دعوت اور اُس کے تقاضے۔۔حسان عالمگیر عباسی

ایک بات جماعتی حلقوں میں عام ہے۔ جی ہاں، یہاں ووٹ کو مقدسات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک اہم امانت ہے اور اسی کا حق ہے جو اہل اور متقی ہے۔ صالحیت اور صلاحیت قرآن کی اس آیت ‘ان اللّٰہ یامرکم ان تودوا الامانات الی اھلھا’ سے ثابت بھی ہے۔ لیکن ہم کس سے کب کیوں اور کہاں مخاطب ہیں [یعنی ٹارگٹڈ آڈئینس، اور کانٹیکسٹ] بھی قرآن کی اس آیت ‘ادعوا الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة و جادلھم بالتی ھی احسن’ سے ثابت ہے جو حکمت کی دنیا سے متعلقہ چیز ہے اور وہی سمجھتا ہے جو سیاسی طور پہ بالغ النظر ہو۔

ہم بنیادی طور پہ دعوت کے میدان کے کھلاڑی ہیں جہاں اصل ہدف اور مشن یعنی اسلامی نظام کا قیام ‘نصب العین’ ضرور ہوتا ہے لیکن اس کو پانے کے لیے عوام الناس کو سمجھنا، ان کا مزاج، ان کی سوچ، ان کا لیول، ان کے طور اطوار جاننا بھی اہم ہوتا ہے۔ اگر تو ہم جہاد کر رہے ہوں اور فوجیں میدان مارنے کے لیے سر بکف ہوں تو یقیناً تلوار کے زور پہ لوگوں کی سوچ دبائی جا سکتی ہے تاکہ اپنا سکہ رائج ہو سکے لیکن جب ہمارے سیدی نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے خفیہ سرگرمیوں سے ہٹ کے کام کرنا ہے، تشدد سے دور رہنا ہے، جلد بازی نہیں کرنی، اور ذہن سازی کرنی ہے جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ منزل حاصل ہو تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ہم نے جیسے کو تیسے کی بجائے اینٹ کا جواب پھول سے دینا ہے۔

ہمارے کارکنان اگر الیکشنز ہی کو کل کائنات سمجھنے لگے ہیں تو یہ اہم پیش رفت ہے۔ ہم نے اگر الیکشنز کو ہی دعوت کا میدان بنانا ہے تو پاکستان میں ہونے والے الیکشنز اور ووٹرز کا مزاج سمجھ کر ان کا مساج کرنا ہے۔ جماعت جب کہتی ہے کہ ووٹ ایک امانت ہے اور جس کے حوالے ہو گی اچھے اور برے اعمال میں ووٹ دینے والا برابر کا ذمہ دار ہے تو اس کا منفی نتیجہ وہی نکلنا ہے جو ہر اتحاد اور ایڈجسٹمنٹ کے بعد جماعت والوں کو موصول ہوتا ہے۔ عوام پھر حق بجانب ہیں اگر کہیں کہ طاغوت سے اتحاد اب حلال ہو گیا؟ ترانوں میں میوزک اب جائز ہو گیا؟ شوربہ حرام اور بوٹی حلال ہو گئی؟ اب منتخب امیدوار کے برے اعمال ووٹر کے اچھے اعمال ضائع نہیں کرے گا؟ لہذا کہے پہ قائم رہا جائے یا عوامی جماعت بنا جائے اور ہر حلال کو حرام بنا کر عوام کو کنفیوز نہ کیا جائے۔ دونوں صورتوں میں عوام خوشی سے جھومے گی۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب قول اور فعل میں عوام الناس اپنے لیول کے مطابق تضاد پاتی ہے۔ عوام کو “سینیٹ کے الیکشن میں اتحاد مجبوری ہے” بتانے کی بجائے اس عین حلال موو کو کسی اور موقع پہ حرام بنا کر پیش کرنے ہی سے بچا جائے تاکہ عوام کو ہمیں ماضی کے دریچوں میں دھکیل کر شیشہ دکھانے کا موقع ہی نہ ملے۔

دیگر کارکنان اپنی پارٹیوں کی حرام خوریوں سے تنگ آکر جماعت کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور تب ہی وہ کہتے ہیں کہ جن کو چور کہا جائے اور ان کے ساتھ اتحاد بھی ہونے لگے تو جماعت اور باقیوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ یقیناً اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ سیاست کا حسن ہے لیکن حسن اصل مقصد سے ہٹانے کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ ہمارا اصل ہدف لانگ ٹرم میں بے شک اسلامی انقلاب ہے لیکن فی الحال اس مقصد کے حصول میں رائے عامہ کی ہمواری سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ووٹ ایک امانت ہے، سینیٹ الیکشن میں جماعتوں نے مل جل کر چلنا ہوتا ہے، اور اس طرح کی دیگر سائنٹیفک باتیں عوام الناس کی سمجھ سے ہی باہر ہیں۔

اس کے باوجود کہ وہ سائنس سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ووٹرز تو ہیں اور جمہوریت کے ہوتے ہوئے سکالرز، بڑے دماغوں، اور ماہرین سے کسی طور بھی کم نہیں ہیں بلکہ تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے کئی قدم آگے زیادہ طاقت رکھتے ہیں لہذا یہاں بڑے دماغوں کی سکالرلی میٹنگز، اور اجلاسوں سے اخذ ہونے والے نتائج الیکشنز میں کامیابی نہیں دلا سکتے۔ اجلاسوں میں صرف یہ طے کیا جائے کہ اپنا جھنڈا، اپنا نشان اور اپنا منشور ہوگا (بیانیہ یا پارٹی پالیسی) اور باقی کا سب عوام الناس کے مزاج کے مطابق ہوگا۔ ہم تحریک انصاف کی طرح منافقت کے فتوے لگانے سے کچھ نہیں سمیٹ سکتے کیونکہ یہی وہ خام مال ہے جس کی تحریک کو ضرورت ہے۔ یہاں بڑے دماغوں کی میٹنگز سے نتائج کی برآمدگی سینیٹ کے ایک ممبر کے لیے اپنے ہی سیاسی مخالفین سے ووٹس کی بھیک کی صورت ہو رہی ہے اور وہ لوگ جو ہمارا اصل ہدف ہیں اور جو خام مال ہے (تحریک کی اہم ضرورت) سے گالیاں الگ کھانے کو مل رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم دراصل دعوت کے میدان کے کھلاڑی ہیں اور ہمارا اصل ٹارگٹ خام مال ہے جو ری سائیکل ہو کے وہ کر سکتا ہے جو میٹنگز اور اجلاسوں سے ہونے سے ممکن نہیں ہے۔ یہ پرانی بات ہو گئی ہے کہ ہم ہار کے بھی جیت گئے ہیں! جیتتا وہ ہے جو میدان مارتا ہے اور میدان وہ مارتا ہے جو میدان عمل میں ہے۔ جماعت کاروبار جمانے اور بڑھانے کا ذریعہ نہیں ہے۔ جماعت کو اپنے تعلیمی ادارے بنانے کی ضرورت ہے جہاں ان لوگوں کی تربیت ہو سکے جنھیں اب تالیف قلب کی مزید ضرورت نہیں ہے۔ بڑے دماغوں کو میٹنگز اور اجلاسوں میں ٹائم کی بربادی کی بجائے ان پہ کام کرنا چاہیے تاکہ کل جب حکومت ملے تو ٹیم پہلے ہی تیار ہو۔ بھٹی جلائیں اور اینٹیں پکائیں, سیاست ان کا کام ہے جو سیاسی ذہنیت کے مالک ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply