عالمی سطح کے دوسو ماہرین۔۔محمد اسد شاہ

گزشتہ ہفتہ ملک بھر کے عوام کے لیے پریشان کن رہا ۔ کالعدم تحریک لبیک کے احتجاجی مظاہروں ، پولیس کے ساتھ جھڑپوں اور پھر طرفین کے قیمتی افراد کے جاں بحق ہونے سے ہر باشعور شخص کرب کی کیفیت محسوس کر رہا تھا ۔ یہ سب کچھ اس ملک کے عوام کے لیے نیا نہیں ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے کوئی پردہ نشین قوتیں ڈوریاں ہلاتی ہیں ، سٹیج پر کٹھ پتلیاں حرکت کرتی اور ناچتی ہیں ، عوام کے کانوں میں آوازیں آتی ہیں ، لوگ گرتے ہیں ، سڑکوں پر لہو نظر آتا ہے ، کچھ لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو جاتی ہیں ، نفرتوں کی لہریں اٹھتی ہیں ۔ پھر ڈرامہ بظاہر بتدریج ختم ہو جاتا ہے ۔ لیکن ڈرامے کا یہ اختتام بھی جیسے پہلے سے لکھے کسی سکرپٹ کا حصہ ہو ۔ یہ سب کچھ وقفے وقفے سے کئی بار ہو چکا ہے ۔ کبھی مذہب کے نام پر ، کبھی حلقے کھلوانے کے نام پر ، کبھی کرپشن کے نام پر اور کبھی حب وطن کے نام ۔ یہ سب کچھ ڈرامہ ہو یا نہ ہو ، لیکن سڑکوں پر مرنے والے لوگ ڈرامہ نہیں ہوتے ۔ ان کا خون اصلی ہوتا ہے اور ان کے پس ماندگان کا کرب حقیقی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریک لبیک کے قیام کی طرح اس پر پابندی بھی پُراسرار ہے ۔ 2017 میں اچانک اس کا قیام ، راول پنڈی میں فیض آباد کے مقام پر کئی روز تک اس کا متشدد دھرنا ، مرحوم خادم حسین رضوی کی سخت زبان ، پھر جلاؤ گھیراؤ ، اور پھر ایک ایک ہزار کے نوٹ وصول کرتے لوگوں کی تصاویر ابھی عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہو سکیں ۔ تحریک لبیک کا وہ دھرنا اور جلاؤ گھیراؤ مسلم لیگ (نواز) کی منتخب حکومت کے خلاف تھا جو بعض مخصوص قوتوں کی نظروں میں کھٹکتی تھی ۔ تب تحریک انصاف اس سارے معاملے میں تحریک لبیک کی پرجوش معاون تھی ۔ تحریک لبیک کا دوسرا احتجاج تب شروع ہوا جب اس کی اپنی اتحادی تحریک انصاف اقتدار میں ہے ۔ فرانس میں خاتم النبیین سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی شان اقدس میں گستاخیوں کا سلسلہ چلا ۔ فرانس کے صدر نے بھی اس سلسلے کو روکنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی ۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس پر احتجاج ہؤا ۔ تحریک لبیک کا مطالبہ تھا کہ فرانسیسی سفیر کو یہاں سے نکالا جائے ۔ شنید ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ان کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا تھا کہ 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کو نکال دیا جائے گا ۔ اپریل کے آغاز میں تحریک لبیک نے حکومت کو یاددہانی کے لیے احتجاج کیا ۔ وہی تحریک انصاف جو گزشتہ حکومت کے خلاف دھرنے میں لبیک والوں کی پرجوش ساتھی رہی ، اب انھیں دہشت گردی کا الزام دینے لگی ۔ ان کے قائد اور سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا ۔ اس پر احتجاج میں شدت آ گئی ۔ پولیس اہل کاروں اور مظاہرین میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں ۔ طرفین کا جانی نقصان بھی ہوا ۔ حکومت نے مزید گرفتاریاں کیں ، سینکڑوں ایف آئی آرز درج کر لیں اور جماعت پر پابندی بھی لگا دی ۔ خان صاحب نے ٹی وی خطاب میں اپنے ان اقدامات کا دفاع کیا اور بتایا کہ فرانسیسی سفیر کو نکالنا مناسب نہیں ۔ عوام یہ پوچھتے ہیں کہ اگر یہ بات تھی تو پہلے آپ نے سفیر نکالنے کا معاہدہ کیوں کیا تھا ؟ پھر نئی درفنطنی ، کہ کالعدم قرار دینے کے بعد ان سے مذاکرات شروع کیے ، پھر ایک اور معاہدہ کہ حکومت سفیر کی بے دخلی پر اسمبلی میں قرارداد لائے گی ۔ لیکن اگلے ہی دن یہ وعدہ بھی توڑ دیا اور قرارداد حکومت کی بجائے ایک رکن کی طرف سے ذاتی حیثیت میں پیش کی گئی ۔ حتیٰ کہ علی محمد نامی ایک وفاقی وزیر نے باقاعدہ وضاحتی اعلان کیا کہ حکومت کا اس قرارداد سے کوئی تعلق نہیں ۔ حکومت کی طرف سے کالعدم قرار پانے کے باوجود تحریک لبیک کا امیدوار کراچی کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (نواز) کے امیدوار کے خلاف تاحال میدان میں بھی موجود ہے ۔ نرم سے نرم الفاظ میں اگر کہا جائے تو تحریک انصاف کی اس پالیسی کو خطرناک دوغلا پن کہا جائے گا ۔ یعنی 2017 میں انتشار کے لیے آپ ان کے پرجوش ساتھی تھے لیکن 2021 میں آپ انھیں دہشت گرد اور ملک دشمن کہہ کر پابندی لگاتے ہیں ۔ پھر پابندی لگانے کے بعد ان کے ساتھ مذاکرات بھی کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ سفیر نکالنے کا معاہدہ کرتے اور پھر توڑ دیتے ہیں ۔ پھر حکومتی قرارداد لانے کا معاہدہ کرتے ہیں ، اور یہ وعدہ بھی توڑ دیتے ہیں ۔ تحریک لبیک کے سربراہ کی رہائی کا وعدہ کرتے ہیں اور توڑ دیتے ہیں ۔ آپ جس جماعت کو کالعدم قرار دیتے ہیں ، وہ اعلانیہ ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور گھر گھر جا کر انتخابی مہم بھی چلا رہی ہے ۔ آپ اسے روکتے بھی نہیں ۔
بیک وقت متضاد پالیسی کے علاوہ بھی زبوں حالی اور نااہلی طشت از بام ہے ۔ معیشت ، سیاست اور سفارت سمیت ہر شعبے میں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ یہ حکومت قوت فیصلہ اور غور و فکر کی صلاحیت سے محروم ہے ۔ پریشان خیالی کی یہ حالت ہے کہ گزشتہ حکومتوں کو برا کہتے کہتے انھی لوگوں کو وزارتوں پر فائز کر رکھا ہے ۔ کابینہ کی کارکردگی کے جائزے کے نام پر ہر دوسرے ماہ چند وزراء کے قلم دان آپس میں بدل دیئے جاتے ہیں ۔ جب کہ بہت سے وزراء ایسے بھی ہیں جن کی کوئی کارکردگی نہیں ، اور ان کا جائزہ بھی نہیں لیا جاتا ۔ 2018 تک آپ نہایت زور و شور سے یہ گردان کرتے رہے کہ آپ کے پاس ہر شعبے کو سنبھالنے کے لیے عالمی سطح کے دو سو ماہرین کی ایک عظیم الشان ٹیم موجود ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی وہ ٹیم کہاں ہے ؟ کیا یہ دعویٰ بھی دیگر بے شمار دعوؤں کی طرح ایک دھوکا ہی تھا ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply