داستانِ زیست۔۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط25

نئی نوکری ہو یا شادی یا معشوق نیا ہو ،جوش اور ولولہ ہنی مون جیسا ہی ہوتا ہے۔اگلے روز ہم بریگیڈئیر صادق سے پہلے ان کے دفتر پہنچ گئے، گیس کمپنی کے سیٹھ صاحب سے مجوزہ ایگریمنٹ کے متبادل ایک ڈرافٹ تیار تھا۔
اس کے ساتھ فوجی رفاعی ادارے کے گیس پراجیکٹ کے ساتھ جوائنٹ ونچر کا بریف بھی ہم نے بنا رکھا تھا۔
ان کی نوک پلک درست کرتے ٹائم لگا اور بریگیڈئیر صاحب پہلے لیٹ آئے پھر مصروف رہے۔ ہماری میٹنگ رات آٹھ بجے شروع ہوئی۔ دونوں ڈرافٹ پر کلاز بائی کلاز بحث ہوئی، معاملہ سیریس تھا، کرتے کرتے دس بج گئے تو انہوں نے حتمی طور فرمایا کہ اس طرح تو یہ معاہدہ نہیں ہو گا۔ ہمیں جب سیٹھ کی شرائط منظور نہیں تو وہ کیوں ہماری بات من و عن مانے گا۔
ہم نے عرض کی کہ اگر گیس کا کوٹہ بیچنا ہے تو سیٹھ کو دے دیں، مارکیٹنگ کرنی ہے تو یہ پروپوزل ہے ۔۔
ہم نے جے وی کا ڈرافٹ پیش کیا۔ انہوں نے پڑھ کے سوال کیا۔ یہ ہو گا کیسے ۔
ادب سے جواب دیا جیسے کوٹہ ملا تھا ۔ آپ صدر صاحب سے بات کریں۔ وہ ایم ڈی صاحب کو کہہ دیں گے۔تو پراجیکٹ کی جوائنٹ ونچر بن جائے گی۔ وہ مان گئے۔ ایک نمبر پہ فون کیا، میسج چھوڑا۔ رات گئے وہاں سے کال آئی ہمارے بیٹھے صدر صاحب سے بات ہوئی۔ اگلے روز پنڈی میں میٹنگ ہوئی اور پراجیکٹ فائنل ہو گیا۔
اگلے ہفتہ ڈی ایچ ایل کی ٹیم آئی۔ پاکستان کے اندر ترسیل کے لیے یہ نام استعمال نہیں ہو سکتا تھا ۔
ٹیکنالوجی اینڈ کوریئر سروس ۔ TCS نئی لوکل کمپنی بنائی۔ ڈی ایچ ایل کے ساتھ انٹرنیشل کوریئر سروس کا معاہدہ ہوا۔
ان تجربوں سے زیادہ اہم ہمارے لیے ٹیلی ڈائن کی مارکیٹنگ ٹیکنیکس تک رسائی تھی۔ دنیا بھر میں انڈنٹنگ نیٹ ورکس کے نظام کو سمجھنا۔ انتظامی امور کو کنٹرول رکھنا چھ ماہ تک ان سب پہلوؤں کا عملی تجربہ چشم کشا تھا۔
گیس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو بریگیڈئیر صاحب کے داماد بنے۔ بریگیڈیئر صاحب چھٹی پر انگلینڈ گئے تو ان کی جگہ ٹیلی ڈائن کا چارج ان کے بہنوئی  ریٹائرڈمیجر جنرل صاحب نے سنبھالا۔ ان دونوں صاحبان نے ہمیں بھی کلرکس کی طرح عام ملازم سمجھا۔ ہم نے یہ جُز وقتی نوکری چھوڑ دی ۔
ایمبیسی میں سکون ہونے اور بریگیڈئیر صادق کو جائن کرنے سے اسلام آباد کی تنہائی  کا احساس بہت کم ہو گیا تھا۔
دوسرا ہر ہفتہ ایک ورکنگ ڈے اور ویک اینڈ چکوال گزارتے۔ ایمبیسی میں  چھٹیاں جمع  تھیں، ان کو اس طرح لینے کی اجازت سفیر صاحب نے دی تھی۔
سی ڈی اے کے  افسر کزن جو ہمارے پڑوسی تھے ان کے ہاں آنا جانا ہونے لگا ، اِنکم ٹیکس کی مشاورت کا ٹیگ بہت مؤثر ثابت ہوا۔ انہی افسر کے بڑے بھائی پنڈی میں ٹیکس کمشنر بنے۔ میرے وہ لالکرتی رہنے کے زمانے سے منٹور تھے۔ ویسے بھی اسلام آباد میں افسران وکیلوں کے دوست ہوتے ہیں۔ کمشنر صاحب پنڈی مقیم تھے انکے گھر ملنے گئے۔ فیملی وزٹ اور فارمل سی ملاقات ہوئی ، انکے خیال میں ٹیکس کی وکالت ہم شغل اور شو شا کے لیے کر رہے تھے۔ یہ حقیقت بھی تھی، کہ کام صادق کرتے ، ہم تو بس ٹیکس آفس میل ملاقات اور کلائنٹس سے گپ شپ تک محدود تھے۔ ٹیکس کی کوئی کتاب تاحال ہم نے دیکھی بھی نہیں تھی۔
ہم نے پندرہ سال سکول ،کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ اگلے پندرہ سال فوج کے بڑے صنعتی ادارے کے ہیڈ آفس اور پراجیکٹ میں فنانس ، اکاؤنٹنگ کی ٹریننگ اور سفارت خانے میں پبلک ریلیشن، پروٹوکول ، ڈپلومیسی کی تربیت ہوئی۔ ساتھ عملی زندگی کے مسائل سے نپٹنے کے داؤ پیچ بھی سمجھ لیے۔ اب مارکیٹنگ کی سائنس کا کورس بھی مکمل ہو چکا تو ہم ذہنی طور پہ  اتنے میچور ہو گئے تھے کہ دنیا کے بہترین پروفیشن وکالت کی ٹیکس برانچ میں کام چلا سکیں ۔ لیکن اس کے لیے ہم سردار جی کے لطیفے والے ” دھکے ” کے منتظر تھے ۔
اس دھکے کے انتظار میں ایک سال اور گزر گیا۔ جس کے دوران چکوال آفس بارے صادق سے یہ طے ہوا کہ اگر کام اتنا بڑھ جائے کہ میری ضرورت ہو  یا میری ایمبیسی کی نوکری چلی جائے تو میں اسے بطور پارٹنر جوائن کر لوں گا۔
سفیر صاحب کا ٹرانسفر ہوا ۔ نئے سفیر صاحب جو بنیادی طور پولیس سے تھے اور دبنگ اتنے کہ ان کے آنے سے پہلے انکا خوف یہاں جاگزین ہوا۔ ایمبیسی میں ڈپلومیٹس سب کو بتاتے تھے، کہ وہ طویل قامت ، زنجباری رنگت اور بہت رعب دار شخصیت ہیں ۔ وہ جب پہلی بار چانسری تشریف لائے ،تو ڈپلو میٹس کے علاوہ ریسپشن پر انکا استقبال کرنے والا راقم ہی تھا۔ ہم بچپن سے جرنیل اور آئی جی دیکھتے آ رہے تھے۔ ڈپلو میٹس سے عربی کی یلا بازی اور
تکریمی ڈائیلاگ ختم ہوئے تو سیڑھیوں کے پاس ہم کھڑے تھے۔ سلام کیا  تو ایڈمن اٹیچی نے تعارف کرایا ۔۔
ھذا محاسب فی سفارہ۔۔ ان کی گرج دار آواز گونجی ،، Who ? , ہم نے آگے بڑھ کے کہا ایکسیلینسی ۔ ایم اکاؤنٹنٹ !
تھوڑی سی مسکراہٹ اس کرخت چہرے پر پھوٹی۔ ہم نے سٹاف کا تعارف کرایا۔ انکے آفس تک ساتھ گئے۔وہ اپنی سیٹ پر براجمان ہوئے ریوالونگ کرسی چر چرائی۔ بیٹھے ہوئے اسے دو جھٹکے دیئے ۔ وہ سہہ گئی ۔
پہلا آرڈر ایشو ہوا ۔ ۔چینج دس چیئر۔ ۔۔ ہم نے عربی میں جواب دیا۔” تحت امرک “
ان کے چہرے اور آنکھوں میں سمائل آ گئی۔ ہمیں حوصلہ ملا تو عرض کیا ۔۔ ایکسیلینسی، یہاں اور ریزیڈنس میں بہت کچھ بدلنے کے انتظار میں ہے !
مجھے غور سے دیکھا۔ جیسے size up کر رہے ہوں ۔ ڈپلو میٹس انکے دفتر میں آنے لگے تو ہم چپکے سے کھسک آئے۔
سارا سٹاف سہما ہوا تھا۔ لیڈی سیکرٹری سمیت سب ہراساں تھے، ہم نے پہلی غلطی کی ،سب کو تسلی دی کہ یہ غصہ رعب اور دبدبہ پہلا امپریشن بنانے کو ہے سفیر صاحب بہت خوش مزاج ہیں !
اگلے دن چانسری پہنچنے پہ  پوری بلڈنگ کا معائنہ ہوا۔ مجھے بلوایا گیا۔ سفیر صاحب نے دل چسپ کمنٹ دیئے ،
خان یا تو تم کوئی کام نہیں کرتے ! یا سارے کام تمہارے ذمہ ہیں۔ رہائش گاہ سے یہاں تک میں نے جس کام بارے پوچھا ایک ہی جواب ملا۔ خان صاحب نے نہیں  کیا۔ خان صاحب نے کرنا ہے ۔
بعد میں میٹنگ ہوئی۔ دوسری غلطی مجھ سے ہوئی۔۔ کہ میں نے انکی سیکرٹری سمیت سب کے تفصیلی تعارف پیش کیے۔
ان کی مجبوری اور مسائل بھی گنوائے جن کی وجہ سے وہ کوتاہی کر سکتے ہیں ۔
پنجابی میں کہتے ہیں ۔۔ بندہ کرے کوولیاں رب کرے سولیاں۔۔۔
ایمبیسی میں چار سینئر ڈپلومیٹ کی ٹرانسفر ہوئی انکی جگہ فارن آفس نے چار نوجوان افسر بھیج دیئے شاید آن جاب ٹریننگ مقصود ہو گی۔ چار سکیورٹی کے اہلکار بھی بھیجے گئے کہ ان دنوں یہاں سفارت خانے کچھ غیر محفوظ ہو رہے تھے۔
سفیر صاحب کی رہائشگاہ بھی دوبارہ ایف سیکس سیکٹر میں شفٹ کی گئی۔ یہ گھر نیوی کے ریٹائرڈ ایڈمرل شیخ کا تھا۔
اس گھر کے لیے نیا فرنیچر خریدا گیا۔ ایمبیسی کے لیے نئی مرسیڈیز کار بھی ایڈ ہوئی۔
ہمیں اسلام آباد کی سوسائٹی نے قبول کیا تو ہم حد سے بڑھ کر سوشل ہو گئے
مزدا کار بیچ کے ٹیوٹا مارک ون خریدی۔ گھر میں بار روم اپڈیٹ کیا۔ ڈرنکس کے بانڈڈ سٹور سے تعلقات مزید گہرے کیے۔۔
بیئر رکھنے کے لیے اپ رائیٹ ڈیپ فریزر اور سونی کا ستائیس انچ کا نیا ٹی وی ۔ اور G 10 وی سی آر بھی بانڈڈ سٹور سے لیے۔ پنڈی میں ایک دوست بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ میں ایکس سی این پوسٹ ہوئے وہ شام کے ریگولر وزیٹر بن گئے۔
صدر ہاؤس میں مقیم دوست جو شاعر،ادیب اور مزاح نگار تھے وہ اور لکھاری دوستوں کے ساتھ  ملنے آتے۔
ٹیلی ڈائن چھوڑ چکے۔ چکوال جانا بھی کم ہو گیا۔ شام کی محفل روزانہ لگتی۔۔
ایمبیسی میں جو کام ذمہ لگتا وہی کرتے، پہلے کی طرح اب چانسری اور ریزیڈنس سر پہ نہیں اٹھائے پھرتے تھے۔
سفیر صاحب کے زبانی حکم پہ چار لوکل ملازمین کو برخاست کیا۔ بغیر دلیل و حجت بس آرڈر کی تعمیل کرتے۔
اس دوران ہم بروئے کار عشوے اور غمزے نوٹ نہ کر سکے۔۔ یا ہمیں اب دلچسپی نہیں رہی تھی۔
ہم جتنی سپیس خالی کرتے گئے لازم تھا یہ خلا کوئی اور پُر کر رہا تھا۔ نیشنل ڈے کے فنکشن میں بھی ہم ہوٹل میں پروٹوکول تک محدود تھے۔ فنکشن کے بعد رات سفیر صاحب کے گھر پارٹی میں ہم موجود نہ تھے۔ ہمارے اپنے گھر پارٹی جو تھی۔ کسی کولیگ نے ایف ایکس کار ٹیوٹا کرولا میں کیسے بدلی ہم لا غرض تھے۔ ایڈمرل صاحب کا گھر کس ڈیلر کی معرفت لیا گیا۔ کوئی خبر نہ تھی۔ ڈرنکس کے کتنے کریٹ چانسری کے سٹور سے نکلے ہمیں مطلب نہ تھا کہ سٹور کی چابی اسسٹنٹ کے پاس ہوتی تھی۔
یوں ہماری دل چسپی اب اس میں بھی نہیں تھی  کہ سفیر صاحب گالف ٹورنامنٹ کیوں کرا رہے تھے، ذاتی استعمال کے لیے وطن لے جانے کو مرسیڈیز 190 اور 500 SEL یہاں کیوں امپورٹ کیں۔ ڈپلومیٹک کوٹہ پہ رہائشی پلاٹ کس کے لیے الاٹ کرایا گیا۔ ہم تو اپنے تئیں خود سے سائیڈ پر ہوئے لیکن جب مالی مفاد ہو تو بندہ اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہے۔ ہمارے اور ہماری کولیگ کو ہم سے دھڑکا تھا ، لیکن ہم بے خبر تھے ۔ پھر دھکا لگنے کی نوبت آ ہی گئی !!
نئے آنے والے ڈپلومیٹس اور سکیورٹی پرسونل سے زیادہ راہ رسم بڑھانے کی ہم نے کوشش ہی نہ کی۔
ان لوگوں کے لیے گھر لینے ،سازو سامان خریدنے اور دیگر خدمات میں ہمارے اسسٹنٹ  چوہدری،لیڈی سیکرٹری اور ایک ڈرائیور پیش پیش تھے۔
اسلام آباد میں جہاں ہر کام کمیشن پہ ہوتا ہے اور پھر اس کمیشن کو جانچنے کے لیے کمیشن بنتے ہیں۔ سفارت کاروں کے لیے کرایہ پر گھر لینے سے گھریلو سامان بیچنے تک سٹاف کا کمیشن میں حصہ ہوتا ہے یہ کاروائی سمجھ آتی ہے لیکن ہماری شہرت ایسی تھی کہ ہمیں کسی نے کبھی آفر کی کوشش نہیں  کی تھی۔ اب ہمیں دل چسپی بھی نہ تھی۔
پھر ایک روز ہم سالانہ بجٹ کے اعداد و شمار بنا رہے تھے۔ چھٹی ہو چکی تو چپڑاسی نے دفتر بند کرنے کو ہمیں اٹھا دیا۔
سٹاف میں جن کے پاس اپنی سواری نہیں  تھی انکو آبپارہ تک ڈراپ کرنے کی سہولت ہم نے ہی فراہم کرائی تھی۔
نیچے اتر کے آئے تو یہ سب کھڑے تھے کہ ڈرائیور گاڑی موجود نہ تھی۔ ہمیں درخواست کی گئی کہ ڈرائیور کا پتہ کریں۔
ہم نے سفیر صاحب کے گھر فون کیا۔ سفیر صاحب نے خود اٹھا لیا۔ سلام کیا اور پوچھ بیٹھے کہ  ایکسیلینسی کیا یعقوب ڈرائیور وہاں ہے ۔ ان کا پارہ چڑھ گیا۔ ۔غصے میں کہا، کیا یہ میرا کام ہے کہ ڈرائیور کا پتہ لگاؤں !
ہم معذرت بھی نہ کر سکے ۔۔فون پٹخ دیا گیا۔ سٹاف پیدل چلا گیا۔ ہم گھر روانہ ہو گئے۔
اگلی صبح لاؤنج میں سفیر صاحب نے سارا سٹاف جمع کر کے مجھے طلب کیا۔ چوہدری سے پوچھا کہ کل مجھے فون کیوں کیا گیا۔ اس نے بتایا کہ گاڑی نہیں تھی ہم نے خان صاحب سے کہا کہ ریزیڈنس سے پتہ کر دیں ۔ اگر ڈرائیور آئے گا تو ہم انتظار کریں ورنہ پیدل ہی سٹاپ پہ چلے جائیں ۔۔
سفیر صاحب بہت غصے میں بولے ، تو تم لوگوں نے یونین بنا لی ہے۔ خان تمہارا لیڈر ہے۔ اسے میں معطل کرتا ہوں اور جو اب اس کے حق میں بولے گا اسے ابھی برخاست کر دوں گا، ہمارے ملک میں بنگلہ دیشی سفیر کو بھی اس کے گھر کوئی لوکل ملازم فون نہیں کر سکتا ۔۔ سب پہ سکتا طاری ہو گیا۔
سوائے چوہدری ، اسسٹنٹ اور سیکرٹری بی بی کے۔ چوہدری کو مخاطب کر کے حکم ہوا تم ابھی اس سے چارج لے لو۔
ہم نے مسکرا کے سفیر صاحب سے کہا، تحت امرک ، یور ایکسیلنسی ! وہ اور سٹپٹا گئے۔
چوہدری کو چارج دیا۔ لسٹ پہ  وصولی کے دستخط تک ایک گھنٹہ لگ گیا۔ لیکن اس نے نہ افسوس کیا اور نہ اس معطلی پر کوئی بات کی۔ ہم فارغ ہو کے فرسٹ سیکرٹری صاحب کے پاس گئے اور سفیر صاحب سے ملنے کی درخواست کی، ساری کاروائی انکے علم میں تھی، مجھے اپنے آفس میں چھوڑ کے وہ سفیر صاحب کے پاس گئے۔ کافی دیر بعد آئے اور مجھے کہا۔ جاؤ مل لو ۔۔ لیکن دھیان سے ۔ وہ تمہیں واپس نہیں لیں گے، میں نے کہا میں اب یہاں رہنا بھی نہیں چاہتا ۔ بس شکریہ ادا کرنا ہے ۔۔۔
سفیر صاحب کے کمرے میں چوہدری موجود تھا۔ اندر داخل ہوتے سلام کیا۔ سفیر صاحب نے ڈیسک کی دراز کھولی اورگن نکال کے میز پر رکھتے  ہوئے کہا۔ خان میں تیار ہوں تم اگر فائر کرو گے تو پہلے میں کروں گا۔
میں آرام سے کرسی کھینچ کے اس پر بیٹھ گیا۔ میری آنکھوں میں دیکھ کر بولے، مجھے جنرل ضیاالحق اور محمدخان جونیجو بھی تمہیں واپس لینے کو کہیں تو میں استعفی دے دوں گا۔ ساتھ دراز سے عربی میں ٹائپ ایک لیٹر دکھایا۔۔
چوہدری کو میں نے بطور گواہ ساتھ رکھا ہے کہ تم اپنے مہربانوں کو میرے خلاف کوئی کہانی نہ سنا سکو۔۔۔
میں نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بہت سکون سے کہا۔ سر ایسی کوئی بات  تھی ،نہ ہو گی۔۔۔
آپ کا نمک کھایا، حلال کیا۔ آپ کی بردرانہ شفقت کا ممنون ہوں۔ آپکی فیملی کی محبت کا بھی شکر گزار ہوں۔
بیچ میں بول پڑے ۔۔ تمہیں نوکری کی قدر نہیں۔ اتنی تنخواہ یہاں کسی پاکستانی کو نہیں ملتی۔
اس کے بعد چارج شیٹ سنانی شروع کی۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ کس نے یہ سب ان سے بیان کیا ہو گا۔
اتنے میں فون کی بزر بجی۔ وہ سنتے رہے۔ فون رکھا تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔انتہائی ادب سے عرض کیا۔
سر آپکا بے حد شکریہ ۔ میں اپنا مقدر ساتھ لے کے جا رہا ہوں۔ یہاں کسی اور کو نصیب ہو ہی نہیں سکتا۔
آپ کو جس بات کا شک ہے مجھے سمجھ آ گئی۔ یہ وہم ڈالا گیا ہے، بہر حال میری غلطیاں معاف کر دیجیے گا۔۔
آپکے لیے اور آپکی فیملی کے لیے دعا گو رہوں گا۔ ایمبیسی آنے کا تو سوال ہی نہیں ہو گا۔۔
میرے واجبات کا چیک جب بھی تیار ہو پلیز میرے گھر بجھوائیے گا۔ اپنے سٹائل میں سیلوٹ کر کے باہر نکل آیا۔
جیسے اسلام آباد کا فیشن ہے کہ یہاں صدر ہاؤس اور پی ایم ہاؤس سے جب کوئی عزت سے نہیں نکلتا۔ ہماری بساط کیا تھی ! اس چانسری سے جہاں ہم ہر جانے والے کو پارٹی دے کے بھیجتے تھے ۔۔۔۔۔
ہم ایسے وداع ہوئے کہ کسی بھی بندے نے سلام تک کرنے کی جرات نہ کی ۔۔۔
بقیہ ضمیمہ ۔ جاری ہے !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply