اماں میں آ گیا/عاصم کلیار

زندگی کی لذتوں سے آشنا ایک خوبرو نوجوان نے نیم بیہوشی کے عالم میں سوچا وہ ایک روشن اور زندگی سے بھر پور صبح تھی۔
اور اب۔ ۔ برقعے کے اندر اپنی ہی قے کی بُو سے مجھے سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے کیونکہ مجھے منہ زور گھوڑوں کو قابو کرنے والی دوا کیٹامین کے وقفے وقفے سے وہ کئی ٹیکے لگا چکے ہیں۔
غنودگی کی حالت میں دوا کے اثر سے وقتی طور پر نکلتے ہوۓ خوبرو نوجوان نے اس روز کی کڑیاں جوڑنے کی کوشش کی۔

وہ ایک رات قبل دبئی سے واپس آیا تھا جہاں دوستوں کے درمیان وقت کا پیمانہ اُلٹی چال چلتے دن کو رات اور رات کو دن میں بدلنے لگا تھا۔ایک معصومانہ سی  شرط میں وہ ایک دوست سے انتہائی قیمتی گھڑی مارنے میں بھی کامیاب رہا۔

وہ طلوعِ  آفتاب کے ساتھ اپنے بستر سے اٹھا، اس نے نہانے کے بعد شرط میں جیتنے والی گھڑی پہنی۔اس کی بیوی نے بستر پر دراز، آنکھوں کونیم وا  کرتے ہوۓ عجب دلداری کے ساتھ نوجوان کو دفتر جانے سے روکنا چاہا۔

نوجوان نے کاروباری مصروفیات کے پیش ِ نظر مسکراتے ہوۓ بیوی کا الودعی بوسہ   لیا اور کہا کہ آج کی شام تمھارے نام۔۔۔مگر وہ شام چار اوپر کچھ برس بعد ان کے   خلوت کدے میں نازل ہوئی۔

اس کے گارڈ کارپورچ میں ہوشیارباش اس کے منتظر تھے اس نے گاڑی اسٹارٹ کی مگر۔۔۔اس کی بیٹری ناکارہ ہو چکی تھی۔وہ اپنے باپ کے زیرِ استعمال رہنے والی انتہائی قیمتی Two door مرسڈیز میں اکیلا دفتر کے لئے روانہ ہوا۔اس نے ماں کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوۓ دفتر جانے کے لئے آسان ترین راستے کا انتخاب کیا۔

وہ شہر کے مضافات سے باہر جانے والی سڑک پر برقعے کے عذاب سے نجات پانے کی کوشش میں اپنے حال اور مستقبل سے بے خبر صرف ماضی کے سہارے زندہ تھا۔
واقعات کا تسلسل شاید اس کے تعاقب میں تھا۔
اگر اس کاجہاں  دبئی سے  تاخیر سے اُڑتا۔۔
اگر وہ بیوی کے روکنے پر دفتر نہ جاتا۔۔
اگر اس کی گاڑی اسٹارٹ ہو جاتی تو گارڈ اس کے ہمراہ ہوتے۔۔
اگر وہ ماں کے کہنے پر دفتر جانے کے لیے کوئی اور راستہ منتخب کرتا تو شاید لاہور کے انتہائی بارونق علاقے سے اس کے اغواء کار اسے اغوا ء کرنے میں ناکام رہتے۔

نوجوان نے سوچا کچھ روز پہلے اس کے گھر کے سامنے کھمبے پر سکیورٹی کیمرہ لگانے والا کون تھا۔جب وہ گھر سے نکلا تو موٹر سائیکل پر سوار ایک لڑکے نے اسے مسکرا کر کیوں دیکھا تھا۔اور کیا مجھے اغواء  کرنے کے لیے ایک بارونق سڑک کا انتخاب ان کے منصوبے کا حصّہ تھا۔؟

پہلے ایک گاڑی نے تعاقب کرتے ہوۓ اسے روکنے کی کوشش کی اس نے جان کی امان مانگتے ہوۓ موبائل اور پرس ان کے حوالے کر دیا۔مگر اغواء کاروں نے اس کی گاڑی کا دروازہ کھولا، اسے گھسیٹتے ہوۓ باہر نکالا۔نوجوان کے چہرے پر کالی بوری چڑھائی اور اسے اپنی کار کی پچھلی نشت لا پر پھینکا۔اس کے  دونوں جانب دو مسلح افراد سوار ہوۓ ،کچھ لمحوں بعد منہ روز گھوڑے کو قابو کرنے والی دوا  کا پہلا انجیکشن نوجوان کو ٹھونکا گیا۔

ایک اہم شخصیت کے بیٹے کے اغوا ء پر سب ٹی۔وی چینل بغیر تصدیق کے ہنگامہ برپا کیے  ہوۓتھے۔ایوان ِ اقتدار میں اس کے اغوا ء کی بازگشت تھی۔مگر نوجوان کے اہل ِ خانہ خاموشی اور استقامت کے ساتھ کسی مثبت پیش رفت کے منتظر تھے۔

جلدی میں ایک اغواء  کار کے ہاتھ سے موبائل گرا۔جسے کمیٹی کے صفائی والے نے ایک ردی فروش کو بیچ دیا۔تفتیشی ٹیم وہ موبائل برآمد کرنے میں کامیاب رہی۔فون میں موجود سِم کسی خاتون کے نام تھی، تفتیشی ٹیم اس خاتون کے گھر پہنچی جس نے ڈرتے ہوۓ بتایا کہ عثمان بسرا نامی اس کے باپ کے طالبعلم نے یہ نمبر اس کے شناختی کارڈ پر حاصل کیا تھا۔بسرا اسی روز ایک فلاحی ادارے میں کام کرنے والے امریکی شہری کے اغواء  کے مقدمے میں جیل پہنچ چکا تھا۔عثمان بسرا نے اس سیف ہاؤس کی نشاندہی کی جہاں نوجوان کو اغواء کے بعد لے جایا گیا تھا۔

سیف ہاؤس تحفظ گاہ کے لغوی معانی کے  بجاۓ ہمارے ہاں تشدد گاہ کی علامت کے طور پر رائج ہیں۔نوجوان کو اغواء  کاروں نے جن کا سرغنہ محمد علی نام کا شخص تھا کچھ دن لاہور کے مختلف سیف ہاؤسز میں رکھا ،جہاں نوجوان کو زدوکوب کرنے کے علاوہ اسے مسلسل کیٹامین کے انجیکشن لگاۓ جاتے۔

ماضی میں بھی رنگ و نسل اور مذہبی تعصب کے دلخراش تجربات سے نوجوان گزر چکا تھا۔یوں گمان ہوتا ہے جیسے دنیا نے موجودہ صدی کا تنگ نظری اور نفرت کے پھولوں کے ساتھ خیر مقدم کیا ہو۔وہ لاہور کے بہترین انگریزی سکول سے پڑھنے کے بعد اپنے باپ اور دادا کی طرح مزید تعلیم کے لیے انگلستان گیا۔جہاں مسلمان اور تیسری دنیا کا شہری ہونے کے سبب اسے حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا۔حالانکہ اس کی نانی اور دادی انگلستان کی رہنے والی تھیں جنہوں نے اپنی مرضی سے دور بہت دور سمندر پار سے آنے والے ہندوستانی طالبعلموں سے شادی کی تھی۔مگر نائن الیون کے بعد یہ تاثر اجاگر کیا گیا کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہ سہی مگر ہر دہشت گرد ضرور مسلمان ہے۔سو مسلم اُمّہ نے الگ شناخت قائم کرنے کے لئے تشدد اور تنگ نظری کو فروغ دیا۔

اغوا ء ہونے سے کچھ عرصہ قبل نوجوان اپنی بیوی کے ساتھ کیلیفورنیا کی طیران گاہ پر بیٹھا اگلی پرواز کا منتظر تھا۔جب امریکن سپاہی دندناتے ہوۓ میاں بیوی کو ہتھکڑیاں لگا کر الگ الگ کاروں میں سوار کر کے کسی اور مقام لے گئے ، سوال و جواب کے تھکا دینے والے مرحلے کے بعد نوجوان کو معلوم ہُوا کہ کسی نے ائیرپورٹ سے فون کر کے پولیس کو بتایا کہ ایک مسلمان جوڑا بم سمیت ایئرپورٹ پر موجودہے۔امریکن سیکرٹری اسٹیٹ ہیلری کلنٹن سے نوجوان کے باپ کے مراسم کا حوالہ کام آیا اور یوں سکیورٹی اہل کار انہیں با عزت طور پر جہاز تک چھوڑ آۓ۔
مگر اب۔۔۔۔
نوجوان حال کے اندیشوں سے بے خبر مستقبل کے وہموں میں مبتلا ماضی کی انگلی تھامے ہوۓ تھا اس کے باپ نے عہد ِ ضیا میں قید و بند کی اذیت برداشت کی تھی۔وہ بے نظیر کی طویل جلاوطنی کے بعد صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہُوا ،بعد میں پارٹی نے اسے گورنر کا عہدہ بخشا۔وہ روشن خیال اور حق پرست ہو نے کے سبب کتاب ہاتھ میں تھامے،کافی پیتے ہوۓ چھوٹے بیٹے کی سالگرہ کے روز اپنے سرکاری گارڈ کی گولی کا نشانہ بنا۔جس روز اس کا جنازہ تھا کچھ شدت پسند، کم فہم لوگ اس کے قاتل ممتاز قادری کی عدالت پیشی پر پھولوں سے استقبال کر رہے تھے۔اس کے باپ نے قید ِ تنہائی سے کاغذ کے ایک پُرزے پر اپنی بیوی کو یہ پیغام لکھ بھیجا تھا۔
I am not made from wood that burns easily.

نوجوان نے دل میں تہیہ کیا کہ  میں سلیمان تاثیر کا بیٹا شہباز تاثیر ہوں میں ہر صورت امید کا چراغ تھامے مثبت سوچ کے ساتھ آنے والے وقت کا مقابلہ کروں گا۔اس وقت گاڑی لاہور شہر کے خارجی راستے  کی آخری چیک پوسٹ راوی پُل پر رُکی ہوئی تھی۔برقعے کے اندر سے ساتھ والے شخص نے تیز دھار  چاقو چبھوتے ہوۓ شہباز سے کہا اگر تم چیک پوسٹ پر بولے تو یہ چاقو تمھارے اندر اُتار دوں گا۔برقع پوش شہباز کوچیک پوسٹ پر کھڑے سکیورٹی اہلکار نے با پردہ عورت سمجھتے ہوۓ گاڑی کو جانے دیا۔

اس کے خوابوں کے شہر لاہور کو جہاں اس نے لڑکپن سے جوانی میں قدم رکھتے ہوۓ زندگی سے لطف کشید کیا تھا۔جدھر اس کی بہادر ماں،محبوب بیوی اور کمسن بیٹی دروازے پر نظر جماۓ اس کی آمد کی منتظر تھیں۔کار تیز رفتاری سے پیچھے چھوڑتے ہوۓ شہباز کے لیے کسی اَن دیکھی مگر اذیت بھری منزل کی جانب رواں دواں تھی۔

گاڑی سر پٹ دوڑے جا رہی تھی۔سر سبز کھیت کہیں پیچھے رہ گئے تھے، کار چٹیل میدانوں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔کشادہ سڑک،ہچکولے کھاتے راستے میں بدل چکی تھی۔گھاٹیاں پہاڑوں کا روپ دھار چکی تھیں کئی دنوں کی مسافت کے بعد شہبازتعفن زدہ اندھیرے کمرے میں موجود تھا۔اس نے اُٹھنا چاہا تو آہنی زنجیروں سے اس کے ہاتھ پاؤں  بندھے ہوۓتھے۔ایک دو روز اسے بھوکا رکھا گیا۔وہ نقاہت کی حالت میں نڈھال ایک دیوار سے ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا۔آتش دان سے آتی ہوئی سورج کی ننھی کرن سے وہ رات اور دن کا حساب رکھتا۔دیوار پر ناخن سےلکیریں کھرچ کر قید تنہائی میں گزرنے والے دن شمار کرتا۔

ایک صبح آہٹ کے ساتھ دروازہ کُھلا ایک لوٹے میں پانی اور پیالہ بھر نوڈلز اس کا روز کا راشن مقرر ہُوا۔وہ مہینوں بعد ایک پہرے دار کے سامنے برہنہ ہو کر نہایا۔

کچھ دن بعد محمد علی دہشت کی علامت بنا کمرے میں داخل ہوا۔شہباز کی اُنگلیوں کے  ناخن اُتارے گئے۔بلیڈ اور چاقو سے اس کی پشت پر زخم لگاۓ گئے۔یہ تمام دل سوز مناظر جدید کیمرے میں فلمانے کے بعد شہباز کے اہل خانہ کوبذریعہ ای۔میل ارسال کیے  گئے۔ایک دوپہر وہی ناخن ایک ڈاکیا پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر  لاہور شہباز کے گھر چھوڑ گیا۔

محمد علی نے شہباز کوپرچہ پکڑاتےہوۓ کہا جو اس پر لکھا ہے صرف وہی فون پر ماں کو پڑھ کر سنانا۔

عبدالغنی نامی ساؤتھ کورین ہاتھ میں کلاشنکوف تھامے محمد علی کے لیے  ماں اور بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ترجمہ کرنے کے لیے موجود تھا۔

فون کی گھنٹی بجتی رہی دوسری جانب سے کوئی کال موصول نہیں کر رہا تھا۔سکیورٹی اہلکاروں نے شہباز کے اہل خانہ کو انجان نمبر سے آنے والی کال اٹینڈ کرنے سے منع کیا ہُوا تھا۔
تیسری بار نمبر ڈائل کرنے پر شہباز کی والد ہ نے فون اٹھا۔
ہیلو ممی
میں شہباز
میں زندہ۔۔۔۔کوئی لکڑی ہوں جو جل جاؤں گا
چار ارب روپے
ابو کے قاتل ممتاز قادری کی رہائی

اُدھر سے آواز آئی یہ ناممکن ہے کہ تمھارے باپ کے قاتل کو۔۔۔۔اور فون کٹ گیا۔کراچی کے بزنس مین جمیل یوسف سے جو اغواء کاروں سے ڈیل کرنے کا ہنر جانتا تھا شہباز کے گھر والے رابطے میں تھے۔وہ طالبان سے بھی شہباز کی رہائی کے لیے  مسلسل ہر آدمی سے بات چیت کرنے کے لیے  تیار تھے۔

موسم بدلا ،سردی اُتر رہی تھی۔شہباز کا کمزور وجود بغیر بستر کے سردی کو برداشت کرنے سے قاصر تھا۔آتش دان کی چمنی پر مکڑا جالے بُننے میں مصروف تھا۔شہباز نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔وہ اسے پیٹر کے نام سے پکارتا ،رات دن پیٹر جالا بنتے ہوۓ اپنے دوست شہباز کو چمنی کے راستے آنے والےمچھروں سے محفوظ رکھنے میں مگن رہتا۔
کمرے کی دیوار کے ساتھ پڑی سرخ رنگ کی بالٹی منظر کی اُداسی میں مزید رنگ بھر رہی تھی۔

میر علی کے علاقے میں آپریشن ردِ فساد شروع ہو چکا تھا۔ظالموں کے لیے  زمین تنگ ہونے لگی تھی ،سو محمد علی نے شہباز کے ساتھ ٹھکانہ بدلا۔ڈرون حملے ان کے تعاقب میں تھے۔دنیا کے ہر ملک سے نوجوانوں کے ٹولے جنگجو طالبان بھرتی ہو کر جنت کے لیے  سرگرداں خود کش بموں سے لیس بے گناہ لوگوں کی جان لینے کے لیے میر علی میں پڑاؤ ڈالے ہوۓ تھے۔میر علی کا علاقہ سکیورٹی فورسز کے نشانے پر تھا۔محمد علی نے محافظوں کی نگرانی میں شہباز تاثیر کو کسی دوسرے علاقے  کی طرف روانہ کیا۔وہ مسلسل چلتے رہے،شہباز نے پربتوں میں گونجتی خاموشی سنی ،اس نے آسمان سے گرتے ہوۓ ڈرون دیکھے،شہروں کو مٹتے ہوۓ اور لوگوں کو مرتے ہوۓ چھوڑ کر وہ گھاٹی،بسی بستی میں اُترے۔وہ جس مکان میں پہنچے وہ مردانہ اور زنانہ حصوں میں  منقسم تھا۔اس نے برسوں بعد زنانہ حصّے میں بچوں کے قہقہے اور عورتوں کی آواز سنی۔اس مکان میں محمد علی کے بچے اور بیوی اپنی ماں آیا جان کے ساتھ رہتے تھے۔آیا جان اوزبک طالبان کے سربراہ کی بیگم تھی۔

شہباز وطن میں رہتے ہوۓ وطن بدر تھا۔وہ اپنے نام کی شناخت سے محروم برسوں سے بھائی،الیاس اور احمد کہہ کر پکارا جاتا۔اسے جس کمرے میں رکھا گیاوہ نیم اندھیرے میں اس کی چھت اور دیواروں پر اپنے دوست پیٹر کے قبیلے کے کسی اور فرد کو ڈھونڈنے میں مصروف رہتا۔چمنی سے نظر آتی انار کی برہنہ شاخوں اور پھوٹتی ہوئی کونپلوں سے وہ رُتوں کے بدلنے کا اندازہ لگاتا۔اس کے کمرے کی کچی دیوار کو چھپانے کے لیے اٹلی کے کسی شہر کی تصویر آویزاں تھی وہ برسوں پہلے اپنے باپ کے ساتھ اٹلی کے اس شہر جا چکا تھا۔

ایک روز محمد علی نے شہباز کی پشت پر چاقو سے نشان لگاۓ اور اس کی مسلسل نگرانی کرنے والے کم سن سہیل نامی اوزبک پہرے دار نے کانپتے ہوۓ ہاتھوں سے ان پر نمک چھڑکا ،ایک سوئی سے شہباز کا منہ سینے کا عمل جاری تھا کہ اس کی درد ناک چیخیں سن کر آیا جان اندر داخل ہوئیں انہوں تحکمانہ انداز سے محمد علی کو ایسا کرنے سے منع کیا۔

اس روز شہباز کو برسوں بعد سو نے کے لیے بستر اور نہانے کے لیے  تولیہ میسر آیا ۔محمد علی کے ننھے بچے شہباز سے اُردو سیکھنے لگے۔سہیل اور وہ دونوں فٹ بال کے گرویدہ تھے۔سہیل محمد علی کی غیر موجودگی میں شہباز کو ریڈیو پر مانچسٹر یونائیٹڈ کے ہونے والے میچ کی کمنٹری لگا دیتا۔وہ برسوں بعد اپنی پسند کی ٹیم کے احوال سے آگاہ ہوا۔سہیل اور آیا جان وحشیوں کے درمیان رہتے ہوۓ بھی انسانی ہمدردی کے جذبے کو اپنے اندر چھپاۓ بیٹھے تھے۔

شہباز کی رہائی،چار ارب اور ممتاز قادری کی ضمانت سے مشروط تھی۔مگر غم کی لمبی شام برسوں کے سیاہ اندھیرے کے بعد تمام ہونے کو تھی۔سکیورٹی فورسز کے حملوں میں شدت آنے کے بعد طالبان کمزور ہو چکے تھے۔اپنی شکست کو قریب آتا دیکھ کر طالبان کے مختلف گروہ مرکزی طاقت کے حصول کے لیے  ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروفِ عمل تھے۔اوز بک گروپ اپنے سربراہ محمد علی سمیت تمام طالبان کے قبضے میں تھے۔

قیدیوں کا قافلہ طالبان کی بندوقوں کی چھاؤں تلے ویران وادی سے روانہ ہوا۔شہباز تاثیر نے ایک پہاڑ سے اترتے ہوۓ سوچا وہ اب افغانستان میں داخل ہو رہا ہے۔جہان سے شاید واپسی ممکن نہ ہو میں کل تک محمد علی اور اوزبک گروپ کا قیدی تھا اب طالبان کا قیدی ہوں۔طالبان سے ایک جھڑپ کے دوران محمد علی اپنے خاندان اور دائی جان سمیت راہی ملک عدم ہوا۔
وقت نجات قریب تھا۔
گرد شِ  افلاک اور اشارہ ء غیبی نوید سنانے کو تھے

شہباز کی والدہ کی دوست نے اسے بشارت بھرا خواب سنایا۔
شہباز نے قید کے دوران ملنگ نامی طالبان کمانڈر کو اپنی حقیقی پہچان سے آگاہ کیا۔جس روز ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی اسی روز ملنگ نے شہباز کو پندرہ ہزار روپے دے کر قید سے آزاد کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شکستہ پا ،رنجیدہ دل شہباز تاثیر نے رہائی کو خواب سمجھتے ہوۓ بارڈر کراس کیا۔اس نے کوچلاک کے ایک ڈھابے سے ماں کا نمبر ملایا۔اس سے پہلے کہ عورت فون اٹھانے کے بعد کچھ بولتی شہباز نے آہستہ سے کہا!
اماں میں آ گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply