پانی زندگی ہے/شہزاد ملک

صومالیہ کے دوسرے بڑے شہر ہرگیسہ میں رہتے ہوئے ہمیں دو تین سال کا عرصہ ہو چکا تھا, شہر ایک پہاڑی وادی میں پیالے کی شکل میں بسا ہوا ہے, سطح سمندر سے بلند ہونے کی وجہ سے موسم سارا سال بڑا خوشگوار رہتا ہے ,نہ  zیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا ! بارشیں بہت کم ہوتی ہیں, اس لئے پانی کی شدید کمی ہے دس پندرہ میل دور ایک مقام پر ایک قدرتی چشمے کا پانی ذخیرہ کر کے زیر زمین پائپوں کے ذریعے ہرگیسہ شہر تک لایا گیا ہے، یہ پانی پرانے شہر کی ضرورت تو کسی حد تک پوری کرتا تھا وہ بھی شہر کے نشیبی علاقوں کی مگر کچھ اوپر بسنے والی پوش آبادیوں کو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا یہاں ٹینکرز کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جاتا تھا۔

اس سال معمول کی سالانہ بارشیں بہت کم ہوئیں، بارشی پانی سے بھرنے والے گڑھے سوکھنے لگے تو گردو نواح کِی چھوٹی آبادیوں کے لوگ پانی کے حصول کے لئے شہر کا رخ کرنے لگے، ہم کبھی بازار جاتے تو پبلک مقامات پر لگے پانی کے نلوں پر مختلف قسم کے برتن اٹھائے ،بچے بچیاں عورتیں اور مرد پانی بھرتے ہوئے نظر آتے ،ہمارا گھر نشیبی علاقے میں ہونے کی وجہ سے ہمارا اوور ہیڈ ٹینک ہمیشہ پانی سے بھرا رہتا تھا، اس لئے ہمیں پانی کی کمی کے مسئلے کی سنگینی کا احساس ہی نہ ہو سکا، گزرتے وقت کے ساتھ جب ہر قسم کے گڑھے ٹوبے ٹبے بارشی پانی سے مکمل خالی ہو گئے تو خانہ بدوشوں کے غول شہر کا رخ کرنے لگے۔

اس دن سڑک کے پار والے سٹور سے کچھ سامان لینے بچوں کو بھیجا تو میں گیٹ سے باہر کھڑی ہوگئی، تاکہ ان پر نظر رہے ،اتنے میں مختلف عمروں کے چھ سات بچے ہاتھوں میں بوتلیں ڈبے اور کین پکڑے میرے قریب آکر کھڑے ہوگئے اور پانی مانگنے لگے ،گیٹ کے پاس ہی اندر نل لگا تھا، میں نے انہیں وہاں سے پانی بھرنے کی اجازت دی تو وہ خوشی سے کھل اٹھے ،وہ پانی بھرتے رہے اور میں ان کو دیکھتی رہی، میلے کچیلےکپڑے ٹوٹے جوتے کسی کے پاؤں ننگے ،الجھے ہوئے گرد آلود بال، غربت اور مفلوک الحالی کا پیکر تھے وہ بچے۔ اوپر سے پانی کی نایابی ۔ بچے تو کسی بھی رنگ اور نسل کے ہوں پیارے لگتے ہیں ،میرا دل ان کی حالت دیکھ کر ہول رہا تھا ،دل چاہتا تھا ان سب کو پکڑ کر صابن سے رگڑ رگڑ کر نہلاؤں ،میں خواہش کے باوجود یہ تو نہ کر سکی مگر ان سب کو کہا کہ اپنے برتن بھرنے کے بعد اپنے منہ ہاتھ اور پاؤں دھولیں۔ اس دن پہلی بار اندازہ ہوا کہ یہ علاقہ پانی کی شدید کمی کا شکار ہے جب پینے کو ہی پانی میسر نہ ہو تو جسم اور کپڑے کیونکر صاف ہوں۔

اگلے دن ہم لوگ دوپہر کو آرام کر رہے تھے کہ گیٹ دھڑا دھڑ پیٹنے کی آواز آئی ،میں نے اٹھ کر دیکھا تو کل والے بچوں کے ساتھ کچھ بوڑھی عورتیں بھی ہاتھوں میں ڈبے پکڑے پانی کی سوالی بنی کھڑی تھیں، پانی دینے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا مگر اتنی دیر کھڑے رہنا مشکل لگ رہا تھا جیسے تیسے میں انہیں بھگتا کر اندر آئی تو ملک صاحب کو صورت حال بتائی، ان کا کہنا تھا کہ انسانی ہمدردی کے تحت ان کی ضرورت پوری کرنا اچھی بات ہے مگر احتیاط ضروری ہے، پھر تو روز کا معمول ہوگیا ادھر تین بجتے ادھر دروازہ بجنے لگتا، تعداد بھی بڑھنے لگی، کسی خطرے سے بچنے کے لئے میں نے کچھ حفاظتی اقدامات اختیار کیے، نل کے ساتھ پائپ لگا کر اس کا سرا گیٹ کے نیچے سے باہر نکال دیا جاتا، گیٹ بند رکھا جاتا ،آدھے گھنٹے کا وقت مقرر کر دیا کہ اس سے زیادہ پانی دینے کی ہماری ٹینکی میں گنجائش نہیں تھی، ہمیں اپنی ضرورتیں بھی پوری کرنی ہوتی تھیں ،ان لوگوں کی ایک بات مجھے بہت متاثر کرتی تھی ،اتنے اجڈ اور جنگلی اور ضرورت مند ہونے کے باوجود وہ دھکم پیل اور مار پیٹ کی بجائے قطار بنا لیتے اور آدھ گھنٹے کے بعد جب میں اندر سے نل بند کر دیتی تو محروم رہ جانے والے خاموشی سے واپس چلے جاتے ۔یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک بارشیں نہیں ہوئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہاں پانی کی قلت دیکھ کر شکر کیا کرتے تھے کہ ہمارا ملک تو جنت ہے جہاں گھنگھور گھٹائیں کھل کر برستی ہیں جہاں دریاؤں ندیوں نالوں میں پانی کبھی کم نہیں ہوتا جہاں باغوں کھیتوں کھلیانوں کو سیرابی کے لیے ہر موسم میں وافر پانی میسر رہتا ہے مگر اس وقت کے حالات ہمیں صومالیہ کے حالات یاد دلاتے ہیں لوگ تو جن کی مثالیں ہی دیتے ہیں مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے پانی زندگی کا دوسرا نام ہے ہر ذی روح پانی کا محتاج ہے اس کرۂ ارض کا جو خطہ پانی میں خود کفیل ہوگا زندگی کا حسن وہیں پہ اپنی رنگینیاں بکھیرے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply