محبت کے درد انڈیلتا نامور لکھاری۔۔۔۔ماریہ خان ختک

کمال ہے سرجی بہت خوب لکھا واہ ۔۔۔
ساتھ میں دل والی ایموجی لگاکر وہ اگلی پوسٹ کی طرف بڑھی، زبردست سرجی کیسے سوچ لیتے ہیں اتنی پیاری باتیں ،اس نے کمنٹ لکھا اور ڈن پہ کلک کرکے صوفے پہ دراز ہوکر چلانے کے انداز میں بولی۔۔۔۔ اپیا دیکھو ناں دل ناداں کے پیج پہ کتنی خوبصورت پوسٹ اپلوڈ ہوئی ہے ۔۔افففف اپیا پڑھیں ناں۔۔
پڑھ چکی ہوں میں ۔ میں کچن میں سے چائے کا کپ لے کر نکلتے ہوئے بولی۔
کیا۔۔ آپ پڑھ چکی ہیں؟ پر آپ کا تو کوئی کمنٹ موجود ہی نہیں وہاں ۔۔وہ صوفے پہ پاؤں سمیٹتے ہوئے بولی ۔
ہر تحریر ہر بندے کیلئے نہیں ہوتی چندا۔۔
نہ ہی ہر تحریر پہ کمنٹ دینا ضروری ہوتا ہے۔میں نے ٹی وی کی طرف دھیان دیتے ہوئے کہا ۔
لیکن اپیا یار۔۔۔ دیکھیں نا پتہ نہیں اتنی باتیں کہاں سے آجاتی ہیں ان کے مائنڈ میں، کیسے لکھ لیتے ہیں اتنا سب کچھ اور اتنا اچھا ان کی ایک ایک تحریر کتنے خوبصورت الفاظ چن کر لکھی گئی  ہوتی ہے موقع محل کی مناسبت سے، آپی آپ دھیان نہیں دیتیں کسی بھی تحریر پر دیکھیں نا جو آج شائع ہوئی  ہے وہ تو جیسے جادو کرگئی  ہو مجھ پہ ،آپی مجھے ان ایڈمن س صاحب ملنا ہے۔
کیا؟۔۔ پاگل ہوگئی  ہو تم؟ دماغ ٹھیک ہے تمھارا ؟۔
میں بات کرچکی ہوں سنڈے کو جانا ہے اور میں نے آپ کا بھی کہہ دیا ہے امی سے کہ ہم اریبہ کے گھر جارہے ہیں اور بس ۔۔۔وہ اس انداز سے بولی جیسے مجھے فیصلہ سنارہی ہو۔۔
لگتا ہے تمھارا دماغ واقعی خراب ہوگیا ہے میں کوئی نہیں جھوٹ کہنے والی امی سے۔۔
اپیا میری شونی اپیا میری پیاری اپیا میری جان اپیا میرا مان اپیا آپ میرے لیے اتنا نہیں کرسکتیں۔ اور پھر آپ بھی تو امی جیسی  ہی ہو میرے لیے۔۔وہ میرے گرد اپنی بانہیں لپیٹ کر پیار جتاتے ہوئے بہت مان سے بولی ۔
اچھا چھوڑو مجھے جاکر برتن دھونے ہیں ۔میں اسے کچھ بھی جواب دیے بغیر اٹھتے ہوئے بولی۔۔ میں ہوں ناں میں دھولوں گی  ۔۔۔۔وہ اپنی بات منوانے کیلئے مخصوص انداز میں کہنے لگی۔۔۔
وہ ایسی ہی تھی بچپن سے بہت حساس طبیعت کی اور منچلی ،محبت سے پہاڑ کھود لینے والی اور نفرت سے اپنے نقصان کی بھی پرواہ نہ کرنے والی ۔۔
کئی بار   معمولی بات سے تنگ آکر اس نے خود کو بہت تکلیف پہنچائی تھی ۔

میں اٹھ چکی تھی اس کے چہرے پہ اٹل تاثرات کے ساتھ گہری خاموشی تھی وہ ناخن چبانے لگی تھی ۔
جب بھی وہ کسی ناسمجھ آنی والی کیفیت سے دو چار ہوتی وہ ایسے ہی ناخن چباتی ۔۔
گہری سوچوں میں گم تھی اور میں اسے دیکھ کر یہ سوچ رہی تھی کہ اگر میں ساتھ نہ ہوئی  تو وہ کسی بھی دوسرے طریقے سے جائے گی وہ مجھ سے بہت ہی کلوز تھی ہر بات شئر کرتی، باقی سب سے دور تھی جانے انجانے وہ کوئی  نقصان نہ کربیٹھے، بار بار یہی خیال آ آ کر مجھے پریشان کیے جارہا تھا ۔۔

دوسرے دن میں نے اس کا فیسبک اکاونٹ لاگ ان کیا اور جلدی جلدی دلِ ناداں پیج پر ایڈمن سے کی جانے والی باتیں  پڑھنے لگی تعریفوں منتوں سماجتوں کے بعد ایڈمن نے پرسنل آئی ڈی لنک بھی دیا ہوا تھا جسے شانزے ایڈ بھی کرچکی تھی اور پرسنل آئی ڈی پر بھی قریباً تین ماہ سے کی گئی چیٹ موجود تھی ہر پوسٹ کی تعریف انباکس میسجز میں موجود تھی ۔
ابھی یہ سب دیکھ ہی رہی تھی کہ شانزے مجھے ڈھونڈتے ہوئے کمرے میں آئی ۔۔۔اپیا کیا ہورہا ہے جاسوسی کررہی ہیں ۔وہ پھر میرے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے بولی میری پیاری اپیا چلو گی ناں؟
میں ہمم کرتے ہوئے وہاں سے اٹھی دل میں یہی خیال آرہا تھا کہ جس جگہ کا ایڈریس دیا گیا تھا وہیں قریب میں مس نادیہ کا گھر بھی تھا دونوں فیمیلز کا آنا جانا تھا ۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ناظم آباد کی بے ترتیب تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم بالآخر ایک خستہ حال مکان کے دروازے پہ تھے ۔جس کا دروازہ ہی مکینوں کی حالت زار بتانے کو کافی  تھا آس پاس سیاسی پارٹیوں کے مکمل اور نامکمل بینر  لگے ہوئے تھے ۔
دروازہ کسی خاتون نما لڑکی نے کھولا جس نے دوپٹہ سر کے اوپر باندھ کر پیچھے کو کیا ہوا تھا ساتھ میں ایک خوبصورت بچہ بہت معمولی اور پرانےکپڑوں میں تھا ۔۔ آئیں اندر آئیں ۔
جی السلام علیکم ۔۔۔
وعلیکم السلام اندر تو آئیں ۔۔۔
وہ اس انداز سے ہمیں کہہ رہی تھی جیسے ہمیں جانتی ہو ۔
اندر صحن میں تین بچے مزید کھیل رہے تھے جو کہ شرارتوں میں مگن تھے دو کمروں پہ مشتمل یہ مکان کہیں سے بھی رہنے کے قابل نہیں لگ رہا تھا یا پھر غربت کی انتہا پہ پہنچ کر اپنی کہانی آپ سنارہا تھا بلکہ دکھا رہا تھا۔
ہم اندر کمرے میں پہنچے جہاں ایک چارپائی سلیقے سے پڑی تھی ساتھ میں چٹائی  پہ دیوار کے ساتھ تکیے رکھے ہوئے تھے ۔سامنے کی طرف   کھڑکی کھلی تھی جس سے صحن میں بچے کھیلتے نظر آرہے تھے۔
دوسری طرف ایک الماری اور الماری کے ساتھ ہی اک پرانی ٹیبل جس پہ کچھ کتابیں اور ایک ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر موجود تھا ۔جس کے ساتھ ہی ایک سادہ سا موبائل چارج پہ لگا ہوا تھا جس کا اوپری حصہ ٹوٹ چکا تھا اور اب اس پہ ربڑ کی گرفت ہی اس کو تھامے ہوئے تھی ۔غرض ہر ہر چیز سے غربت چھلک رہی تھی۔۔۔
جی آپ کا کیسے آنا ہوا یہاں؟۔۔۔۔
خاتون ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی لیکن بہت مہذب اور شائستہ انداز میں مخاطب ہوئیں۔ لگ نہیں رہا تھا کہ اس گھر کی بوسیدگی و تلخی اس کے اخلاق کو چھوکر بھی گزری ہو کیونکہ عموماً ہمارے ہاں معاشی تنگی بہت جلد اخلاقی رویے پہ اثر انداز ہوتی ہے ۔
شانزے بالکل چپ چاپ محوِحیرت تھی۔ جی ہم یہاں نئے آئے ہیں مرد ٹیلرز کے بجائے کوئی  خاتون ٹیلر ہو تو کسی نے آپ کا بتایا۔۔
جی میں کرتی ہوں سلائی  محلے والوں کے کپڑے ۔
تھوڑی گفتگو کے بعد میں نے کہا آپ کیسے کرلیتی ہو بچوں کے ساتھ گھر کا کام پھر یہ سلائی  وغیرہ ۔۔۔۔
میاں کیا کرتے ہیں آپ کے؟
کہنے لگی: جاب نہیں ہے۔بہت جگہ اپلائی  کیا انٹرویوز دیے لیکن  نوکری نہیں ملی، جہاں ملی تو سیلری بہت کم اور کام زیادہ لیتے تھے پھر چھوڑ دیتے ہیں۔
کچھ نہ ہونے سے تو ہونا پھر بھی بہتر ہے۔۔۔۔
۔میں نے بنا توقف کہا۔
جی انسان کے اندر لگن ہو تو پتھروں پہ محنت کرکے بھی روزی نکال لیتا ہے۔ بس محنت ضروری ہے ۔یہ کہتے ہوئے اداسی کے سائے مزید گہرے ہوگئے اس کے چہرے پر ۔۔۔۔
آپ ماشااللہ بہت اچھی باتیں کرلیتی ہیں ، پڑھی لکھی ہیں؟
جی میں نے ماسٹرز  کیا ہے۔
تو آپ کوئی  جاب کیوں نہیں کرتیں۔
شروع شروع میں کرتی رہی ہوں لیکن یہ مرد ذات بہت وہمی ہوتی ہے۔اسے وہم ہوتا ہے کہ کہیں ان کی مردانگی پہ حرف نہ آجائے ۔
دروازہ کھلتا ہے ایک 35 سال کے قریب نو جوان گھر میں داخل ہوا خوبصورت وضع قطع سے لباس اور بال سنورے ہوئے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا کھڑکی سے خاتون کی نظر پڑی تو فوراً اٹھ کر باہر چلی گئی۔وہ شخص کچھ ہدایات دے کر چلنے لگتا ہے ۔ایک بچہ بھاگ کر پاپا پاپاکرتے اس کے پاس جاکر کچھ کہتا ہے وہ شخص بچے کو نظر انداز کرتے ہوئے  اپنی بات جاری رکھتا ہے ۔خاتون بچے کو بازو سے پکڑ کر اس شخص کی بات دھیان سے سن کر بچے سمیت کمرے میں داخل ہوتی ہے ۔وہ شخص دوسرے کمرے میں چلاجاتا ہے۔
تھیلا اب بھی خاتون کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس میں سے کولڈ رنک اور کیک نکال کر فریج میں رکھتی ہے  اور نمکو چپس اور دیگر چیزیں الماری کے اوپر رکھ کر ہماری جانب متوجہ ہوتی ہے۔۔
کس کے کپڑے سلوانے ہیں آپ نے ؟
مم میرے کپڑے ۔۔ جانے کیوں یہ جملہ بہت تیزی سے میرے منہ سے نکلا ۔۔۔
ٹھیک ہے جی آپ لے آئیے گا پھر کپڑے اور ڈیزائن کے مطابق میں آپکو پیسے بتادوں گی ۔
جی۔۔ مشکل سے صرف اتنا ہی کہہ پائی تھی میں ۔
پرس اٹھایا شانزے کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے باہر نکل گئی۔۔
بے یقینی کی سی کیفیت تھی۔شانزے بھی حیران تھی ساتھ ترس بھی آرہا تھا۔ آٹو لیا اور فوراًبیٹھ کر گھر آگئے ۔
دوسرے دن حسب وعدہ میں نے ایک شرٹ نکالی مجھے کپڑے سلوانے نہیں تھے بس ویسے ہی کہہ دیا تھا ۔اب سوچا اک شرٹ تھوڑی سی کھلی ہے اس کی فٹنگ کے بہانے ہی قول کو پورا کردوں ۔تمہارے پاس جتنے پیسے ہیں یہاں لانا ۔۔میں نے شانزے کو آواز دی ساتھ اپنے پرس کی تلاشی لینے لگی ۔
پورے چار ہزار یہ لیں ۔۔شانزے پیسے مجھے دیتے ہوئے بولی ۔۔پر کیا کرینگی پیسوں کا ؟
تم چلو بتاتی ہوں راستے میں ۔۔۔
امی میں یہ شرٹ درزی کو دینے جارہی ہوں شانزے میرے ساتھ جارہی ہے۔میں زور سے چیختے ہوئے بولی، واشروم کا روشن دان جس کی طرف منہ کرکے اوپری منزل پہ کپڑے دھوتی امی کو پیغام دینا بچپن کی عادت تھی۔
جلدی جلدی آٹو والے کو پیسے دیے اور انہی  بےترتیب گلیوں سے ہوتے ہوئے دروازے پہ دستک دی ۔سامنے وہی خاتون تھیں مسکراتے ہوئے اندر لے گئیں ۔
اب کے ہم دوسرے کمرے میں تھے پہلے کمرے میں وہی جوان سگریٹ پھونک رہا تھا بےترتیب بالوں کےساتھ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کے کی بورڈ پہ تیزی سے انگلیاں چلارہا تھا۔
میں نے جھٹ تھیلی سے شرٹ نکال کر کہا۔۔
اس پہ جلدی سے ایک سلائی  لگادیں اندر کو تھوڑی فٹنگ ہوجائے گی۔ابھی کرکے دیدیں سامنے پڑی مشین کو دیکھ کر میں نے کہا ۔
اتنا کام نہیں ہے ۔بس سائیڈ پہ سلائی  لگانی ہے ۔اس نے شرٹ لی ہم رنگ دھاگہ سیٹ کیا اور پھرتی سے سلائی  لگانے لگی اتنے میں ان کی پڑوسن آئی  اور خاتون کی طبیعت پوچھنے لگی ۔مجھے پڑوسن کے لہجے پہ حیرانگی ہوئی، مجھے استفساری کیفیت میں دیکھ کر پڑوسن خود ہی بولی ! یہ بیچاری دن رات بچوں کیلئے سلائی  کرکےگزارا  کرتی ہے پھول سی صورت دیکھو کیسے مرجھاگئی  ہے ۔کل بھی بہت مارا ہے اس کے شوہر نے۔۔
وہ کیوں! میں خاتون کی جانب متوجہ ہوئی۔۔ نہ پوچھیں یہ میری پڑوسن بیچاری حد سے بڑھ کر ہمدرد ہے ۔بس کل ان کے دوستوں نے آنا تھا جو کسی وجہ سے نہ آسکے بس جو پیسے گھر میں رکھے تھے وہ دوستوں کیلئے پہلے ہی تکلف میں خرچ کرچکے تھے۔جس کی وجہ سے ان کا موڈ خراب ہوگیا تھا پھر بچے الگ تنگ کرر رہے تھے ۔ ذہنی پریشانی کا آؤٹ پٹ کہیں تو نکلنا تھا ویسے بہت اچھے ہیں ۔بس کبھی کبھی ۔۔
میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اتنی مہذب خوبصورت بیوی اتنی صابر اتنی شاکر ۔اس پہ ہی دوستوں کا غصہ نکال رہا ہے وہ شخص جو سوشل میڈیا پہ اپنے پیج سے دن رات حقوق نسواں کا علمبردار ہے ۔
عورتوں کی نفسیات کو سمجھنے کیلئے ان سے محبت جتانے کیلئے جو دن رات کی بورڈ سے سکرین پہ الفاظوں کو جوڑ کر نصیحتوں کے گلدستے شائع کرتا ہے ۔اک نام ہے جو محبت، محبت کو سمجھنے اور محبت میں قربانیوں کے تذکروں سے نفرتوں کو مٹانے کی علامت مانا جاتا ہے ۔
اے کاش کہ وہ شخص یہ بات سمجھ لے کہ بیشک اس نے اپنی محبت نہ پائی  ہو لیکن اس جرم میں کسی اور کو کیوں سزا دے ۔
جو محبت اس کو اپنا مانتی ہے وہ اسے محسوس کرے کہ سکرین پہ اگر اپنی مرحوم محبت کے درد انڈیلنے کا موقع ملتا ہے تو اے کاش کہ سکرین سے باہر کی  محبت کو درد میں تبدیل ہونے سے روک سکیں اسے مرحوم ہونے سے روک سکیں اسے قبرستان میں دفن ہونے کے بجائے دل میں دفن کر کے اسکی روح کو بھٹکنے سے روکیں ۔۔اے کاش ایسا ممکن ہو
یہ لیں جی ہوگئی  آپ کی شرٹ فٹنگ میں ۔۔۔
میں نے شرٹ لی ۔پانی ملے گا میں اپنے گلے سے تھوک بمشکل نگل کر بولی ۔۔وہ جلدی سے کچن میں گئی  گلاس میں پانی لائی۔۔معاف کیجیے میں آپ سے پانی کا پوچھنا بھی بھول گئی۔۔
کتنے پیسے ہوئے ؟ ۔ اتنا سا ہی تو کام تھا اس کے کیا پیسے۔ آئندہ جب پورا سوٹ سلوائیں گی تو پیسے بھی دے دیجیے گا ۔۔۔۔ اس کے لہجے میں بلا کی اپنائیت تھی لیکن اسے کون بتائے کہ پورا سوٹ تو کیا ہم تو ابھی بھی بہانے سے آئے ہیں ۔
میں نے پرس سے دوہزار روپے نکالے اور کہا یہ سلائی کے پیسے نہیں ہیں بلکہ تم بہت اچھی ہو۔بچوں کیلئے کچھ لے لینا میری طرف سے ۔۔ میں نے اصرار کیا۔
نہیں نہیں ایسا کیسے ۔۔آپ رکھیں انہیں میں صرف اپنی محنت کے پیسے لیتی ہوں ۔وہ خودداری سے بولی ۔۔۔۔ عجیب خودداری ہے ہماری گھٹی میں بھی بندہ ضرورت مند ہوتے بھی بنا محنت مدد نہیں لیتا کسی سے ۔۔۔
دیکھو پہلی بات یہ تمہارے لیے نہیں ہیں نہ تمہاری محنت کیلئے یہ میری طرف سے بچوں کے لیے ہیں ۔اور تم نے بھی تو فری میں شرٹ کی فٹنگ کردی ۔
یہ کہہ کر میں نے شانزے کو دیکھا وہ ڈائری میں کچھ لکھ رہی تھی۔۔۔
فوراً پیج پھاڑ کر پلٹ کر بولی مجھے بھی پانی چاہیے ۔مجھے بہت حیرت ہوئی شانزے کسی ایسے گھر میں پانی تو کیا سانس بھی لینا گوارا نہیں کرتی پانی کیسے مانگ لیا ۔۔ خاتون پانی لینے گئی، شانزے نے پیج سامنے رکھی کتاب میں رکھ دیا اتنے میں خاتون پانی لیکر آئیں پانی پیا اور باہر نکلتے ہوئے شانزے نےصحن میں رک کر دوسرے کمرے سے بچے کو بلایا وہ صاحب بھی ایک لمحہ کو متوجہ ہوئے اور بیٹے کو بھیج کر پھر سے کمپیوٹر میں مصروف ہوگئے۔۔
شانزے نے بچے کو پیار کیا اور اپنے پرس سے کچھ ٹافیاں نکال کر بچے کو دی۔۔۔
ہم نکل چکے تھے پاؤں تھے کہ بوجھل سے قدم لینے پہ مجبور تھے ۔
گھر پہنچ کر شانزے نے فیسبک آن کی ،سی فرسٹ پہ اس کی پوسٹ تھی وہی کاغذ کی پک اپلوڈ کی تھی جس پہ شانزے نے لکھا تھا
“دل ناداں آپ واقعی ناداں ہو لیکن اپنی پھول سے بیوی کو ناداں مت سمجھیے گا ۔وہ بھی درد احساس اور جذبات رکھتی ہے بالکل آپ کی طرح ،شاید آپ سے بھی زیادہ”
یہ کاغذ وہ اپنی بیوی کی طرف سے گزشتہ کل کو ہونے والی لڑائی  پہ منانے کا انوکھا انداز سمجھا تھا اور کیپشن  میں لکھا تھا مائے وائف مائے لائف ۔۔۔۔
میسنجر دیکھا ۔۔۔
اس کے میسج تھے
کب آرہی ہیں آپ ؟
آنے سے پہلے فون ضرور کیجئے گا تاکہ میں کہیں کام سے چلا نہ جاؤں۔
میں پاس کھڑی تھی شانزے نے مجھے دیکھا اور رپلائے کیا گھر والوں نے اجازت نہیں دی اور  سینڈ کردیا۔۔۔۔
ساتھ ہی بلاک آپشن پہ کلک کیا
۔۔۔اور اسٹیٹس لگایا
“اگر آپ حادثاتی طور پر ٹوٹ چکے ہیں تو اپنے شریک حیات کو جان بوجھ کر توڑنے کی کوشش نہ کیجیے”

Facebook Comments

ماریہ خان خٹک
میرا نام ماریہ خان ہے خٹک برادری سے تعلق ہے ۔کراچی کی رہائشی ہوں ۔تعلیم ،بچپن اور دوستوں کے ساتھ سندھ کی گلیوں میں دوڑتی رہی ہوں ۔ کتابوں کے عشق اور مطالعے کی راہداری کو عبور کرنے کی چاہ میں خود قلم اٹھانے کی لگن ہے ۔طالب دعا ہوں اللہ تعالی قلم کا حق ادا کرنے کی توفیق دے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply