قبا چاہیے اس کو خون عرب سے۔۔۔عدیل عزیز

ہمارے محلے کی چھوٹی  سی مسجد میں بیٹھے قاری صاحب بڑے بڑے خواب دیکھا کرتے تھے۔ اللہ غریق رحمت کرے .یوں محسوس ہوتا تھا جیسے پوری امت کا درد دل ناتواں میں سمائے ہوئے ہیں۔ انہیں کی بدولت ہمارا بچپن خیبر خیبر یا یہود جیش محمد سوف یعود اور یہودیوں کا ایک علاج القتال القتال جیسے ایمان افروز نعرے سنتے گزرا۔ قاری صاحب خطبات کا شوق بھی رکھتے تھے اور شہداء کانفرنسز میں فیض احمد فیض کے شعر وہ “جو تاریک راہوں میں مارے گئے” کو اپنی اجتہادی نگاہ سے تھوڑا تبدیل کرکے “وہ جو پر نور راہوں میں مارے گئے” پڑھا کرتے تھے۔ جب وہ دلسوز انداز میں لہک لہک کر خیاباں میں ہے۔۔۔خیاباں میں ہے۔۔۔۔ منتظر لالہ کب سے قبا چاہیئے۔۔۔قبا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔اس کو خون عرب سے پڑھا کرتے تو سامعین کا جوش جہاد بھی بلندیوں کو چھو جاتا اور مظلوم فلسطینیوں کے نام پر ڈھیروں چندا اکھٹا ہوجاتا۔ بہت بعد میں معلوم ہوا شاید قاری صاحب نے بھی قرۃ العین حیدر کا افسانہ پڑھ رکھا تھا جس میں وہ خیاباں کو بیاباں لکھتی ہیں۔ اس زمانے میں قاری صاحب کو اللہ کے گھر کی خدمت کے عوض پانچ  سو ماہوار ملتے تھے اور سر بکف و سربلندی کے دعویٰ کے ناتے جمعرات اور گیارویں کا ختم بھی نہ آتا تھا مگر ان سب مشکلات کے باوجود اس وقت بھی اپنے لڑکے کو اعلیٰ کوالٹی کے “امریکی بادام” کھلاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ لونڈا جوان ہوکر صلاح الدین ایوبی بنے گا اور معرکہ حطین کی تاریخ دہرائے گا اور ایک ہزار بادام کھا کر یروثلم فتح کرنے جائے گا ۔

چودہ مئی کو اسرائیل کا اکہترواں یوم آزادی منایا گیا تو قاری صاحب یاد آئے۔ ان کا لڑکا یروثلم تو نہ فتح نہ کر سکا مگر پہلے اپنے والد کی سائیکل پر پوش علاقوں کے بچوں کو قرآن مجید پڑھانے جاتا تھا اب سنا ہے کہ گھر پر چند ڈالرز کا ہدیہ لے کر بچوں کو آن لائن قرآن کریم پڑھاتا ہے اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم دیکھ کر صیہونی ریاست کو بد دعائیں دینے پر اکتفا کرتا ہے۔
“ظالم قابض اسرائیلی لاکھوں فلسطنیوں کے قاتل یہودی، ظالم صیہونی بیت المقدس پر قبضہ کر کے بیٹھے ہیں”۔ ایسی ہی باتیں سنتے ہماری عمر گزری ہے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہماری گالیوں, لعنتوں, بائیکاٹ کی دھمکیوں, تیس سے پچاس کلومیٹر رینج رکھنے والے ننھے منے القسام راکٹوں اور فلسطینیوں کی لہراتی  قلاشنکوفوں   سے اسرائیل کا خاتمہ اور فلسطین آزاد ہوجائے گا مگر یقین جانیے ہم غلطی پر ہیں اور قوموں کے عروج و زوال سے نا آشنا ہیں۔اسرائیل یہودیوں کی دو ہزار سالہ محنت اور پھر سے یروشلم پہنچنے کے عزم اور لاکھوں قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ خود سوچیے  اگر ایسی قوم کو شکست دینی بھی ہے تو اس کے لئے امت مسلمہ کی تیاری کتنی ہے۔۔ ہم میں عزم و ہمت اور جذبہ و جنون کتنا ہے اور سب سے بڑھ کر کیا بحیثیت امت ہم ایک بھی یا نہیں۔

علماء حق فرماتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ سے جنگیں نہیں جیتی جاتیں یہ سب تار عنکبوت کی مانند  ہیں ۔اصل قوت جذبہ اور عزم و یقین ہوتا ہے ۔ ہم ان کی بات تسلیم کرتے ہیں اور اگر اسرائیلی جنگی طاقت ایک طرف رکھ کر ایک نظر اس پرعزم قوم کی تاریخ پر ڈالیں اور پھر اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو بہت کچھ عیاں ہوگا۔

چودہ مئی کے ایک گرم اور خشک دن عرب کی فضاوں نے ایک عجب منظر دیکھا، جب دنیا بھر سے لٹے پٹے آئے ہوئے لوگ جن میں بوڑھے جوان مرد خواتین بچے سب ہی  شامل تھے جن کی بولی الگ ،رہن سہن کے طریقے جدا اور رنگت میں واضح فرق ہونے کے باوجود وہ ایک قوم بن چکے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے کاندھوں پر صدیوں سے دنیا بھر کی ذلتوں کا بوجھ لدا تھا۔ مگر پھر بھی آنکھوں میں ایک خواب تھا اور دلوں میں یروشلم سے محبت کا طوفان موجزن تھا۔۔ پھر چشم فلک نے وہ دن بھی دیکھا جب  ان باہمت لوگوں کی آنکھوں میں بسا خواب سچ ہوگیا۔ دل کی بات زباں پر آکر حقیقت بن گئی اور دو ہزار سال بعد دنیا کی پہلی یہودی ریاست کا دنیا میں ایک بار پھر سے ظہور ہوا۔ مگر دنیا کے نقشے پر نووارد یہودی ریاست کے قیام کے پہلے ہی روز اس کے ہمسایہ  ممالک مصر شام اردن عراق, لبنان عرب لیگ اور عرب جہادی لشکروں نے چاروں سمت سے اس پر حملہ کردیا اور یہ جنگ کم و پیش ایک سال تک جاری رہی اور اس میں متحدہ عرب فوجوں کو شکست فاش ہوئی۔ تقسین فلسطین اور دو ریاستی حل کے اقوام متحدہ کے فارمولہ کو عرب ریاستوں نے بھی اسرائیل کی طرح روند ڈالا ۔ فلسطینی ریاست کے علاقے اسرائیل نے ہی نہیں چھینے بلکہ مصر نے غزہ اور اردن نے مشرقی یروثلم پر قبضہ کرلیا اور فلسطینیوں کے حصے مہاجرت ہی آئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسرائیل کو ختم کرنے کا عزم لئے 1967 کی جنگ میں بھی عرب فوجیں برباد ہوئیں اور چھ روز میں ہی غیور عرب ہمت و حوصلہ کے ساتھ مشرقی یروشلم بھی کھو بیٹھے۔ اس کے بعد بھی چھوٹے بڑے معرکوں میں جب حق و باطل ٹکرائے۔ “باطل” کا ہمت و جذبہ ہی غالب رہا۔ ذہنی پسماندگی کا شکار، ملوکیت کے دلدادہ، قبائلی عصبیتوں میں گھرے فرسودہ حال عرب نہ بلند حوصلہ اور جدید تعلیم و ہنر سے آراستہ ذہنوں کو شکست دے سکتے تھے اور نہ ہی دی سکے اور یوں اسرائیل آج بھی عرب کے سینے میں ایک خنجر کی مانند پیوست ہوا نظر آتا ہے او یہ خنجر عربوں کے سینے میں تب تک رہے گا جب تک عرب اپنے آمروں اور بادشاہوں کے تخت نہیں اچھال دیتے ۔اپنی روایتی عصبیت اور غرور چھوڑ کر دنیا میں سر اٹھا کر جینا اور قدم سے قدم ملا کر چلنا نہیں سیکھ لیتے۔ عشروں سے جاری جنگ و جدل کے باعث خون میں نہا کرعربوں کی قبا تار تار ہوچکی ہے۔ خیاباں میں لالہ منتظر ہے مگر اس کا نشاں علم کے موتی اور آبا کی کتابیں تلاش کرنے میں پوشیدہ ہے۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply