور چرچ آف انگلینڈ میں داخلے کے فوراً بعد لکھی گئی اور مزید بر آں چونکہ اس نظم کا موضوع وہ داستان ہے جس میں بیت اللحم کے اوپر چمکتے ہوئے تین ستارے ان رہرووں کی رہنمائی کرتے رہے ، شاعر الفاظ کو ہمہ جہت اور کثیرالعلائق معانی میں استعمال کرتا ہے۔ صرف دو مثالوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ سطر عدد ۳۳۔۳۴میں میرا ترجمہ ہے [ لکھوں گا ؍ کہ جو میں نے اب لکھ لیا ہے ] انگریزی اصطلاح کے انتیس مختلف معانی میں ’’لکھوں گاـ‘‘ بھی ایک ہے۔قرون وسطیٰ میں البتہ سر فہرست یہی معنی تھا جو مترجم نے اخذ کیا ہے۔ برتی گئی ہے۔ چونکہ اس نظم کی پہلی پانچ سطور1622ئ میں دیے گئے پادری Lancelot Andrews کے ایک خطبے سے اخذ کی گئی ہیں، اس اصطلاح کے معانی کو سترھویں صدی عیسوی میں مستعمل گرجا گھر کی دعائوں کی زبان میں تلاش کرنا ضروری تھا۔ ۔۔۔ cold coking اس زمانے میں ’’ بسیار محنت و مشقت کے بعدٹھنڈا پسینہ‘‘ آنے کے معنی میں بولا جاتا تھا۔
یہ قیاس نہیں، بلکہ حقیقت ہے کہ ایلیٹ نے ’’ڈرامائی خود کلامی‘‘ (Dramatic Monologue) کی تکنیک برائوننگ سے مستعار لی۔ Love Song of J. Alfred Prufrock, Gerontion, The Wasteland, The Hollowmenکی طرح اس نظم میں بھی مجوسی ،جو اب بہت بوڑھا ہو چکا ہے، قاری سے براہ راست خود کلامی میں مصروف ہے۔ پہلے دو بندوں میں ، اپنے دیگر دو ہمسفر مجوسیوں کے نما ئندے کے طور پر واحد متکلم صیغہ جمع یعنی ’’ہم‘‘ کی زبان بولتے ہوئے آخری بند میں روشنی کا ہالہ خود پر ہی مرکوز کر لیتا ہے اور صیغہ واحد ’’میں‘‘ استعمال کرتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

۱ ۔ مجوسی آتش پرست ایرانی تھے، جن کے تین بزرگ پیشواؤں کو بیت الحم کی طرف پہلے اونٹوں پر اور پھرپیدل سفر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ وہ عیسے کی ولادت کی شہادت اولیٰ فراہم کر سکیں۔ نو زائدہ بچے کے لیے تحائف سے لدے پھندے وہ اس غار تک پہنچے۔ کہا جاتا ہے کہ راستے میں غیر انسانی (شیطانی؟) آوازوں نے ان کے ذہن میں کھلبلی مچائی کہ تم جو کر رہے ہو، وہ فضول کا کام ہے ۔ اسے ترک کر دو، اور لوٹ جائو۔ اس نظم کی سطر نمبر 20اس پر دال ہے۔ ۲۔ پہلی پانچ سطریں پادری Lancelot Andrewes’s “Nativity Sermon (1622) سے ماخوذ ہیں۔
۳۔ تین درختوں کا افق کے پس منظر پر ابھرنے کا منظر نامہ عیسیٰ کے مصلوب کیے جانے کی پیش آگاہی دیتا ہے۔(لوقاؔ۔ سطر 23.32) ۔
سطر نمبر 27 میں چاندی کے سکوں کے ساتھ پانسہ کھیلنا، مصلوبیت کے بعد عیسےـ کے کپڑوں کی ملکیت پر حق جتانے کے لیے رومن فوجیوں کے پانسہ ڈالنے کے کھیل کوظاہر کرتا ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply