کنفیوزڈ نسلیں۔۔۔۔۔محمد اشفاق

عبداللہ حسین کی “اداس نسلوں” کا دور ستر کی دہائی تک رہا۔ ان نسلوں کی اداسیوں کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑا۔ آج ستر، اسی، نوے اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کی پاکستانی نسلیں “کنفیوزڈ نسلیں” ہیں۔ مگر ان کنفیوزڈ نسلوں کا نوحہ لکھنے کیلئے عبداللہ حسین کا قلم ہمیں دستیاب نہیں ہے۔

جلال الدین حقانی پہ میری پوسٹ پر ایک دوست نے سوال پوچھا کہ “دہشتگردوں کو گلوریفائی کرنے کا مقصد؟”

بے ساختہ اور بے تحاشا اپنا ماضی یاد کر کے، بیک وقت ہنسی اور رونا آیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس ہنسنے اور رونے کو بھی صرف میری نسل یعنی ستر اور اسی کی دہائی کے پاکستانی ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ملینئلز کو اب ہم کیسے سمجھائیں، ہم خود کنفیوزڈ ہیں۔

ہم نے اسی کے عشرے میں ہوش سنبھالا جب امریکی یہاں آ کر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تھے، پوری دنیا پاکستان کی پشت پہ کھڑی تھی اور ہماری زیرقیادت مجاہدین افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کر رہے تھے۔ اس وقت کا یورپ اور امریکا ان مجاہدین کو اپنے محسن کا درجہ دیتا تھا، ان کی نازبرداریاں کی جاتی تھیں، ان میں سے بعض کو اساطیری درجہ دے دیا گیا تھا اور وہ سب کے ہیرو تھے۔ جلال الدین حقانی انہی میں سے ایک تھے۔ روس کے افغانستان سے انخلاء کے بعد ان لیجنڈز کی باہمی لڑائیاں بھی جہاد پہ ہماری ریاست اور عوام کے ایمان کو متزلزل نہ کر سکیں، ہم نے یہی جہاد مقبوضہ کشمیر منتقل کر ڈالا۔

کشمیر جہاد سے ہماری جذباتی وابستگی بہرحال افغان جہاد کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔ گلی گلی چندے اکٹھے ہوتے تھے، الجہاد الجہاد کی صدائیں ہر سو گونجتی تھیں۔ اب کشمیری مجاہدین ہمارے ہیرو بننے لگے مگر دنیا نے جہاد اور جہادیوں کو ڈس اون کر دیا۔ ہم مگر ظاہر ہے اپنی ریاست کے ساتھ کھڑے تھے۔ اور یہ زیادہ پرانی بات نہیں، آج سے صرف بیس سال پہلے کے پاکستان کا منظر ہے۔

میں صرف اپنے سمیت اپنے دو دوستوں کی، ان کی اجازت کے بغیر مثال پیش کرتا ہوں۔ آج جس کھلنڈرے اور بے فکرے بائیکر عامر مغل کو آپ جانتے ہیں، آپ میں سے کتنوں کو پتہ ہے کہ کبھی وہ جہادی تنظیموں سے منسلک رہے ہیں؟ جو روشن خیال، حلیم الطبع، ترقی پسند دانشور مجاہد خٹک ہیں وہ صرف نام کے مجاہد نہیں، افغانستان جہاد میں شامل بھی رہے ہیں؟ اور جس جمہوریت، انسانی حقوق اور سولین بالادستی کے علمبردار محمد اشفاق کو آپ جانتے ہیں، کبھی لشکر طیبہ اور حزب المجاھدین کے سپرنگ افینسو کی اسے ہر کارروائی اور سٹریٹجی کی خبر ہوا کرتی تھی؟

پھر یوں ہوا کہ مختلف واقعات دیکھنے اور سمجھنے کے دوران عامر اور اشفاق پہ اور برستی گولیوں کی بوچھاڑ میں اپنی جان کیلئے بھاگتے ہوئے مجاہد حسین پر یہ انکشاف ہوا کہ ہم تو جہاد بھی سامراج کیلئے کر رہے ہیں۔ ہم ایک استعمار کے خلاف دوسرے استعمار کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں۔ شاید ہمیں ہماری ہی ریاست نے بیوقوف بنایا ہے۔ شاید لڑنے والوں کے سو فیصد نیک جذبات کو سو فیصد باطل عزائم کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہم وہیں سے پلٹ آئے۔

مگر اس پلٹنے کے دوران جو کچھ ہم نے کھویا، آپ ملینئیلز اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم نے اپنے خواب کھو دیے۔ اور خواب بھی کیسے ۔۔۔۔ اسلام کی نشاتہ ثانیہ کا خواب، خلافت کے احیاء کا خواب، محکوم مسلمانوں کو آزادی دلانے کا خواب۔ ان ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سمیٹتے انگلیاں فگار ہو گئیں، ان پر چل کر یہاں پہنچتے پہنچتے پاؤں چھلنی ہو چکے۔ اور ان کرچیوں کی چبھن آج تک صرف دل ہی نہیں روح تک کو گھائل کر رہی ہے۔

ایک اور صاحب کہتے ہیں۔ ” باقی تو ٹھیک ہے مگر آخر میں رونا سمجھ نہیں آیا” آ جائے گا حضور، جب آخر میں رونا پڑے گا تو ہمارا رونا بھی سمجھ آ جائے گا۔

میں نے عرض یہ کیا تھا کہ اسامہ بن لادن، ملا عمر اور جلال الدین حقانی تینوں کے مرنے پر میں رویا ہوں۔ کیوں رویا ہوں؟ اس لئے کہ ان تینوں کے ساتھ میرا ایک ایک خواب دفن ہے- ایک کے ساتھ اسلام کی نشاتہ ثانیہ کا خواب سمندر برد ہوا۔ دوسرے کے ساتھ خلافت کا احیاء مٹی میں مل گیا، اور تیسرے کے ساتھ محکوموں کی آزادی کا سپنا بھی دفن ہوگیا۔ میں کیوں نہ روؤں؟

آج جتنا مجاہد، عامر یا اشفاق اپنے موجودہ نظریات سے کمٹڈ ہیں، اتنے ہی (بلکہ شاید اس سے کہیں زیادہ، کیونکہ وہ عمر ہی اور تھی) وفادار اور کمٹڈ ہم اپنے بیس سال پہلے کے خیالات اور نظریات سے بھی تھے۔ بلکہ سچ کہوں تو اس وقت میں اپنے نظریات کیلئے جان دینے کو بھی تیار تھا، اب کم از کم اس لیول کی کمٹمنٹ نہیں ہے- کیونکہ ہم جیسوں کو یہ امکان یا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے کہ کہیں آج بھی ہم جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے نام پر سامراج کے ہاتھوں کھلونا تو نہیں بن رہے؟

عین ممکن ہے کہ آج سے پانچ، دس یا بیس سال بعد ہم اپنے موجودہ نظریات سے بھی اتنے ہی دور کھڑے ہوں جتنے دور ہم بیس سال پہلے کے نظریات سے نکل آئے۔ یہ سوچنے، سیکھنے اور جاننے کا ایک مسلسل عمل ہے جو ہماری نسل کے ہر سوچنے، سیکھنے اور جاننے والے شخص کے اندر مسلسل جاری ہے- ہم ماضی بھول نہیں پا رہے، حال کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور مستقبل کیلئے سمت کا تعین نہیں کر پا رہے۔ ہم کنفیوزڈ نسل ہیں۔

اور آپ یعنی ملینئیلز اس لئے کنفیوزڈ ہیں کیونکہ آپ یہ سب کچھ مس کر چکے، اور جن سے آپ سیکھنا اور سمجھنا چاہ رہے وہ خود کنفیوزڈ ہیں۔ ایسے میں آپ کا سہارا “درسی مطالعہ پاکستان لازمی” ہے یا پھر پاکستانی میڈیا و سوشل میڈیا۔ اس لئے پیارے بچو آپ نے بھی کنفیوزڈ ہی رہنا ہے- البتہ بہت کچھ ایسا ہوگا جو ہم مس کر دیں گے، مگر آپ دیکھیں گے۔ اللہ کرے وہ سب دیکھنا آپ کو یا ہماری آپ سے اگلی نسل کو وہ یکسوئی، وہ توازن اور وہ ہم آہنگی دے دے، جس سے ہماری نسل محروم رہ گئی ہے۔

ہم جیسے ملکوں میں، جنہیں تخلیق ہی سامراجی مفادات کے تحفظ کیلئے کیا گیا ہے، یہی کچھ ہوتا ہے۔ کچھ نسلیں اداسی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، کچھ کنفیوژن کی لپیٹ میں آ جاتی ہیں۔ یہ کنفیوژن سوال کرنے اور جواب ڈھونڈنے سے ہی دور ہوگا۔

ہم نے اس وقت بھی سوال پوچھے تھے، جواب مانگے تھے اور سوچ بچار کی تھی۔ ہم اب بھی سوچ رہے ہیں، ہم اب بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ ہمارے سوالوں کے جواب شاید ہماری آئندہ نسلوں کو ملیں، مگر ہم جواب لے کر رہیں گے۔ آپ سوال اٹھاتے رہیے۔

بغیر اجازت اپنے تین نوجوان دوستوں کی مثال دیتا ہوں۔ عزیر سالار، محمد سمیع اور محمد دانش۔ تین مختلف صوبوں سے، تین مختلف لسانی گروہوں سے، تین مختلف سیاسی جماعتوں یا نظریات سے وابستہ ان تینوں نوجوانوں کو میں نے تین چار سال میں فکری ارتقاء کی ان منزلوں پہ پہنچتے دیکھا ہے جو بڑے بڑے بابوں کو نصیب نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ اندھی تقلید نہیں کرتے، یہ سوال پوچھتے ہیں، یہ جواب مانگتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اپنے نظریات یا خیالات کے غلط ثابت ہونے پر ان سے دستبردار ہونے میں ہچکچاتے نہیں ہیں۔ یہ اور ان جیسے لوگ ہمیں کنفیوژن سے نکالیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پوری پوسٹ پڑھ کر بھی آپ کو شاید اپنے سوالوں کا جواب نہ ملا ہو۔ میرے پاس کوئی مختصر اور آسان جواب نہیں ہوتے۔ مجھے زندگی سے مختصر اور آسان جواب ملے ہی نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply