ڈیل اور ڈھیل ۔۔محمد فہد صدیقی

مرحوم شاعر محسن بھوپالی نے کہا تھا کہ !”نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے ،منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے” ۔سیاست کی یہ نیرنگی آج بھی جاری ہے اور اس کے رنگوں نے ہماری آنکھوں کوبے رنگ کردیا ہے، آج تک منزل بھی انہی کو مل رہی ہے جو شریک سفر ہوتے ہی نہیں ہیں ۔ہم نے اس سیاست کی نیرنگی اس وقت بھی دیکھی جب زیارت شہر سے واپسی پرقائد اعظم کو کراچی میں ایک خراب ایمبولینس میں سوار کرادیا گیا اور کچھ دنوں بعد ہم نے خبر سنی کہ ملت کا پاسبان ہمیں تنہا چھوڑ گیا ہے ۔ہم ابھی اس صدمے کے زیر ِاثر ہی تھے کہ راولپنڈی کے کمپنی باغ میں خان لیاقت علی خان کو گولی ماردی گئی ،اب ملک غلام محمد ہمارا  حاکم تھا ۔ایک ایسا شخص جس کی زبان سے الفاظ بھی واضح طور پر ادا نہیں ہوتے تھے ۔یہ بیمار شخص اس بے آسرا قوم کی حاجت روائی کیا کرتا ،اس کے اپنے چونچلے تھے اور اس کی اپنی ہی ایک دنیا تھی ،جس میں وہ مگن تھا ۔خدا خدا کرکے ہم” دور غلامیت” سے نکلے تو ”مملکت خداداد” کا تخت ایک کھلونا بن گیا۔کوئی چھ  ماہ کھیلا تو کسی نے ایک سال زور آزمائی کی ،کوئی مہینوں میں ہمت ہار بیٹھا تو کسی کو ہفتوں نے ہی نڈھال کردیا۔خواجہ ناظم الدین ،محمد علی بوگرا ،چوہدری محمد علی ،حسین شہید سہروردی ،آئی آئی چندریگر ،فیروز خان نون اور پھر  سکندر مرزا ،ہم نے کچھ سالوں میں اتنے حاکم دیکھے کہ دماغ ہی شل ہوگیا ،ہماری حالت میں رتی برابر فرق نہیں آیا ،ہم مفلس تھے اور مفلس ہی رہے ۔
ہمیں بحیثیت مجموعی ایک ”کنفیوز” قوم بنادیا گیا ہے ۔ہم دال روٹی کے گرد طواف کرتے ہی اپنی عمر تمام کردیتے ہیں ۔نہ ہم اسلامی ہیں اور نہ ہی جمہوریت سے ہمار ا کوئی تعلق رہا ہے ۔ہم پاک سرزمین پر ناچتی وہ کٹھ پتلیاں ہیں جن کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں ۔شریک سفر نہ رہنے والے ہمارے ناخدا ہمیں نچارہے ہیں اور ہم ہیں کہ ناچنے میں مگن ہیں ۔کوئی آیا اور ہمیں 10سال صنعتی ترقی کے نام پر نچایا گیا ۔کسی نے روٹی ،کپڑا اور مکان  کے نام پر ہمارا رقص دیکھا ۔کوئی شریعت کے نام پر ہم سے دھمال ڈلواگیا ۔کسی نے جمہوریت کا راگ الاپا تو ہم اس کے ساتھ تان میں تان ملانے لگے ۔کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا سُر بکھیرا تو ہم  پروجد طاری ہوگیا ۔کوئی” جمہوریت بہترین انتقام ہے” کے نام پر ہم سے داد سمیٹ گیا ،تو کسی نے ”تجربہ کار حکومت” کی غزل پر ہم سے تحسین پائی ۔
جالب نے کہا تھا کہ یہ جو 10کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں ۔آج ہم 22کروڑ ہیں اور ہم آج بھی جہل کا نچوڑ ہی ہیں ۔72سال سے پہلے بھی ہماری تگ و دو بھوک مٹانے ،اچھے علاج اور بہتر تعلیم کے لیے تھی اور آج بھی ہم انہی بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں ۔صنعتی ترقی ،روٹی کپڑا مکان ،شریعت کے نفاذ ،جمہویت ،سب سے پہلے پاکستان ،جمہوریت بہترین انتقام،تجربہ کار حکومت سے ہوتا ہوا ہمارا یہ سفر اب ”تبدیلی ”اور” ریاست مدینہ” تک آن پہنچا ہے ۔ہمارے لیے ہر پانچ دس سال بعد نعرہ تبدیل کردیا جاتا ہے ۔ہر دور میں باتیں ایک سی ہوتی ہیں ۔ہر نیا آنے والا جانے والے کو موردِ الزام ٹھہرا کر ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیتا ہے ۔72سالوں میں ہمارے سوگ بدلے اور نہ ہی ہمارے روگ بدلے ۔
ان 72سالوں میں اگر کچھ بدلا بھی ہے تو ہمارے ”ہیروز ” بدلے ہیں ۔کبھی ہمارے ہیروز سفید اجلے لباس میں   ملبوس فضل محمود ،حنیف محمد ،ظہیر عباس ،عبدالحفیظ کاردار ،عبدالقادر اور جاوید میانداد ہوتے تھے ۔آج ہمارے ہیروز جوئے کی تہمت دامن میں سمیٹے کرکٹرز ہیں ۔کبھی ہماری سیاسی رہبرقائد اعظم محمد علی جناح ، خان لیاقت علی خان ،خواجہ ناظم الدین ،حسین شہید سہروردی اور تمام تر نظریاتی اختلافات کے باجود مولانا مودودی ،مولانا شاہ احمد نورانی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیات ہوتی تھیں ،جن سے بدعنوانی کوسوں دور تھی اور آج ہر وہ سیاسی رہنما ہمارا ہیرو ہے جس پر کرپشن کا سب سے زیادہ داغ ہے ۔کبھی فیض ،جالب ،فراز ،منیر نیازی اور جون ایلیا جیسے شاعر ہمارے ہیرو تھے، تو آج جو شاعرجتنی خراب ”تُک بندی” کرتا ہے وہ ہمارا ہیروہے ۔ہر شعبے میں ہمارے ہیروز بدل گئے ہیں، اگر نہیں بدلا ہے تو ہمارا نصیب نہیں بدلا ہے ۔وہی سیاسی مداری ہیں اور وہی تماشے ہیں ۔”ریاست مدینہ ” میں بھی وہی ظلم کا راج ہے اور وہی درباریوں کے قصیدے ہیں ۔وہی پتلی  پرنچانے والے ہیں اور وہی ڈوریوں پر ناچنے والے ہیں ۔وہی بھوک کے ڈیرے ہیں اور وہی خشک لبوں کی پیاس ہے ۔وہی قانون کے رکھوالے ہیں اور وہی انصاف کے سوالی ہیں ۔وہی ”شجروں کی شجرکاری” ہے اور وہی چہرے بدلنے کی اداکاری ہے ۔وہی روٹی کی تلاش ہے اور وہی مذہب کی ساہوکاری ہے ۔وہی طاقتور کی حکمرانی ہے اور وہی کمزور کی ناداری ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تاریکی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے ۔ہمیں نہ جمہوریت کچھ دے سکی اور نہ ہی آمریت نے ہمیں فیض پہنچایا ۔ہمارے جمہوری حکمران آمرانہ طرز عمل کے باعث تباہ ہوگئے تو اور آمروں نے جمہوریت پسند بننے کی کوشش میں اپنی ناؤ خود ڈبودی ۔ہمارے مذہبی رہنماؤں نے تخت کے لیے بہروپ بدلا تو ہمارے ترقی پسندوں کو نوٹوں کی چمک نے ”تاریک پسند”بنادیا اور ہم جو 22کروڑ ”جہل کا نچوڑ ” ہیں،اب بھی اپنے تاریک بخت کے ساتھ سسک رہے ہیں ۔ہمیں نہ جمہوریت سے سروکار ہے اور نہ ہی ہم اب آمریت سے برسرپیکار ہیں ۔آج پھر وہی ”ڈیل” اور” ڈھیل” کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔اقتدار کی غلام گردشوں میں مہرے دوڑ رہے ہیں ،کھیل جاری ہے لیکن سرکار !آپ جس کے ساتھ ڈیل کریں ۔آپ جس کو چاہیں ڈھیل دیں ۔آپ جس کے ساتھ چاہیں این آر او کریں ۔آپ جس کی چاہیں جان بخش دیں ۔آپ جس کو چاہیں دودھ سے دُھلا قراردے دیں ۔ہمیں ان باتوں سے اب کوئی غرض نہیں ۔ہمیں بھی بس اب ایک ”ڈیل” چاہیے اور ہمیں بھی بس اب تھوڑی ”ڈھیل” چاہیے ۔ سرکار! بھوکے پیٹ میں روٹی ،برہنہ جسم کے لیے لباس اور کھلے  آسمان تلے بیٹھنے والوں کے سروں پر چھت کے لیے ایک ”ڈیل” ہمارے ساتھ بھی ،تھوڑی سی ”ڈھیل” ہمارے لیے بھی ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply