میں تو چلی چین/ چینی پاکستانی کلچر کی مشترکہ روایات و رسومات(قسط8) -سلمیٰ اعوان

اُس صبح فضا میں بہت خنکی تھی۔کبھی کبھی سردیوں کی صبحوں میں بھی ایک اداسی سی گُھلی نظر آتی ہے۔وہ صبح بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ہواؤں میں سراٹے مارتے تیز بلّھوں کی آمیزش تھی۔میں عقبی جانب کے ٹیرس پر آئی۔دھوپ بے چاری تو بے حد گھبرائی اور سراسمیگی کی سی حالت میں دکھتی تھی۔جیسے کہتی ہو۔
‘‘ بھلا میں کیا کروں۔یہ اتنے ظالم سرکش گھوڑو ں کی طرح بھاگتے جھونکے بھلا میری کہیں سُنتے ہیں۔تھوڑا سا ہی کہیں ٹکنے دیں تو میں کچھ سُکھ پہنچاؤں۔’’
میں کچن میں آگئی۔ہماری نسرین ہنڈیا پکانے کی تیاری میں مصروف تھی۔ٹوکری میں بینگن پڑے تھے۔یا اللہ اتنے بڑے ۔
میری حیرت کو بیٹی نے دور کیا۔یہاں ہر چیز کا یہی حال ہے۔مسلسل تحقیق اور تجربات نے خوشبو اور ذائقوں کا کچومر تو ضرورنکال دیا ہے مگر داد دینی پڑتی ہے انہیں کہ اپنے لوگوں کی ضروریات احسن طریقے سے پوری کررہے ہیں۔ہماری طرح نہیں کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود کبھی چینی درآمد کررہے ہیں اور کبھی گندم۔
نسرین نے چائے دم کرتے ہوئے ناشتے میں نٹز Nuts لینے کا پوچھا۔ تبھی سعدیہ نے موبائل پر عمران کی کال ریسیو کرتے ہوئے مجھے کہا تھا۔
‘‘آپ کا وقت دس بجے ہے۔جلدی تیار ہوجائیں۔ــ’’
‘‘ارے ابھی تو ڈیڑھ گھنٹہ پڑا ہے۔ہاں سنو اب یہ مت کہنا کہ چینی وقت کی پابند قوم ہے۔ تمہارے باپ سے میں نے اور کچھ سیکھا ہو یا نہ ہومگر پابندی وقت کی یہ عادت تو جی جان سے اپنائی ہے۔ اِس ضمن میں لعن طعن سہی بھی ہے اور کی بھی ہے ۔کسی بیا ہ شادی کی تقریب میں تمہارے باپ کے غل غپاڑے پر جائے مقام پر پہنچنا اور وہاں بیروں کی آنیاں جانیاں دیکھنا اور پھر تمہارے باپ پر چّلا چلی کرنا لوابھی جھاڑو لگانا باقی ہے وہ لگاؤ تم میں تو چلتی ہوں جیسی مکالماتی لڑائی بھی زندگی کا حصّہ رہی۔
محبت سے بھری پری بیٹی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔تب ہم نے بہت سے واقعات یاد کیے جب ایسی صورت پیش آتی تھی۔ماضی کی یادوں میں فقط چند ہی لمحے رہنے کے فوراً بعد وہ باہر آگئی اور بولی۔
‘‘دراصل Foreign Languages University پرانے بیجنگ کی جنوبی سمت بہت دور ہے۔اور رش کا جو حال ہے وہ آپ دیکھ ہی چکی ہیں۔’’
نسرین کو میرے پسندیدہ مگ میں قہوہ انڈیلتے دیکھ کر میں نے اپنی جیالی ہم سفر سے کہا۔
‘‘لو بھئی آج میں تمہاری ہم نام چینی پروفیسر سے ملنے جارہی ہوں۔’’

نسرین اور شبانہ دونوں چینی خواتین سے ملاقات کا دلچسپ احوال بیٹی نے گذشتہ رات مزے لے کر سُنایا تھا۔چائے کے پہلے گھونٹ کے ساتھ اس نے بھی ہنسی ہونٹوں پر بکھیر دی تھی۔
پاکستانی سفارت خانے میں کسی تقریب کا اہتمام تھا۔ اردو ڈپارٹمنٹ کی یہ دونوں خواتین مدعو تھیں۔تقریب 23 مارچ کے حوالے سے غیر معمولی دلچسپی کی حامل تھی۔مختلف شہروں سے پاکستانی بھی شرکت کے لیئے آئے ہوئے تھے۔ نسرین اس وقت دھان پان سی خوبصورت ،دل کش سی لڑکی تھی۔نئی نئی شادی ہوئی تھی۔پاکستان کا چکر لگا چکی تھی۔پاکستانی چمکتے دمکتے لباس میں ملبوس تتلی کی طرح نظر آتی تھی۔پاکستانی خواتین فقرے بازی میں تو خیر سے بڑی تیز طرار ہوتی ہیں۔ایسے میں کسی من چلی نے کہا۔‘‘لو بھئی اِس سینک سلائی کو تو دیکھو۔’’
اس کے تو کہیں گمان میں بھی نہ ہو گا کہ جسے نشانہ بنا رہی ہے وہ اردو جانتی ہے۔ اور جب اِس خوبصورت لڑکی نے اردو میں اظہارِ خیال کیا تو بس اندازہ لگالیں کہ خواتین کی شرمساری کِس درجہ کی ہوگی۔

فاصلوں کا پھیلاؤ وہی اپنے شہر جیسا ہی تھا۔بس فرق اگر تھا تو صرف نظم و ضبط اور قاعدے کلیے کا ۔بیس میل اِدھر اُدھر معمولی بات تھی۔اب گاڑی پارکنگ ہی مسئلہ بن گئی۔اورنٹئیل کالج لاہور کے گردونواح والے منظر کی یاد آئی۔مگر دل نے فوراً کہا۔‘‘نہیں بھئی یہاں صورت زیادہ مخدوش ہے۔’’پارکنگ کے لیے جو خجل خواری ہوئی اس نے کشور کے اس درد بھرے گیت کی یاد دلائی تھی۔
‘‘میرے محبوب آج رسوا تیری گلیوں میں محبت ہوگی۔’’

چلو خدا کا احسان عظیم کہ میری چینی محبت بہت زیادہ رسوا ہونے سے بچ گئی۔ایک نفیس سے انسان نے بہت اندر جاتی ایک گلی میں رہنمائی کرتے ہوئے پارکنگ کروائی تو شکر کا کلمہ کوئی دس بار کہا ہوگا۔ ہر گلی تو دو رویہ گاڑیوں سے چھلکی پڑی تھی۔
یونیورسٹی خوبصورت تھی۔پرانے اور نئے ،قدیم اور جدید رنگوں کے حسن سے سجی۔ ارغوانی رنگی چھوٹی اینٹوں والے مستطیل صورت دروازے سے بھلا بندہ یونیورسٹی میں داخل ہو۔ اور بے شک وقت نے پیری کی چادر بھی اوڑھادی ہو۔جوانی نے تو پھر بھی یاد آنا ہی آنا ہے۔ اب چاہے درسگاہ کوئی غیر ملکی ہو یا مدتوں بعد اپنی ہی کسی جامعے میں جانے کا اتفاق ہو۔ داخلے کے ساتھ والے منظر مانوس سے تھے۔

بہت بڑے بڑے کھیل کے میدان میرے سامنے نہیں تھے۔ صرف مناسب سی کشادگی والا بس ایک ہی تھا جہاں طلبہ کھیل رہے تھے اور جس کے کونے پر ایک بڑھی اپنا اڈہ لگائے لکڑی کا کچھ کام کررہا تھا۔دائیں بائیں مڑتے بل کھاتے برآمدے اور راہداریاں تھیں۔عمران نے نسرین سے رابطہ کیا۔ اس نے کہا آگے آجائیں ہمارے طلبہ آپ کو لے جانے کے لیے کھڑے ہوں گے۔
بیگم اختر ریاض الدین یاد آئی تھیں۔ہوائی یونیورسٹی میں آدھی رات کو ان کا نازل ہونا اور طلبہ کا ہاروں کے ساتھ استقبال کرنا۔اب خواہ مخواہ ہی دل میں خیال آیا تھا کیا یہاں بھی کوئی ایسا ہی سین ہوگا۔
پھر دماغ نے پھٹکارہ‘‘ یہ تم پٹڑی سے اتنی جلدی کا ہے کو اتر جاتی ہو۔اوقات یاد رکھا کرونا۔’’
دائیں بائیں مڑتے جارہے تھے۔گورنمنٹ کالج لاہور جیسے منظر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کھل رہے تھے۔ایک نوعمر لڑکے نے عمر کہہ کر اپنا تعارف کروایا۔عمر اور چینی لڑکا ۔فوراً سنکیانگ کی طرف دماغ گیا۔لڑکے نے خود کو بی اے پارٹ ون کا سٹوڈنٹ بتایا۔
اس عظیم الشان عمارت کے ایک چھوٹے سے ڈپارٹمنٹ کی تنگ سی راہداریوں میں اسلامی ناموں والی چینی لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ چلتے ہوئے اپنایت والی خوشبو سی محسوس ہوئی تھی۔شبنم، شبانہ،عمر ،عثمان۔
اس معمّے کو سب سے پہلے حل کیا کہ یہ مضطرب کررہا تھا۔لیجیے عقدہ کھل گیا کہ اردو پڑھنے والے چینی طلبہ اور اردو زبان سے جڑے دیگر لوگ ادب کے اِن ناموں سے جب بہت متاثر ہوتے ہیں تو اپنے نام کے ساتھ ایک اضافی نام کااضافہ کر لیتے ہیں ۔ڈپارٹمنٹ میں اُس ماحول کو پیدا کرنے کی یہ ایک مخلصانہ سی کاوش ہے۔سچی بات ہے اِس جذبے نے سرشار کردیا تھا۔اب نسرین کا چینی نام ZhouYuan،شبنم Yuan Yechangہے۔یہاں شمیم ہے۔زاہدہ ہے۔قاسم ہے۔
نسرین ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ تھی۔اس کا کمرہ بے حد چھوٹا سا تھا۔ مجھے اپنے پروفیسروں کے کمرے یادآئے تھے۔ہیڈکی تو بات ہی چھوڑئیے۔نسرین پاکستان کا دوبار چکر لگا چکی ہے اور یقیناً اس نے وہاں بہت کچھ دیکھا ہوگا۔
حمید شاہد،رشیدامجد ،محبوب ظفر،نیلو فراقبال،کشور ناہید ،افتخار عارف مسعود مفتی لوگوں سے مل چکی ہے۔نیلو فر کی بہت مدّاح تھی۔اس کی شاندار میزبانی سے محظوظ ہوچکی تھی۔
قہوے کا دور چلا۔ڈپارٹمنٹ دیکھا۔ایم اے کے پہلے سال میں ابھی صرف بارہ طلبہ ہی تھے۔اِن کی گلابی اردو سے محظوظ ہوئے۔سبھوں کو پاکستان جانے،اردو پڑھنے اور بولنے سے خاصی دلچسپی تھی۔میرے اِس سوال پر کہ انہوں نے اردو کا انتخاب کیوں کیا؟ جواب مسرور کن تھا۔‘‘ہمارے گہرے دوست ملک کی یہ زبان ہے۔ہمارا خیال ہے ہمارے لیے نوکریاں ملنے کے زیادہ چانس ہیں۔’’

اب میں کیا کہتی؟خفیف سی ہنسی ہونٹوں پر ضروربکھری۔ میں بولوں کہ نہ بولوں جیسی کشمکش نے اُدھم مچادیا۔ جل کر اندر نے کہا۔‘‘ جا کمبخت تجھے اگر پردہ رکھنا نہیں منظور۔ تو کھول دے سارے پول ۔پھوڑ دے اپنے سارے بھانڈے۔ کھل کربتا انہیں کہ ہم تو احساسِ کمتری کی ماری قوم ہیں۔ ’’
چلو نوکریوں کامسئلہ تو رہا ایک طرف۔ ہمارے تو سماجی رویے بھی نرے غلامانہ ہیں۔ رشتہ کرنا ہے۔لڑکی یا لڑکا اردو میں ایم اے ہے۔گھر کا ان پڑھ سربراہ بھی ناک چڑھا کر کہے گا۔ اے ہے نرے نالائق۔ ان کا مستقبل کیا ہے؟ دفع دورکرو ۔ہمیں نہیں کرنا یہ رشتہ۔مادری زبان یعنی پنجابی سندھی وغیرہ کا پتہ چل جائے تو جان جائیے نالائقی کا ٹھپہ سج گیا بچے بچی کے ماتھے پر۔ہاں انگریزی ذہانت اور قابلیت کی پکی پکی سند ہے ۔
تو میرے بچو تمہاری محبت کی میں احسان مند ۔تم چینی ہو تمہاری حکومت تمہارے لیئے فکرمند۔سمجھو تمہاری نوکری تو پکی۔
اردو لائبریری دکھانے کی خواہش میری تھی کہ چاہتی تھی دیکھوں تو سہی کون کون سے مصنف یہاں موجود ہیں۔
تین منزلہ لائبریری کی وسعتیں اور جدتیں دونوں نے حیران کردیا تھا۔تیسری منزل پر اردو کا ایک حصّہ تھا۔ اب ریکوں میں عجیب و غریب سے نام براجمان تھے۔میری نالائقی کہہ لیں۔ میں تو ناواقف تھی سب سے ۔ہاں مرزا حامد بیگ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔مستنصر کیوں نہیں ہے یہاں؟چلو شکر حمید شاہد اور ڈاکٹر رشید امجد سوغات کے طور پر نظر آئے۔
جب نیچے آئے ایک روکھے پھیکے قطعے سے آگے ایک بڑی انوکھی وضع کی عمارت نے متوجہ کیا۔پتہ چلا یہ متحدہ عرب امارات کا تحفہ ہے۔مشرقی زبانوں کی عظیم الشان لائبریری ہے یہاں۔اِسے دیکھا ۔دکھ بھی ہوا کاش ایسا کوئی تحفہ ہمیں بھی عنایت ہوتا۔دل نے کہا ۔
‘‘اری او احمق دینے والے بھی تو یہ دیکھتے ہیں کہ لینے والے قدرشناس بھی ہیں یا بس ایسے ہی دو نمبرئیے ہیں۔’’

ہم تینوں اب اس ویران سے میدان میں آکر بیٹھ گئیں جہاں خشک اور بے ترتیب سی گھاس کے قطعوں میں بینچ دھرے تھے۔دھوپ نے سوتیلی ماں جیسی سرد مہری کا چولہ جسے میرے سریر کے انگ انگ نے صبح محسوس کیا تھا اتار کر سگی اور چاہنے والی ماں کی ممتا جیسا نگھا دو شالہ اوڑھ لیا تھا۔
ایک اجنبی ماحول علم کی خوشبو میں بسا ہوا چہار سمت مہک رہا تھا۔ایسے میں دونوں خواتین سے گفتگو کا جو سلسلہ شروع ہوا ۔اس میں کچھ چینی کلچر و ثقافت سے شناسائی کا تھا کچھ ذہن میں چبھتے ہوئے سوالات بارے بھی تھا کہ ملک میں گذشتہ کچھ ماہ سے چینی لڑکوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادی اور پھر اِن لڑکیوں کو چین لے جاکر بیچنے والا شور شرابا تھا۔اب پڑھی لکھی مقامی خواتین میسر آئیں تو پوچھ بیٹھی کہ بھئی یہ کیا سلسلہ ہے؟
شبنم ہنسی۔میرا تو اپنا ایک عزیز پاکستانی دلہن بیاہ کر لایا ہے۔بہت خوش ہے۔مزے میں ہیں دونوں۔
نسرین نے کھل کر پس منظر کی وضاحت کی۔

دراصل چین شادی کے حوالے سے مردوں کے لیے بہت زیادہ مہنگا ہے۔ظاہر ہے جب عورتیں مردوں کی نسبت کم ہوں گی تو عورت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔2012-13 کے سروے کے مطابق 30سے 39برس کے کنوارے مرد 11959000ہیں جبکہ 28سے 32سال کی غیر شادہ شدہ عورتیں صرف 5820000ہیں۔گویا کم و بیش کوئی نصف سے بھی زیادہ کا فرق تو ہے۔
عمر اور عثمان کینٹین سے ڈسپوزبیل گلاسوں میں کافی لے آئے تھے۔انتہائی رغبت اور مسرت سے میں نے گلاسوں کو دیکھا اور سوچا۔‘‘ خدا کیسا پیارا ہے۔ دل میں جھانک کر جان لیتا ہے کہ اس کا بندہ اس وقت کِس چیز کا طلب گار ہے؟’’
نسرین نے چھوٹا سا سپ لیا اورمیرے اوپر چینی ثقافت و تہذیب کے دلکش پہلو کھولے۔
چینی قوم کی صدیوں پرانی تاریخ ،اس کے شادی کے مکتب سے جڑنے کی گواہ ہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ وقت کے چلتے ہوئے پہیوں میں روایات کی تغیر پذیری کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری و ساری رہا۔تاہم کچھ خاص قسم کی روایات کل بھی اس سماج کا حصّہ تھیں اور آج بھی ہیں۔

پرانے وقتوں میں پہلی دلچسپ رسم تو وچولے کے گرد گھومتی ہے۔گو شہروں میں اب صورت حال خاصی مختلف ہے۔انٹرنیٹ،میرج بیور ٹائپ کے لوگ اِس میدان میں کودے ہوئے ہیں۔لو میرج کا بھی خاصا رحجان ہے ۔تاہم دور افتادہ جگہوں پر پرانے طور طریقے تھوڑے سے جدّت کے تڑکوں سے ابھی بھی رائج ہیں۔
واہ نسرین یہ تو میں پاکستانی شادی نامہ سُن رہی ہوں ۔بھئی اتنے گوڑے اور پیار کرنے والے ہمسائے ہیں۔کلچر میں بہت سی چیزیں مشترکہ تو ہوں گی۔
دونوں لڑکیاں خوبصورت ہی نہیں ذہین بھی تھیں۔دل میں اُتر جانے والی بات کرنا جانتی تھیں۔ہاں اور سُنیے ۔ نسرین مسکرائی ہندوستانی شادی کی طرح جنم پتری کے ساتھ ستارے کیا کہتے ہیں؟ فریقین کے لیئے جاننا بے حد ضروری ہے ۔دونوں کے ستارے ٹکرا تو نہیں رہے۔ہم آہنگی کا اشارہ مل رہا ہے یا نہیں۔یہ سب اہم ہیں۔اگلا مرحلہ اس کے بعد کا ہی ہے۔
حتمی فیصلہ تو لڑکی والے ہی کرتے ہیں۔منگنی کی رسم پر لڑکی کی قیمت اور لڑکی والوں کے لیے تحائف اہم ہیں۔ دلہن کی قیمت کی ادائیگی تو اسی وقت ہوجاتی ہے۔ تحائف کِس نوعیت کے ہوں؟اکثر و بیشتر تو اپنی حیثیت کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔مثلاً پھل،چائے،ناریل،مٹھائی ،نفیس قسم کے کھانے اور اب اِن میں پرفیوم اور ڈیکوریشن کی چیزیں بھی شامل ہوگئی ہیں۔
‘‘اُف نسرین اضطراری سی کیفیت میں گفتگو کاٹتے ہوئے میں بے اختیار ہی بول پڑی تھی۔ شکر کرو یہ تحائف پھلوں اور بسکٹ کیکوں تک ہی محدود ہیں۔ہمارے ہاں تو صورت خاصی گھمبیر ہے۔’’
زور دار قہقہ گونجا تھا۔
‘‘ فکر نہ کریں تبدیلی کی ہواؤں میں اب یہاں بھی بڑی تیزی آرہی ہے۔منگنی کی رسم دھوم دھڑکے سے منائی جانے لگی ہے۔’’
پراب دھوم دھڑکے پر جو خرچ ہوتا ہے اور فضولیات کا جو طوفان ہماری زندگیوں میں داخل ہورہا ہے۔ اُن کا بوجھ بھی لڑکے والوں پرہی پڑتا ہے اور ہاں اب شہری علاقوں میں تو ماشاء اللہ سے اپارٹمنٹ بھی مطالبات میں شامل ہوگیا ہے۔کار بھی ضروری ہے۔سچی بات ہے بسا اوقات تو لڑکے کے خاندان والے ایسے مقروض ہوتے ہیں کہ مدتوں بیچاروں کو استواری نہیں آتی۔
ماشاء اللہ سے یوں بھی اب چین میں لوگوں کے پاس بڑا پیسہ آگیا ہے۔اُن میں اِس کے اظہار کی خواہش بھی زوروں پر رہتی ہے۔وہ اپنی دولت کا شواف کرکے سوسائٹی میں اپنی واہ واہ بھی طمطراق سے کرواتے ہیں۔

سچی بات ہے لطف آرہا تھا یونہی جیسے اپنے ہی ماحول اور اپنی ہی سوسائٹی لعن طعن کی نوک پر ہو۔اور یقینا ً یہ تصویر تو اپنی ہی تھی۔ بس کچھ حصّوں میں کردار ایک جیسے تھے اور کچھ میں اُلٹ۔سارا پنجاب بیٹی بھی دو اور گھر بھی خالی کرو جیسے کردارکا عکاس ہی تو ہے۔جب کہ خیبر پختو نخوا میں معاملہ چین جیسا ہے۔
شبنم نے ان میں کچھ مزید اضافہ کرتے ہوئے بتایا۔
اب برائیڈ پرائسس میں گھر کار اور پیسے سب شامل ہوگئے ہیں۔سچی بات ہے 52%فی صد چینی عورتیں گھر کو شادی کا اہم عنصر خیال کرتی ہیں۔بیجنگ میں گھر کی اوسط قیمت آپ شاید جانتی نہ ہوں۔تقریباً کوئی 37اور چالیس ہزار RMB فی مربع میٹرکے درمیان ہوتی ہے ۔اب ایک مرد اور خاندان کی مشکلات کا اندازہ لگا لیں اگر وہ نچلے ،متوسط اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
خالی گلاس دور ڈسٹ بن میں پھینکنے کے لیے اٹھتے ہوئے شبنم نے کہا ۔

ہاں اس کا ایک اچھا پہلو یہ ضرور ہے کہ نئے جوڑے کو نئی زندگی کی شروعات میں مدد مل جاتی ہے مگر انسانی فطرت کی کمینگیاں اور گھٹیا پن بھی ظاہر ہوجاتے ہیں۔چین کے بعض ترقی پذیر علاقوں میں لڑکی کے خاندان والے اِس رقم کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور اس سے خود فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ارے بھئی نسرین و شبنم یہ تو سارے گھر سے گھر تک کے منظر میں نے دیکھے ہیں۔ اب زرا بیاہ کا احوال بھی سُنا دو۔
چین میں سول آفئیر بیورو سے شادی کا قانونی نکاح نامہ حاصل کرنابہت اہم ہے۔یہ سرخ رنگ کے بروشر ٹائپ کاغذات ہوتے ہیں۔رجسٹریشن کے بعد ہی شادی کی اگلی تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے۔

شادی کا جوڑا بالعموم سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ویسے آج کل مغرب کی نقالی میں سفید کا رواج ہوگیا ہے۔تاہم روایتی پسندیدگی سُرخ رنگ کے حق میں جاتی ہے کہ چینی اِسے خیر و برکت کا رنگ سمجھتے ہیں۔یہ منظر بھی ہوبہو اپنا ہی ہے۔ہاں بس نقطہ نظر میں ضرور فرق ہے۔ہمارے ہاں تو اس رنگ کو سیکس کے ساتھ جوڑتے ہیں۔وحشت اور درندگی کی صف میں بھی کھڑا کردیتے ہیں۔ویسے آپس کی بات ہے پاکستان میں اکثر سرخ جوڑے پہننے والیوں کے ساتھ بہت سے درندگی والا کھیل ہی کھیلتے ہیں۔ شادی کارڈوں ،دلہن کے تحائف ،عروسی کمرے کی زیبائشی چیزوں مثلاً کشن،دیواروں پر سجی تصاویر،ڈریگنDragonاور فینکسPhoenixکینڈل سجانا بھی ضروری ہے۔

شادی ہال میں پہلے زمین اور جنت کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری۔پھر دولہا کے والدین کو تعظیم دینا کہ انہوں نے بیٹا جنا اور اس کی پرورش کی۔تیسرا دولہا دلہن کا ایک دوسرے کو کہ وہ ہمیشہ کے لیے ایک محبت بھرا رشتہ قائم کرنے جارہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ کامیاب ہوں گے۔
تقریباً ڈھائی گھنٹے کی اِس نشست سے اگرچہ لطف اندوزی تو تھی ہی مگر اس پائے کی ہر گز نہ تھی کہ جہاں حیرتوں کا جہاں وا ہوتا ہے۔تھوڑی بہت ماڑی موٹی جمع تفریق کے علاوہ سب کچھ تو اپنا اپنا تھا۔اتنا فرق تو اپنے شہروں کے سو دوسو میل کے فاصلوں پر بھی ہوتا ہے۔

چینی بارات کا کروّفر اور آج کل چینی برینڈڈگاڑیوں کے سڑکوں پر تیرتے فلیوٹ کے ساتھ جانا پسند کرتے ہیں۔یہ نمائش دونوں کا شملہ اُونچا کرتی ہے۔ہاں البتہ باراتیوں اور مہمانوں کو تحفوں سے نوازنا بہت اچھا لگا۔اِس رسم کو اگر پاکستانی اپنائیں تو سچی بات ہے نیوتا ڈالنے والوں کے دلوں سے دعائیں نکلیں گی۔دوسرے چینیوں کی اِس اچھی عادت کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے کہ سرخ کاپی پر نیوتے کی جو رقم تحفے کی تفصیل کی صورت نوٹ کی جاتی ہے۔پاکستانی اتنی بھلکڑ قوم ہے کہ اپنے ساتھ ہر سیاسی ستم کو بھول جاتی ہے۔نیوتے کے معاملے میں بھی ڈنڈی مارنے کی عادی ہے۔دینے والے کو تو یاد ہوتا ہے۔لینے والا بھول جاتا ہے۔ سند ہونی چاہیے۔ بسا آوقات جب توتکار کی نوبت آ جائے اور فریقین الزام تراشی پر اتر آئیں تو کاپی کھول کر انہیں آئینہ دکھا دیا جائے۔اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا ۔باقی حجلہ عروسی کی سجاوٹ بھی بس ایک جیسی ہی ہے۔ماں کے گھر دوسرے تیسرے دن واپسی یا ہنی مون والا معاملہ بھی ٹھیک ہے۔
اور باقی سب خیر خیریت۔کچھ عرصہ بعد لڑائی جھگڑے یا طلاق وغیرہ بھی کومن چیزیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاک چین دوستی زندہ باد کہ شادی جیسے اہم معاملات میں ناقابلِ یقین ہم آہنگی بھی موجود ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply