گلگت بلتستان صوبہ! مگر کیسے ممکن ہے ؟۔۔۔شیر علی انجم

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ دنیا میں اُن کی انفرادی اور اجتماعی خواہشات کی تکمیل ہو ۔یہی وجہ ہے کہ انسان خواہشات کی تکمیل کیلئے جستجو کرتے ہیں،محنت کرتے ہیں۔لیکن جب کسی خطے کی شناخت اورمقدر فقط چند افراد کی خواہشات کے گرد گھومنا شروع ہوجائے تو مان لیجیے، وہ خطہ سیاسی،سماجی،فکری اور معاشی طور پر بدترین بدحالی کا شکار ہونا یقینی ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے قدرتی وسائل اور آبی ذخائز سے مالا مال ریاست جموں کشمیر کی سب سے بڑی اور اہم اکائی خطہ گلگت بلتستان بھی گزشتہ تہتر سالوں سے اس صورتحال سےدوچار ہے ۔لیکن اس مرض کے  علاج کیلئے مل بیٹھ کر مشورہ کرنے اور کسی سپیشلسٹ سے رجوع کرنے کے بجائےفقط خواشات کی بنیاد پر خطے کے  مستقبل کی  سمت متعین کرنے کی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں ۔

ماضی بعید میں جائے بغیر 5 اگست 2019 کو مودی سرکاری کی جانب سے کشمیر میں درندازی کے بعداگر 14 اگست 2019 سے بات شروع کریں تو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آزاد کشمیر میں صحافیوں کے سوال پر دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے۔ لہذا اس خطے کو کسی قسم کا صوبہ نہ بنایا گیا ہے اور نہ  ہی بنانے کا ارادہ ہے۔ ہم وہ کام ہرگز نہیں کریں گے جس سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر نقصان پہنچے۔۔یعنی اُن کی اس بات سے یہ چیز  روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی  کہ گلگت بلتستان کو کسی قسم کا صوبہ بنانا مسئلہ کشمیر کے  حل کیلئے رائے شماری سے پہلے ریاست پاکستان کی  قومی پالیسی کا حصہ نہیں ۔ پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم جس مُلک میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں اُس مُلک کی قومی پالیسی کے مطابق ہماری شمولیت مسئلہ کشمیر کے  حل تک ممکن نہیں۔

لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جنہیں عوامی نمائندہ یا مذہبی رہنما سمجھتے ہیں، انہوں  نے اپنی  مراعات  اور مفادات کے  تحفظ کی  بنیاد پر خواہشات کو ہی قانون اور تاریخ سمجھا ہوا ہے۔
ہندوستان مہاراجہ جموں کشمیر کی جانب سے الحاق کی بنیاد پر گلگت بلتستان کو اپنا قانونی حصہ سمجھتا  ہے۔۔لیکن گلگت بلتستان والوں کا اس حوالے سے نظریہ تاریخی اعتبار سے بالکل ہی مختلف ہے ۔کیونکہ مہاراجہ کی جانب سے الحاق کے بعد ہی ناکام بغاوت گلگت کا واقعہ تاریخ کا اہم باب ہے اور اُس ناکام بغاوت کی وجہ سے اقوام متحدہ میں گلگت بلتستان کی ریاست جموں کشمیر کی ایک الگ اکائی کے طور پر جداگانہ حیثیت کو بھی پاکستان اور ہندوستان نے اقوام متحدہ کی  قرارداد 13 اگست 1948 میں قبول کی ہوئی ہے۔لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کو اُس بنیاد پر حقوق دینے کے بجائے پہلے برطانوی سامراجی ایجنٹ میجر بروان کی سازشوں کے ذریعے ایک ٹیلکس کی بنیاد پر مقامی راجاؤں اور میروں کی غداری سے ایک تحصلیدار کو پولیٹیکل ایجنٹ قبول کرکے ایف سی آر نافذ کردیا۔پھر اس سے بھی سنگین غلطی کرکے آزاد کشمیر کی طرح لوکل اتھارٹی کے بجائے اقوام متحدہ کی  قرارداد کو پس پشت ڈال کر گلگت بلتستان کا معاہدہ کراچی کی  ایک شِق کے ذریعے مکمل طور پر کنٹرول سنبھال لیا۔ یوں مودی فارمولہ گلگت بلتستان کے حوالے سے تاریخی حقائق کی بنیاد پر خود بخود مسترد ہوتا ہے ۔لیکن اُنہوں نے جب 5 اگست 2019 کوجموں کشمیر لداخ سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے خطہ لداخ کو الگ یونین کا درجہ دیکر آفیشل پولٹیکل میپ جاری کردیا جس میں مودی  نے چلاس تک کے علاقے کو ضلع لہہ لداخ میں شامل کردیا۔ اُس میپ پر بھی ریاست پاکستان کا یہی موقف تھا کہ یہ علاقہ  متنازعہ ہے اور ان علاقوں کی قسمت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے لہذا مودی حکومت کی جانب سے جاری کردہ آفیشل پولیٹیکل میپ کی بین الاقوامی سطح  پر اقوام متحدہ کی  قراردادوں کی بنیاد پر کوئی حیثیت نہیں۔

مگر گلگت بلتستان اسمبلی اس بار بھی خواہشات کی دنیا سے نہ نکل پائی ،اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کیلئے اسمبلی سے متفقہ قرارداد پاس کردی،جو  کہ اب کس شکل میں ہے شاید ہی کسی کو علم ہو۔ اور ویسے بھی ان تمام حقائق کو ایک طرف رکھ کر گلگت بلتستان صوبہ بنایا تو پاکستان میں مزید درجنوں صوبے بنانے پڑیں گے کیونکہ گلگت بلتستان آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے کئی اضلاع کے برابر بھی نہیں۔لہذا گلگت بلتستان کسی صوبے میں شامل ہونا شاید ممکن ہوسکتا ہے لیکن الگ سے صوبے کی خواہش کو بھی خواب کے اوپر ایک اور خواب کہا جاسکتاہے۔

بات کو مزید ریاست پاکستان کے قومی بیانئے کے  تناظر میں قانونی نکتہ نگاہ سے سمجھنے کی کوشش کریں تو دفتر خارجہ نے بھی گزشتہ ماہ گلگت بلتستان   سے متعلق  کسی قسم کی   افواہوں کو یکسر طور پر مسترد کیا اور میڈیا کو بتایا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہے۔ لہذا کسی کاغذ میں گلگت بلتستان صوبے کے شواہد موجود نہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوامی نمائندوں سے لیکر عام آدمی تک کو بدقسمتی سے آج بھی معلوم نہیں کہ اصل مسئلہ کشمیر کس چیز کا نام ہے۔ حالانکہ تاریخی حقائق اور اس حوالے سے ریاست کا  موقف روز ِ روشن کی طرح عیاں ہونے کے بعد اب تک سمجھ جانا چاہیے  تھا کہ خواہشات کی بنیاد پر سنگین مسئلے حل نہیں ہوتے اور خواہشات کی تکمیل کیلئے انقلاب برپا کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں ہم کس کے خلاف انقلاب برپا کریں؟۔ جس مہاراجہ کے خلاف انقلاب برپا کیا تھا اُس بنیاد پر آج تہتر سال بعد بھی ہماری پہچان منجمد ہے اوراگر جس مُلک میں شامل ہونے کی ہم خواہش رکھتے ہیں اُن سے شامل کرو کہہ کر بغاوت شاید دنیا کیلئے ایک نیا عجوبہ نئی  تاریخ سمجھا جائے گا۔

قارئین ،بات کو مزید مختصر کرتے ہوئے ہم پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے گلگت بلتستان آرڈر 2020 نافذکرنے کی افواہوں اور مقامی اخبارات کی خبروں سے کریں تومیڈیا رپورٹ کے مطابق اُس آرڈر کا بھی لب لباب یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو خراب کیے بغیر سپریم کورٹ کے فیصلےکی روشنی میں اختیارات وفاق سے گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل کیا جائے ۔ حالانکہ پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں گلگت بلتستان کو داخلی خودمختاری دینے کی  شق شامل ہے۔لیکن دوسری طرف گزشتہ روز گلگت بلتستان کے سینئر صحافی نے اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان سے یہی سوال کیا تو اُنہوں نے اس خبر کو قیاس قرار دیکر جواب دینا ہی مناسب نہیں سمجھا۔اب اس خبر کے بعد گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران جن میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے اراکین شامل تھے، پھر سے متحرک ہوگیا اور گلگت بلتستان ہاؤس میں پریس کانفرنس کرکے ایک بار پھر سرتاج عزیز کمیٹی کی  سفارشات اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ کیااور سوائے قوم پرست رہنما نواز خان ناجی  اور اپوزیشن لیڈر کیپٹن شفیع کے علاوہ سب نے صوبے کا مطالبہ کردیا اور دبے الفاظ میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اگر صوبہ نہیں بن سکتا ہے تو گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حقوق کویقینی بنائیں۔

اس نے بڑھ کر اس خطے کے عوام کی بدقسمتی اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہاں کے عوامی نمائندوں کو آج تک پتہ نہیں چلا یا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ مراعات اور مفادات کی خاطر عوام سے جان بوجھ کو مسلسل جھوٹ بولا جارہا ہے۔یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا حکم واقعی میں دیا تھا؟ اگر دیا ہےتو یقیناً اس کام کیلئے آئین  میں ترمیم کرنا اولین شرط بلکہ ضرورت ہے اور اگر ایسا ہوا تو سمجھ لیجیے کہ مسئلہ کشمیر ہی ختم ہوگیا ۔ایک طرف ہندوستان نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا اور دوسری طرف اسلام آباد نے گلگت بلتستان کو آئینی میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو قانونی اور آئینی طور پر پاکستان کا حصہ بنالیا۔

لیکن ریاست پاکستان اس بیانئے کو ہمیشہ مسترد کرتے رہے ہیں اور رائے شماری کے ذریعے متنازعہ خطے کے عوام کی قسمت اُنکی مرضی سے کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔گلگت بلتستان میں لوگ سپریم کورٹ کے فیصلے کا بہت زیادہ ذکر کرتے ہیں لیکن اُس فیصلےکو مسئلہ کشمیر کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کا گلگت بلتستان کے حوالے سے آخری فیصلہ تین دسمبر 2019 کو آیا۔ میڈیا پر جو خبر نشر ہوئی اُس کے مطابق سپریم کو رٹ کےلاجر بنچ نے گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو مزید بااختیار بنانے کا حکم دے دیا تھا۔جسٹس عظمت سعید نے یہاں تک ریمارکس دیتے ہوئے کہاتھا کہ مسلہ کشمیر کے تناظر میں گلگت بلتستان کا سٹیٹس تبدیل نہیں ہو گا، نہ ہی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملے گی۔ لیکن گلگت بلتستان کے شہریوں کو پاکستان کے دیگر صوبوں کے برابر بنیادی حقوق دینے اور خطے کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کا ضرور حکم دیا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان کا اصل مقدمہ قومی پہچان کا ہے گلگت بلتستان کے عوام اپنی قانونی حیثیت کے مطابق اپنے وسائل پر اختیار مانگتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بدقسمتی کی بات ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران نے سرتاج عزیز کمیٹی کو صحیفہ سمجھنا شروع کیا ہے حالانکہ دنیا کی  مہذب اور جمہوری قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ قومی فیصلے افراد اور  عوام کی منشاء کے مطابق عوامی نمائندے کرتے ہیں اور گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران شاید دنیا کی  وہ عجیب مخلوق ہے جو سونے کے پہاڑ پر بیٹھ کر کوئلے کے کان صاف کرنے والوں سے اپنے مقدر کی لیکر کھنچنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر گلگت بلتستان اسمبلی واقعی میں اپنے آپ کو  عوامی نمائندہ سمجھتے ہیں تو تہتر سالوں سے منجمد قومی شناخت کیلئے اب منافقت اور مراعات کی دنیا سے نکل کر سوچنا ہوگا کیونکہ زمینی حقائق دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام قسم کے غیر قانونی قوانین کے  نفاذ کے باوجود گلگت بلتستان کی نئی نسل بیدار ہوچُکی ہے جو سوال کرتے ہیں کہ آخر اس خطے کے  عوام کا جرم کیا ہے جنہیں ایک غلام قوم کی طرح مسلسل پیکج کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔ یہ سوال آنے والے سالوں میں مزید مسائل پیدا کرسکتا ہے۔لہذا پاکستان کے مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے اقوام متحدہ کی  قراداد پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور اس خطے کی تہتر سالہ سیاسی محرومیوں کا ازالہ کریں اور اقوام متحدہ کی  قراداد 13 اگست 1948 کی بنیاد پر گلگت بلتستان لوکل اتھارٹی کو یقینی بنائیں ۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply