لاپتہ کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے ۔۔ اظہر سید

بلوچستان وفاق کا ایک اہم حصہ ہے اور ناراض بلوچ نوجوان پاکستان کا اثاثہ ہیں ۔پنجاب کے راہنما نواز شریف سے روا رکھے جانے  والے سلوک پر پنجاب میں پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات پیدا ہوئے ہیں ۔اگر کہیں پنجاب کی مقبول قیادت کو بلوچ راہنماؤں کی طرح ریاستی طاقت اور جبر کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھونا پڑیں تو پنجابی نوجوان بھی ہتھیار اٹھا لیں گے ۔جبر اور طاقت سے مسائل حل ہوتے تو سوویت یونین اور امریکی افغانستان میں کامیاب ہو جاتے ۔

پنجاب میں بھی نوجوان اسی تعداد میں لاپتہ ہوں جس تعداد میں بلوچی لاپتہ ہوتے ہیں تو یہاں بھی پاکستان مخالف قوتوں کو پنجابی نوجوانوں کو ورغلانے کا موقع مل جائے ۔ وفاق کے اس بڑے صوبے میں بھی مرکز گریز جذبات پیدا ہو جائیں ۔

افغانستان میں طالبان کی مسلسل کامیابی سے اس جنگ زدہ ملک میں پاکستان مخالف پراکسیوں کو محفوظ تربیتی کیمپوں میں رکھنا ناممکن ہو گیا ہے ۔
وقت آگیا ہے کہ افغانستان کے تربیتی کیمپوں سے محروم ہونے والے ریاست سے ناراض بلوچ نوجوانوں کو پاکستان عام معافی کا اعلان کر کے ماں کی طرح گلے سے لگا لے ۔بلوچ نوجوان ہمارے اپنے ہیں ۔پاکستان کی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ان نوجوانوں نے ریاستی پالیسوں کے خلاف بندوق اٹھائی تھی ۔اس سے پہلے کہ کوئی اور قوت ان نوجوانوں کے سر پر ہاتھ رکھ دے ان ناراض بلوچ نوجوانوں کو قومی دھارے میں واپس لانا قومی سلامتی کیلئے اشد ضروری ہے ۔صرف اس ایک فیصلے سے بلوچستان میں فوجی اسٹبلشمنٹ کی ساکھ اور احترام میں جس قدر اضافہ ہو گا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھارتیوں کی افغانستان میں ناکامی کے بعد واپسی کے سفر کی ضرورت ہے ۔پختون تحفظ موومنٹ کو بھارتی اور افغان فنڈنگ کی کہانی بھی افغان حکومت کے خاتمہ کے بعد ختم ہو جائے گی ۔بھارتی افغانستان میں ناکامی کے بعد معاشی بحران کا شکار پاکستان کو تنگ کرنے کیلئے سرحدیں گرم کر سکتے ہیں ۔پیش آئندہ چیلنجز سے صرف قومی یکجہتی سے ہی بچا جا سکتا ہے ۔ پختون تحفظ موومنٹ کو بھی گلے لگایا جائے ۔ مستقبل قریب میں افغان طالبعلموں کے خلاف پاکستان کو کاروائی کیلئے گھیرا جائے گا ۔طالبعلموں کی کامیابی کا الزام بھی لگایا جائے گا ۔ پختون تحفظ موومنٹ کی اسٹیبلشمنٹ کو اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئےسخت ضرورت ہو گی ۔ مشکل وقت آنے سے پہلے گھر کے حالات درست کر لئے جائیں تو درپیش چیلنجز سے نپٹا جا سکتا ہے ۔

پاکستانی اسلام کے اعتدال پسند چہرے مولانا فضل الرحمٰن کو انگیج کرنے کے ساتھ پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات ختم کرنا بھی بہت ضروری ہے ۔نواز شریف کے مطالبات تسلیم کئے جائیں اور عوامی سطح پر معذرت کر لی جائے کہ پاکستان ہے تو فوج اور دوسرے ادارے ہیں ۔ہمارے منہ میں خاک پاکستان کو نقصان پہنچا تو سب بھگتیں گے ۔نہ ڈی ایچ اے میں کروڑوں کے پلاٹ ہونگے نہ دوسری عیاشیاں ۔ امیرانہ زندگی گزارنے کیلئے اس ملک کا قائم رہنا اور مستحکم ہونا بہت ضروری ہے ۔

پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس چین ایسی دوسری آپشن موجود ہے ۔افغانستان میں طالبعلموں کی کامیابی کے بعد امریکیوں پر اعتماد کرنے کی بجائے چینی دامن میں پناہ لی جائے اور چینیوں کے تحفظات دور کئے جائیں ۔
آنے والے دنوں میں پاکستان پر دوہری گیم کے الزامات لگنے ہیں ۔ابھی سے تیاری کر لی جائے ۔پی ٹی ایم اور بلوچ نوجوانوں کو گلے سے لگا کر ، ووٹ کو عزت دے کر اور چین کے تحفظات دور کر کے قومی یکجہتی کے زریعے ہی مغرب اور امریکی قہر سے بچا جا سکتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

فوج کے خلاف پاکستان میں ایک مخصوص فضا پیدا ہو چکی ہے جبکہ عالمی سطح پر بھی گھیرا بتدریج تنگ کیا جا رہا ہے ۔جتنا جلدی سیاسی معاملات سے خود کو دور کر کے بیرکس میں پناہ لے لی جائے ملک کیلئے فائدہ مند ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply