ہر جاء پانی, اساں کتھوں ونجوں؟ قادر خان یوسف زئی

قدرت کی قوتوں کے بے ساختہ اقدامات، جو ابھی تک مکمل طور پر انسان کے تابع نہیں ہیں، ریاست اور آبادی کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ قدرتی آفات ایسے قدرتی مظاہر ہیں جو انتہائی حالات کا سبب بنتے ہیں، لوگوں کی معمول کی زندگی اور اشیا ء کے آپریشن میں خلل ڈالتے ہیں۔ سب سے زیادہ عام قدرتی آفات زلزلے، سیلاب،  مٹی کے بہاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ، برفانی تودے، طوفان اور آتش زدگیاں ہیں۔ قدرتی آفات اچانک رونما ہوتی ہیں اور غیر معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ وہ عمارتوں اور ڈھانچے کو تباہ اور قیمتی اشیاء  کو برباد کر سکتے ہیں، پیداوار کے عمل میں خلل اور لوگوں، جانوروں کی موت کا سبب بن سکتے ہیں۔اشیاء پر ان کے اثرات کی نوعیت کی طرف سے، انفرادی قدرتی مظاہر جوہری دھماکے اور دشمن کی طرف سے حملے کے دیگر ذرائع کے نقصان دہ عوامل میں سے کچھ کے اثرات سے ملتے جلتے ہو سکتے ہیں۔ سالانہ سطح سے اوپر پانی کے ساتھ ایک بڑے علاقے کا شدید سیلاب قدرتی آفات میں سے ایک ہے۔ یہ سیلاب، ڈیموں اور ان کی ٹوٹ پھوٹ کے دوران نوٹ کیا جاتا ہے سیلاب کی بنیادی وجوہات میں برف اور گلیشیر پگھلنے کے دوران پانی کی وافر مقدار اور مرتکز بہاؤ، طویل بارشیں، دریا کے منہ اور سمندر کے ساحل پر پانی کی ہواؤں کی لہریں، رافٹنگ جنگلات (بھیڑ) کے دوران برف یا لاگوں کے ساتھ دریا کے کنارے کی بے ترتیبی، اندرونی برف (جلنے) کے ساتھ دریا کے کنارے کی رکاوٹ، سو نامی، ہائیڈرولک ڈھانچے کی پیش رفت، آبی گزر گاہوں کی وادیوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور  وافر مقدار میں زیرِ  زمین پانی کی سطح پر اچانک رہائی شامل ہیں۔ کچھ معاملات میں، سیلاب لینڈ سلائیڈنگ  اور  کیچڑ کے بہاؤ کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان نے جون 2022 کے وسط سے شدید مون سون موسم کا سامنا کیا، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے  انسانی جانوں، املاک، زراعت اور بنیادی ڈھانچے پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستان کے 81 اضلاع کو حکومت نے ‘آفت زدہ’ قرار دیدیا ، جس میں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ کے صوبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ستمبر کے وسط تک، 33 ملین لوگ متاثر ہوئے تھے، کم از کم 1,481 افراد جاں بحق اور12,720 سے زیادہ لوگ زخمی ہو ئے اور ایک اندازے کے مطابق 7.6 ملین افراد عارضی طور پر بے گھر ہو ئے۔ سیلاب نے 1.8 ملین مکانات کو بھی نقصان پہنچایا اور صرف صوبہ سندھ میں 15 لاکھ مکانات تباہ ہوئے ہیں دریں اثنا، اقوام متحدہ نے پاکستان کو 600 ملین ڈالر کی اضافی امداد کی ایک اور اپیل کی تاکہ ملک کو ریکارڈ توڑ سیلاب کے اثرات سے نکالنے میں مدد ملے۔سیلاب کے آغاز کے بعد سے تباہ ہونے والے مکانات کی تعداد دگنی ہو گئی ہے اور تباہ شدہ مکانات کی تعداد میں اندازاً 63 فیصد اضافہ ہوا ہے جہاں پناہ لینے کے لیے کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے، آبادی کا ایک بڑا حصہ بے گھر ہو چکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 575,000 لوگ ریلیف کیمپوں میں رہتے ہیں۔ سیلاب سے کمیونٹی انفراسٹرکچر جیسے سڑکیں، پل، اسکول اور صحت کی سہولیات بھی تباہ ہو گئی ہیں۔ تباہ شدہ مکانات اور انفراسٹرکچر، پر ہجوم رہنے کی جگہ اور بے گھر ہونے والوں کے لیے غیر معیاری زندگی کے حالات نے ایک بڑی آبادی کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے دوچار کیا ہے اور محفوظ اور صاف پانی تک رسائی میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق خیبرپختونخوا میں 20 فیصد، بلوچستان میں 30 فیصد، اور سندھ اور پنجاب صوبوں کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں 50 فیصد تک پانی کے نظام کو نقصان پہنچا ہے۔3.5 ملین ایکڑ فصلوں کی تباہی اور 936,000 سے زیادہ مویشیوں کے ضائع ہونے کے ساتھ متاثرین کا روزگار بھی متاثر ہوا۔

سیلاب کے دوران اَن گِنت ایسے واقعات منظر عام پر آئے جس نے دل دہلا دیئے، چند ایسے چیدہ چیدہ واقعات کو سامنے لانے کا مقصد سیلاب متاثرین کو درپیش پریشانیوں کا احساس دلانا ہے کہ ممکنہ طور پر سردیوں کی آمد کے بعد متاثرین مزید انتہائی دقت اور سنگین حالات کا سامنا کریں گے، انسانی امدادی کی سرگرمیوں کو تیزی سے بڑھانے کی ضرورت ہے، تاکہ متاثرین کی مشکلات کم   ہوسکیں اور بحالی کا عمل ممکنہ سخت موسم آنے سے قبل ممکن ہوسکے۔

جنوبی پنجاب کے سیلاب کے علاقوں کے ایک سِپر سے واپسی پر ایک منظر نے ہماری جیسے کہ جان ہی نکال لی ہو۔۔ اُف ایک بچی۔۔ چھ سے آٹھ ماہ کی ایک بچی سِپر کنارے یوں لیٹی تھی کہ دو سے تین کروٹیں اس معصوم بچی کو خدا خواستہ سیم سیلاب کی نذر کر سکتی تھیں۔ ہم گاڑی پر تھے اس منظر نے اچانک بریک لگانے پر مجبور کیا۔ فوٹوگرافری کرتے ہوئے، ہم نے اس بچی کی دادی کو تلاش کیا اور بچی اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اماں بچی کا تو خیال کرو۔۔ تو اس نے اپنی زبان میں کہا“یہاں اُتے پانی تلے پانی۔۔ ہر جا پانی پانی۔۔ اساں کتھوں ونجوں۔”یہ کہہ کر سیلاب سے متاثرہ خاتون نے بچی  کو گلے لگا لیا۔ایک اور خاتون صھافی نے بتایا   سیلاب متاثرین، علاوہ ازیں سیم کے سیلاب اور بیٹ کا علاقے کے دورے کے بعد اپنے مزید تاثرات و واقعات میں بتایا کہ بیٹ بستی غازی نظام میں اڑھائی سو گھرانے یعنی شہر سلطان اور جتوئی کا ایریا خاصہ متاثر ہوا ہے؛ شہر سلطان میں سیفٹی بند جسے سپر بند بھی کہتے ہیں اس سے جتنی بھی آبادی ہے وہ اس سیم سیلاب سے متاثر ہو چکی ہے۔

ایک دوسرا واقعہ کے بارے میں بتاتی ہیں کہ بستی غازی نظام میں سیلاب کے پانی سے گزر کر آنے والے افراد بچے عورتیں سپر کنارے آ رہے تھے۔ ایسی ہی آنے والی دو خواتین کنیز مائی اور انور مائی نے بتایا کہ انہیں اور ان جیسے سینکڑوں افراد کو کوئی پناہ گاہ نہ ملنے کی وجہ سے سیلاب ہی میں رہنا پڑتا ہے، دو اڑھائی میل کا پیدل سفر کرتے ہوئے پانی سے گزر کر آتے ہیں، کبھی گردن تک پانی میں ہوتی ہیں جبکہ پھسلن زدہ  اور دلدلی زمین میں گرنے کے خطرے کے ساتھ ساتھ سانپ و دیگر زہریلے جانوروں کے کاٹنے کے واقعات بھی ہوتے ہیں انہوں نے بتایا کہ یہاں سر درد کی دوا نہیں ملتی، سانپ کاٹے کی ویکسین تو خواب ہے، دم کروانا پڑتا ہے کم زہر ہو تو بندہ بچ جاتا ہے لیکن زیادہ زہر جان لیوا ثابت ہوتا ہے، یہاں کوئی کشتی تک مہیا نہیں، ہم غریب لوگ ہیں، ہمارے حال پر رحم کیا جائے۔ بیٹ مراد پور کے مرید خان (سیلاب متاثرہ) نے بتایا کہ یہاں بے سرو سامانی، بے بسی کا عالم ہے؛ بارش آنے پر مانگے تانگے کے شاپر اوڑھتے ہیں، غریبوں کے نہیں رہے آس امید بھی جا رہی ہے، عام حالات ہی میں یہاں بچے بچیاں تعلیم بنیادی صحت و ضروریات سے محروم ہیں، اب تو بے بس ہو گئے ہیں۔

ایک رپورٹ میں ا کبر شاہ کوہستان کے علاقے وادی دوبیر کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں کے حالات پیش کئے گئے۔ سیلابی ریلے میں اکبر شاہ کے خاندان کے پانچ لوگ لا پتہ ہو چکے تھے، جس میں ان کے دادا جعفر شاہ سمیت ایک بہنوئی اور تین بھتیجے شامل ہیں۔’بہت دکھی دل کے ساتھ اپنے گھر بار اور علاقے کو چھوڑ کر بٹ گرام منتقل ہو رہے ہیں۔ اب اپنے علاقے میں بچوں کے لیے بھی خوراک دستیاب نہیں ہے۔ گھر بار تباہ ہو چکے ہیں، بہت بری حالت میں ہیں۔ اکبر شاہ کہتے ہیں کہ گھر کا سامان محفوظ نہیں رہا تو کھانے پینے کی اشیا کہاں سے محفوظ رہتیں۔ ’ہم لوگ کھانے پینے کی اشیا دور دراز کے علاقوں سے لا کر کچھ عرصہ کے لیے محفوظ کرتے ہیں۔ ہماری صورتحال یہ ہے کہ نہ تو ہماری چھت محفوظ رہی اور نہ ہی کھانے پینے کو کچھ محفوظ ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اب ہم اپنے علاقے میں نہیں رہ سکتے۔’اب ہم لوگ یہاں سے بٹ گرام جا رہے ہیں، جہاں پر کرائے کے مکانات تلاش کریں گے۔ وہاں پر کچھ عرصہ کے لیے رہائش اختیار کرکے اپنے علاقے میں گھروں کی دوبارہ تعمیر کر کے واپس منتقل ہونے کی کوشش کریں گے۔‘

کراچی میں حالیہ بارشوں نے سڑکوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ صوبائی محکمہ آفات کی رپورٹ کے مطابق شہر میں 50 کلومیٹر سڑکیں متاثر ہوئی ہیں، جبکہ ٹریفک پولیس نے 97 سڑکوں کی نشاندہی کی ہے جو 145 مقامات سے ٹوٹی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے حادثات ہو رہے ہیں۔رکشہ ڈرائیور ریاض حسین بتاتے ہیں کہ ’ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر اکثر گاڑیاں ٹکراتی ہیں اور حادثات ہوتے ہیں یعنی آپ نے گڑھے میں بریک لگائی اور پیچھے والے نے گاڑی مار دی، اس صورتحال میں کون کیا کر سکتا ہے۔‘ساجد اقبال کراچی سے تعلق رکھنے والے بائیکا رائیڈر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ روڈ سے ہی کماتے ہیں لیکن حالیہ دنوں وہ جو کماتے ہیں وہ بائیک پر ہی لگ جاتا ہے، اب بیوی بچوں کو کیا کھلائیں۔ اس کی وجہ وہ سڑکوں کی تباہ حالی کو قرار دیتے ہیں اپنی بائیک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ نئے ماڈل کی ہے لیکن اس کی حالت دیکھ لیں یہ ان گڑھوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ’ہم سات آٹھ گھنٹے میں جو 1500 سے 2000 روپے کماتے ہیں، ان سڑکوں کے خراب ہونے کی وجہ سے وہ کام آدھا بھی نہیں ہو پا رہا۔ اس وقت میں نے ایک رائیڈ چھوڑ دی دوسری سے دو سو روپے ملے اس میں سے ایک سو روپے پنکچر میں چلے گئے اور باقی رقم کا نصف کمیشن میں گیا جیب میں سے پیٹرول کی پیسے ڈال کر الٹا کسٹمر کا سامان چھوڑ کر آیا ہوں۔‘

’ہم دو روز اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ پانی کے گھیرے میں تھے لیکن کشتی دستیاب نہیں تھی۔ چوتھے روز ایک رشتے دار منت سماجت کر کے کشتی والے کو لائے اور ہمیں ریسکیو کیا۔ 12 سال کے بعد جب حالیہ سیلاب آیا تو میں نے سمجھ لیا کہ کشتی بنیادی ضرورت ہے۔‘یہ ہیں صوبہ سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل خیرپور ناتھن شاہ کے رہائشی عابد حسین ببر، جنہوں نے خیر پور ناتھن شاہ اور آس پاس کے علاقے کے لوگوں کو خود ریسکیو کیا۔ 12 سال کے بعد اگست کا ہی مہینہ تھا جب لاڑکانہ کے قریب سپڑیو بند کو شگاف پڑا اور بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے کٹ لگائے گئے۔ پانی کا ایک بار پھر رخ خیر پور ناتھن شاہ کی طرف تھا۔اس بار پانی کی مقدار زیادہ تھی۔ ایک رات قبل ضلعی انتظامیہ نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کر کے لوگوں کو انخلا کے لیے کہا۔ کئی خاندان تو نکل گئے اور کئی خاندانوں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا یہاں سے نکل جانے والوں میں عابد حسین کا خاندان بھی شامل تھا۔ عابد حسین کے مطابق اُنھیں اندازہ تھا کہ انتظامیہ لوگوں کو ریسکیو نہیں کر پائے گی اور کشتی ایک بنیادی ضرورت ہے کیونکہ جب تک انسانوں کو بچایا نہیں جاتا باقی ضروریات ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، لہذا اُنھوں نے اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ رقم جمع کی۔

ایک صحافی کی ایک خصوصی رپورٹ میں متاثرین کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ سیلابی تباہی میں حکومت کا ہر جگہ پہنچنا ممکن نہیں تھا اس لئے امدادی سرگرمیوں میں علاقے کے لوگوں نے اپنی اور دوسرے لوگوں کی جان بھی بچائی۔ انہوں نے اپنے رپورٹ میں دلگداز واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا۔’عابد حسین نے ٹھٹہ کے کینجھر جھیل سے ایک کشتی خرید لی۔ یہ استعمال شدہ تھی جو ہمیں سات لاکھ روپے کی ملی۔ اس کو چلانے کے لیے ہم وہاں سے ہی ایک ماہی گیر کو بھی لائے جس کے پاس جھیل کے علاوہ سمندر میں بھی کشتی چلانے کا تجربہ تھا اور اس کشتی کو ہم نے خیر پور ناتھن شاہ سے لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے اتارا۔‘عابد حسین کے مطابق خیر پور ناتھن شاہ اور آس پاس کے علاقوں سے 15 روز میں اُنھوں نے 2000 کے قریب لوگوں کو ریسکیو کیا۔’اس کے علاوہ دو افراد کی لاشیں بھی خشکی تک لے کر آئے ہیں جن میں ایک لاش دو روز سے سپڑیو بند کے کیمپ میں موجود تھی جہاں کئی گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ کنارے تک لائے تاکہ خشکی میں اس کی تدفین ہو سکے۔‘

Advertisements
julia rana solicitors london

پانی کے بغیر، زندگی ناقابل تصور ہے اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ہر کسی کو اس کی ضرورت ہوتی ہے، ہمیشہ اور ہر جگہ، لیکن پانی کے بارے میں ہے جو کبھی کبھی انسان کا دشمن بن جاتا ہے اور اسے قدرتی آفت کے طور پر تباہی قرار دیتے ہیں۔ دریاؤں اور جھیلوں کے کناروں پر آنے والے سیلابوں سے پوری انسانی تاریخ میں اہم مادی اور اخلاقی نقصان پہنچے ہیں۔ سیلاب سے مراد دریا یا جھیل سے ملحقہ علاقے میں پانی کا سیلاب ہے، جس سے مادی نقصان اور عوامی صحت یا جانی نقصان ہوتا ہے سیلاب معروف قدرتی آفات میں پہلے نمبر پر ہے۔ جہاں تک انسانی ہلاکتوں اور مخصوص مادی نقصانات (یعنی متاثرہ علاقے کے فی یونٹ نقصان) کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں سیلاب زلزلوں کے بعد دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ درحقیقت قدرتی آفت کے طور پر سیلاب کو ہر جگہ مکمل طور پر روکا نہیں جا سکتا۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply