پاکستان سب کا۔۔۔۔ایم ۔اے ۔صبور ملک

حاشاوکلا میرے اس کالم لکھنے کا مقصد کوئی لسانی یا صوبائی تعصب بھڑکانا نہیں،کیونکہ میرے ادنٰی خیال میں تعصب کسی بھی سطح پر ہو مذہبی ہو یا لسانی ،صوبائی ہو یا نسلی انسانیت کے لئے کسی زہر قاتل سے کم نہیں ،جس کی لپیٹ میں آج تک کی معلوم تاریخ میں بنی نوع انسان کروڑوں جانوں کے خون کی قربانی دے چکی ہے،نسلی ،صوبائی اور لسانی تعصب کو میں دو ادوار میں تقسیم کروں گا،پہلا دور ہادی برحق جناب رسالتماب محمدﷺکی ولادت باسعادت سے پہلے اور دوسرا دور آپ ﷺ کے حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائے گئے عالمگیر منشور کے بعد کا دور ہے،جو صفحہ قرطاس پر اپنی سنہری کرنوں تاقیامت روشن ومنور رہے گا،اس خطبے سے پہلے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے خالق کائنات نے ایک لاکھ چوبیس ہزارکم وبیش پیغمبران کرام کو مبعوث فرمایا ،جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں بھٹکی ہو ئی انسانیت کو خالصتاً توحید اور راہ مستقیم کا درس دیا،اللہ کے تما م پیغمبروں کی رشد وہدایت کا اولین مقصد انسان کو ذات پات ،قبیلے ،نسل ،رنگ سے ماوراء ہو کر ایک توحید کی لڑی میں پرونا تھا ،انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ کی بندگی اختیار کرنے کا سبق ان تمام مقدس نفوس نے دیا،اللہ کے ان برگزیدہ نفوس کے علاوہ ہمیں گوتھم بودھ کی تعلیمات کا بھی سراغ ملتا ہے ،جس نے بنی نوع انسان کو بھلائی ،امن پیار اور بھائی چارے کا درس دیا،یہ سب اپنی جگہ لیکن اسلام بنی نوع انسان کی بھلائی اور ہر قسم کے تعصب سے پاک تاقیامت لاریب القرآن کے ساتھ جو عظیم الشان خطبہ حجتہ الوداع آپ ﷺ کی زبان اطہر سے ادا ہو ا،اس کا ثانی تاقیامت ملنا محال ہی نہیں ناممکن بھی ہے،اس خطبے کا ایک ایک لفظ موتی میں پرونے کے قابل ہے،ایک ایک فقرہ اپنے اندر پوری جامعیت سموئے ہوئے ہے،لیکن افسوس غیر مسلم تو ایک طرف آج ہم جو دن رات اسلام کے نام کی مالا جپتے نہیں تھکتے ،وہ ملک جس کی بنیاد کلمہ طیبہ اور اسلام کے نام پر رکھی گئی ،جہاں آئین پاکستان کے لئے قرارداد مقاصد بنیادی اساس کی سی اہمیت رکھتی ہو،آج اسی ملک میں مسلمان کلمہ گو کے ہاتھوں دوسرا مسلمان کلمہ گو محفوظ نہیں ،وہ جو فرمایا گیا کہ لوگو !آج کے دن تمہاری عزت آبرو جان ومال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ دن ،یہ وقت اور یہ شہر مقدس ہے،کسی گورے کو کالے،کالے کو گورے پر عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضلیت حاصل نہیں،ہم اس عظیم الشان خطبے کے کسی ایک نکتے پر بھی عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں،ملک صوبائیت ،لسانیت ،مذہبی فرقہ واریت ،اور نسلی تعصب کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے،مسلمان ہی مسلمان کے خون سے ہاتھ دھو رہے ہیں،لیکن ہمارے سیکیورٹی ادارے اور ایجنسیوں کو سیاست دانوں کی کاسہ گدائی سے فرصت نہیں،آئے دن کوئٹہ میں ہزارہ برادری اور بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے،ابھی جو حالیہ المناک سانحہ ہوا ہے کوسٹل ہائی وے پر ،جس میں ماضی کی طرح شناختی کارڈ چیک کر کے پنجابیوں کو گولیوں مار دی گئیں،سوال اس بات کا پیدا ہوتا ہے کہ آخر پنجاب والوں کا قصور کیا ہے؟وہ پنجاب جسے پوری دنیا میں منفرد طور پر پانچ دریاؤں کی سرزمین ہونے کا شرف حاصل ہے ،وہ پنجاب جو ہیر رانجھا،سسی پنوں،وارث شاہ،دلا بھٹی اور بھگت سنگھ کا پنجاب ہے،وہ پنجاب جس نے کبھی بھی پاکستان کے دوسرے صوبوں سے آنے والوں کے لئے کسی تعصب کا مظاہر ہ نہیں کیا،جہاں کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلبہ و طالبات مکمل آزادی اور بنا کسی ڈر خوف کے تعلیم حاصل کررہے ہیں،وہ پنجاب جہاں کے چپے چپے پر کے پی کے اور کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پختون مختلف قسم کے کاروبار کرکے اپنے کنبے کا پیٹ پال رہے ہیں،وہ پنجاب جہاں سے آج تک کے پی کے اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی پختون کو اپنا کاروبار ختم کرکے کبھی اپنے خاندان سمیت صوبہ بدر نہیں ہونا پڑا،وہ پنجاب جہاں کے گاؤں دیہات میں آج بھی اگر کوئی دواشخاص کے درمیان کوئی چھوٹا موٹا جھگڑا ہو جائے تو دن ڈھلنے تک دونوں کے دل سے کدورت اور غصہ نکل چکا ہو تا ہے،جہاں کے باسی اپنی زندہ دلی ،خوش خوراکی اور کشادہ دلی کی وجہ سے پوری دنیا میں منفرد مقام رکھتے ہیں،مجھے ذاتی طور پر کوئٹہ کے پٹھان ہوٹل کا انڈہ پراٹھا اور چائے بہت حد مرغوب ہے اس لئے جب بھی کراچی جانا ہو تو اس لذت سے ضرور لطف اندوز ہو تا ہوں ،اور اب میرے اپنے شہر میں کوئٹہ کے پختونوں کی جانب سے ایک پہلا کوئٹہ شاندار ہوٹل عنقریب کھلنے جارہا ہے،جس کی سب سے زیادہ خوشی راقم کو ہے،پاکستان سب کا ہے خوشی اور مسرت ہوتی ہے جب ایک صوبے کا بندہ اپنے صوبے کی سوغات اور لذت کام ودہن دوسرے صوبے کے رہنے والوں کو کھلانے کے لئے ان کے ہاں جا کر اپنا کاروبار شروع کرے،اور وہ پنجاب جہاں کی شاہراہوں سے ہر روز ہزاروں مسافر بسیس،ٹرینیں ،مال برداری کے ٹرک پوری آزادی سے تحفظ کے ساتھ پورے پاکستان میں آتے جاتے ہیں،راقم گزشتہ 12سال سے ہر سال بذریعہ بس راولپنڈی سے کراچی جاتا ہے،یقین کیجیے ہر بار جب بھی بس پنجاب سے سند ھ کی حدود میں داخل ہو تی ہے تو کراچی تک جابجا بس کو روک کر سیکیورٹی اہلکار مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عکس بندی بھی کرتے ہیں ،جبکہ پنجاب میں داخل ہوتے وقت صرف سرسری چیک   کیا جاتا ہے،گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب سے خدانخواستہ کوئی دہشت گرد دوسرے صوبے میں داخل ہو گیا ہے ،اسکو کیا نام دیا جائے ؟اب ان لوگوں ان عناصر کا محاسبہ کرنے کا وقت آگیا ہے جنہوں نے ہمارے بیچ یہ نفرت اور بارود کی دیوار کھڑ ی کی ہے،کیوں ایک ہی ملک کے رہنے والے ایک خدا ایک رسول ایک کتاب کے پر یقین رکھنے والوں کے لئے انکے اپنے ہی ملک کے ایک صوبے اور شہر میں حیات تنگ کردی گئی ہے،کیوں پنجاب کے رہنے والوں کے لئے سرزمین بلوچستان کا دامن کم پڑ گیا ہے؟کیوں پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنا سب کچھ بیچ کر کوئٹہ سے نقل مکانی کررہے ہیں؟یہ حالات کو کس طرف لے جایا جارہا ہے؟یہ لوگ جو ہر چند دن بعد آکر معصوم ہزارہ برادری اور بسیں روک کر شناختی کارڈ چیک کرکے بے گناہوں کو مار کر غائب ہو جاتے ہیں ،یہ کہاں سے آتے ہیں ،ان کو کون چیک کرے گا؟کہاں ہیں ملکی سلامتی کے ادارے؟پاکستان کی سلامتی اور اسکے معصوم شہریوں کے خون کی ہولی کھیلنے والوں کو کون اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف بھڑکا کر آگ و خون کی برسات کروا رہا ہے ؟یہ ہے وہ سوال جو اب ملک کی سلامتی سے تعلق رکھنے والے ہر ادارے اور خصوصا ریاست پاکستان کے سامنے اٹھایا جائے۔ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اس سے پہلے کہ یہ آگ باقی ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ہم سب کو ملکر ناراض پاکستانیوں کو منانا ہوگا،آپس کی غلط فہمیاں،دلوں کی رنجشیں اور کدروتیں ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔اور اس کا طریقہ ایک ہی کہ تما م ریاستی ادارے اپنی اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر اپنا فعال کردار ادا کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply