جمیکا کا باب مارلے اور پُر امن انقلاب/غلام سرور

جرمن فلاسفر ہیگل اپنی تصنیف پیٹرن آف ہسٹری میں جدلیات (بحث و مباحثے کی مدد سے  افکار و خیالات کی سچائی دریافت کرنے کا فن) کو تاریخی تناظر میں بیان کرتے ہوئے ماضی کے رونما ہوئے واقعات کو سطحی بنیادوں پر پرکھتا ہے۔ ہیگل کے مطابق تنازع  ترقی کی کلید ہے ( conflict is the the key to progress) ضروری نہیں, یہ تنازع / اختلاف متشدد ہو, اگر چہ ایسا بہت کم ہوتا ہے لیکن متشدد ہو یا پُر امن یا ناگزیر ہے۔ روسی فلاسفر کارل مارکس اور لینن نے بھی ہیگل کے جدلیات کے نظریہ کو رولنگ کلاس اور ورکنگ کلاس کے مابین غیر مساوی وسائل کی تقسیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جدلیاتی مادیت کے نظریہ میں کیپٹلزم سے چھٹکارے، سوشلزم سے کمیونزم تک کا انقلابی سفر بیان کیا ہے۔ کارل مارکس کے مطابق سوشلزم سے کمیونزم تک کا سفر ایک انقلاب کے ذریعے ہو گا۔ یہ انقلاب پُر امن بھی ہو سکتا اور متشدد بھی جیسا کہ  ہیگل نے بھی کہا۔ اگر چہ دونوں میں سے ایک ہوگا۔
دنیا میں بہت کم مثالیں ملتی  ہیں جہاں پر پُر امن طریقے سے اقتدار دوسرے فریق کو منتقل ہوا ہو۔ جیسا کہ انگلینڈ کا 1688 والا گلوریش ( Glorious) انقلاب، 1947 میں برصغیر کی تقسیم، 1979 میں ایران کا انقلاب، اور 1991 کو سوویت  یونین کی تقسیم۔  اس سارے پُر امن اقتدار منتقلی میں کہیں نا  کہیں کسی شاعر، گیت کار، فنکار، کسی کھیل کے کھلاڑی، کسی مصنف، کسی مجسمہ ساز، ڈرامہ  نگار یا کسی سائنسدان کا کردار ضرور موجود ہو گا۔ جیسا کہ افریقہ کے ملک جمیکا کے سنگر باب مارلے نے اپنے گیتوں کی مدد سے ملک میں جاری فساد، پُر تشدد کاروائیوں کا قلعہ قمع میوزیکل کنسرٹ کر کے کیا۔ اپنے گیتوں سے ملک کی عوام کو متحد کیا اور مقتدر حکمرانوں کو اور اپوزیشن لیڈران کو امن کے جھنڈے تلے اکٹھا کیا۔ انگلینڈ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے جمیکا جزیرہ 1976 میں  بدترین قتل وغارت میں مبتلا تھا۔ الیکشن کے ایک ہفتہ پہلے دو مقابل پارٹیز نے طاقت اور اقتدار کی جنگ میں جمیکا کے لوگوں کو سول وار کی طرف دھکیل دیا تھا۔ یہ سارے فسادات دیکھ کر باب مارلے نے  ایک بے مثال امن کنسرٹ کا منصوبہ بنایا جو جمیکا کی عوام کے زخموں پر مرہم کا کام کرے اور تقسیم شدہ عوام متحد ہو۔ اس فیصلے نے باب کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ 1980 میں مسلسل کوشش اور قاتلانہ حملوں سے بچنے کے بعد باب مارلے نے زمباوے میں نو آبادیاتی دور کا خاتمہ کیا۔ اور آخرکار باب نے موسیقی، اپنے گیتوں کی وجہ سے ملک کی حکمران اور اپوزیشن پارٹیز کو اپنے کنسرٹ میں ساری عوام کے سامنے گلے لگوا کر پُر تشدد کاروائیوں کا اختتام کروایا۔ باب مارلے کے گانے آج بھی انصاف، آزادی اور اتحاد کو ظاہر کرنے اور پروموٹ کرنے کے لئیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ باب مارلے چھتیس سال کی عمر میں جلد کے کینسر سے دنیا چھوڑ گیا۔ ملک کو خون کی دلدل سے نکال کر امن کے راستے پر ڈال دیا۔ عوام کو امن کے جھنڈے تلے جمع کیا جو کہ اس کی عمر کا مشن تھا۔ اور وہ کامیاب بھی ہو گیا۔
دنیا میں غیر سیاسی پس منظر والے افراد جو کسی کھیل  سے وابستہ ہوں، کوئی شاعر ہو، کوئی موسیقار کو، کوئی ایکٹر ہو، وہ صرف اور صرف عوام کو متحد کرنے، امن کو پھیلانے اور اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال باب مارلے کا امن کنسرٹ ہے۔ ہیگل، مارکس اور لینن کے مطابق انقلاب پر امن بھی ہو سکتا مگر ایسا بہت کم ہوتا۔ سلیبریٹیز چاہے وہ کسی بھی قسم کا پرفارمر ہو فیم شہرت پیسہ  سیاست میں آنے سے بہت پہلے بنا چکا ہوتا۔ ایسے لوگ عوام کی فلاح اور بہبود کے لئے سیاست کا رخ کرتے ہیں کیونکہ یہ نازک دل، انسان دوست ہوتے ہیں۔ انسانوں کی تکلیفیں، دکھ اور آہ و بکا دیکھ کر یہ سیاست میں آکر عوام کے لئیے کچھ بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئیے ان کے مفادات سیاسی لوگوں کے مفادات سے بالاتر اور ملک و عوام کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ یہ سیاست دانوں کی طرح انفرادی مفاد کو نہیں نہیں بلکہ اجتماعی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیا خوب کہا فیض نے
کر اک اولی الامر کو صدا دو
کہ اپنی فرد عمل سنبھالے
اٹھے گا جب جمع س فروشاں
پڑیں گے دارو رسن کے لالے
کوئی نہ ہو گا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
عدم اطمینان کا جواب عدم تعاون یا انتشار پھیلانا نہیں بلکہ متعدد مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پر امن رہ کر، تعاون کر کے قانونی چارہ گوئی کر کے، دلائل سے، انفرادی مفاد کی بجائے اجتماعی مفاد کو ترجیح دے کر بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ جو تبدیلی امن کے  ذریعے آئے وہی حقیقی کامیابی ہے۔ انقلاب لانے کے لئیے ضروری نہیں کہ معاملات غیر قانونی ذرائع سے سلجھانے کی انتشار کن کوشش کی جائے بلکہ ملک کی بقاء اور مفاد کے لئیے آئینی و قانونی طریقہ بہترین طریقہ ہے۔ مگر یہاں پر کامیابی کا انحصار صرف ایک فریق پر منحصر نہیں دونوں  مقتدر رولنگ کلاس اور اپوزیشن ورکنگ کلاس کے با ہمی تعاون پر ہے۔ جب تک دونوں فریقین نفرت، فساد اور بے بنیاد الزامات سے پیچھے ہٹ کر تعاون کی بات کریں گے تب ہی کسی معاشرے، ملک وقوم کی ترقی اپنی منازل طے کر پائے گی۔

Facebook Comments

Ghulam Sarwar
پنجاب یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply